Nai Baat:
2025-04-26@01:08:31 GMT

ٹرمپ کارڈ اور WASP

اشاعت کی تاریخ: 26th, January 2025 GMT

ٹرمپ کارڈ اور WASP

امریکہ کی سیاسی تاریخ میں سابق صدر جان ایف کینیڈی نے سفید اسٹیبلشمنٹ ( دجالی جنگی ادارہ) سے ٹکر لی تھی۔ پھر اس کا انجام پوری دنیا نے دیکھا۔ کہ کس طرح اسے پراسرار طریقے سے نومبر 1963 کو سرعام شاہراہِ پر قتل کر دیا گیا۔ اب ٹرمپ نے براہ راست دجالیوں (سفید اسٹیبلشمنٹ) سے پنگا لے لیا ہے۔ کیا 61 سال بعد سیاسی قتل کی تاریخ ایک دفعہ پھر دہرائی جانے والی ہے ؟۔
راقم کی رائے میں اس کے 2 پہلو ہو سکتے ہیں۔1- یہ ایک حقیقت ہے کہ ٹرمپ کٹر یہود نواز ہے اور انہی کی مکمل سپورٹ سے ہی وائٹ ہاﺅس تک پہنچا۔ غزہ میں جاری جنگ میں یہودی یرغمالیوں کو چھڑانے میں جب اسرائیل ناکام ہو گیا۔ تو انہوں نے ٹرمپ کو لانے کا فیصلہ کیا۔ یہ ٹرمپ ہی تھا جس کی دھمکیوں کی وجہ سے جنگ بندی کا معاہدہ ممکن ہو سکا۔ امریکی تاریخ میں یہ ٹرمپ ہی تھا جس نے اپنے پہلے دور حکومت میں بیت المقدس ( یروشلم) کو اسرائیل کا دارالحکومت قرار دینے کا اعلان کیا تھا۔ بھلا وہ اسرائیل کو کیوں مجبور کرے گا کہ وہ حماس کے ساتھ معاہدہ کرے ؟ جس طرح سے پچھلے چند دنوں سے سوشل میڈیا میں بڑا شوروغل تھا کہ ٹرمپ نے اسرائیل کو معاہدے کے لیے مجبور کر دیا۔
دراصل اہل بصیرت کو عالمی اسٹیبلشمنٹ کی ڈاکٹرائن کو سمجھنے کی اشد ضرورت ہے۔ اسرائیل کو معاہدے کے لیے دبانا درحقیقت کٹر اسرائیل نواز ٹرمپ کا دکھاوا تھا۔ کیونکہ یرغمالیوں کی وجہ سے اسرائیل کی گوٹ پھنس چکی تھی اور نکلنے کا کوئی راستہ نظر نہیں آ رہا تھا۔ تب چالاک و عیار یہودیوں نے ٹرمپ کارڈ استعمال کیا۔ بہرحال یہ خدشہ اب بھی موجود ہے کہ وقت آنے پر خفیہ ہاتھ کوئی نہ کوئی ایسا فتنہ ضرور کھڑا کریں گے جس سے جنگ کے شعلے دوبارہ بھڑک اٹھے۔ لیکن اس دفعہ بھڑکنے والے شعلے ایسے ہولناک آتش فشاں میں بدل جائیں گے جو سعودی عرب سے لے کر پاکستان تک کو لپیٹ میں لے لے گا۔
خیال رہے کہ امریکہ میں صدارتی عہدہ ایک نمائشی ، کٹھ پ±تلی عہدہ ہوتا ہے۔ ان کو اس سے کوئی غرض نہیں کہ کون آ رہا ہے کون جا ہے ؟۔ سب سے اہم بنیادی محور یہ ہے کہ ان کی پالیسیوں کا تسلسل بغیر کسی رکاوٹ کے ساتھ جاری رہنا چاہیے۔ چاہے اس کے لیے کوئی بھی قیمت ادا کرنا پڑے۔ جیسے شاہ فیصل شہید ، ذوالفقار علی بھٹو مرحوم ، صدام حسین رحمہ اللہ، جان ایف کینیڈی کا قتل ، ضیاءالحق شہید رحمہ اللہ کے ساتھ اپنے سفیر کو مروا دینا۔اور اب بظاھر اسرائیل کو مجبور کر کے جنگ بندی کا معاہدہ کرانا۔ لہٰذا سیاسی تقلید کی حامل سادہ لوح پاکستانی قوم اور قوم پاکستان سے کئی دہائیوں سے غلط بیانیاں کرنے والے میڈیا کو فریب ، جھوٹ کی دنیا سے نکل کر تلخ سچائی پر مبنی حقائق کا سامنا کرنے کی اخلاقی جرا¿ت پیدا کرنی چاہیے۔
جب نیتن یاہو کہہ رہا تھا کہ ہماری اپروچ تمام مشرق وسطیٰ تک ہے تو وہ کوئی ہوا میں دھمکی نہیں دے رہا تھا بلکہ حقائق کی بنیاد پر اپنی ڈاکٹرائن کی عکاسی کر رہا تھا بحیثیت مسلمان ہونے کے ناتے قرآن و سنت سے رہنمائی لینی چاہیے۔
لہٰذا اختیارات کا جو اصل مالک ہے ، طاقت کا جو اصل منبع ہے وہWhite Anglo-Saxon Protestants or Wealthy Anglo-Saxon Protestants (WASP) Establishment.

اسٹیبلشمنٹ ہے۔ جس کے پاس ہر اس ملک ، لیڈر ، سیاسی ، دینی و حریت پسند جماعتوں اور ان کے سربراہوں کی مکمل فائلیں ہوتی ہیں ، الگ الگ ڈیسک ہوتے ہیں۔ جن سے اس اسٹیبلشمنٹ کے WASP کے مفادات وابستہ ہوتے ہیں یا پھر ان کی پالیسیوں کا ٹکراو¿۔ جن پر روزانہ کی بنیاد پر بحث و مباحثہ ہوتا ہے۔ ان کی ترجیحات ان کے مفادات ہیں ، جو دنیا کو کنٹرول کرنے کی بنیاد پر ہے۔ ان ترجیحات سے ٹکرانے والوں کو انجام تک پہچانا ان کے لیے کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔ لہٰذا کسی بھی پاکستانی سیاسی جماعت اور اس کے شیدائیوں کو اس حوالے سے کسی خوش فہمی کا شکار نہیں ہونا چاہیے۔
مغرب و امریکہ کے انسانی بنیادی حقوق سے متعلق جتنے بھی نعرے ہیں ، وہ بھی ان کی پالیسیوں کے تابع ہیں۔ کیونکہ جب بھی اسلام و مسلمانوں کے حقوق کی بات آتی ہے تو چودہ صدیاں پرانا مذہبی تعصب ان کے نظریات ،سوچوں اور فکروں پر غالب آ جاتا ہے۔ جیسے نہتے و محصور بےگناہ اہل غزہ کی بدترین نسل کشی کے دوران ہوا۔ جب آئے روز امریکہ سمیت یورپ بھر میں غزہ کے معصوموں کے حق میں بھر پور احتجاج ہوتے رہے۔ لیکن WASP کے کرگسوں نے انہیں کوئی اہمیت نہ دی۔ کیونکہ یہ سفید اسٹیبلشمنٹ ( ورلڈ کنٹرول) کی بنیادی پالیسیوں کے متصادم تھا۔بہرحال جو WASP کے جنگی ہیڈ کوارٹر ( پینٹاگان) کے غلام امریکی قوم کے لیے لمحہ فکریہ بھی ہے۔

ذریعہ: Nai Baat

کلیدی لفظ: اسرائیل کو رہا تھا کے لیے

پڑھیں:

فلسطین سے دکھائوے کی محبت

58 سالوں سے مسلمانوں کے قبلہ اول پر طاقت کے زور پر قبضہ جمائے بیٹھے ہوئے یہودی ملک اسرائیل نے حالیہ 17 مہینوں میں فلسطینی مسلمانوں کو اپنی بربریت بلکہ جانوروں سے بھی زیادہ وحشیانہ بربریت سے شہید اور غزہ سمیت فلسطین کی اینٹ سے اینٹ بجا دی اور مسلمانوں کے رہائشی علاقوں، عمارتوں، تعلیمی اداروں، امدادی کیمپوں کو ہی ملبے کے ڈھیر میں نہیں بدلا بلکہ غزہ کا آخری اسپتال بھی اپنی بم باری سے تباہ کر دیا اور مریضوں کو جبری طور پر باہر نکال کر فلسطین میں کوئی ایسی جگہ تک نہیں چھوڑی کہ لاکھوں فلسطینی کہیں اپنا علاج ہی کرا سکیں۔

 جنگ بندی کے معاہدے کے بعد بھی غزہ میں اسرائیلی بربریت رکنے میں نہیں آ رہی۔ تیس فیصد علاقے پر اسرائیل قبضہ کرچکا اور اسرائیلی وزیر دفاع واضح کرچکا ہے کہ کوئی انسانی امداد غزہ میں داخل نہیں ہونے دی جائے گی اور ہماری فوج زیر قبضہ علاقوں میں غیر معینہ مدت تک موجود رہے گی۔ غزہ شہر کا بنیادی ڈھانچہ تقریباً تباہ ہو چکا اور اپنے گھروں کے ملبے پر بیٹھے اب تک بچ جانے والوں تک اسرائیل اب غذا اور ادویات تک پہنچنے نہیں دے رہا جس پر فرانسیسی صدر نے اسرائیلی وزیر اعظم سے کہا ہے کہ غزہ کے لوگوں کی تکالیف کا خاتمہ ہونا چاہیے۔

پاکستانی پارلیمنٹ نے ایک بار پھر اسرائیلی بربریت کی مذمت میں متفقہ قرارداد منظور کر لی جس میں حسب روایت اسرائیل پر کڑی تنقید کی گئی۔ ارکان نے لمبی چوڑی مذمتی تقاریر کیں اور حکومت نے حسب معمول فلسطینی مسلمانوں سے اظہار یکجہتی کیا اور ہر ممکنہ امداد و تعاون کا بھی یقین دلایا مگر یہ امداد، خوراک، خیمے، ضرورت زندگی کی اشیا، ادویات وغیرہ متاثرین تک پہنچیں گی کیسے؟ یہ اہم سوال ضرور ہے جس کا حل حکومت، پارلیمنٹ ملک کے عوام سمیت کسی کے پاس نہیں ہے سب بے بس و مجبور ہیں صرف مذمت پر ہی اکتفا ہے۔

رکن قومی اسمبلی شیر افضل مروت نے یہ انکشاف بھی کیا ہے کہ ہمارے ارب پتی ارکان پارلیمنٹ نے فلسطین کی ایک ٹکے کی بھی مدد نہیں کی اور حکومت نے بھی متاثرین فلسطین کی کوئی مدد نہیں کی۔ بظاہر تو لگتا ہے کہ ہماری حکومت اور پارلیمنٹ کے ارکان فلسطین کی محبت میں مرے جا رہے ہیں اور ان کی ہمدردی میں بڑی تقاریر کے ساتھ بعض پر کڑی تنقید بھی کر رہے ہیں۔ ایک رکن قومی اسمبلی نے تو یہ سچ بھی کہہ دیا کہ اسرائیل کے 80 لاکھ یہودیوں سے زیادہ تعداد میں ہمارے ملک میں علمائے کرام موجود ہیں جو فلسطینیوں کے لیے دعائیں اور اسرائیل کے لیے بددعائیں کر رہے ہیں مگر دعا اثر ہی نہیں کر رہی۔

ملک میں مذہبی جماعتیں اور فلسطینی مسلمانوں کے بے بس ہمدرد الگ الگ بڑی بڑی ریلیاں اسرائیل کے خلاف سخت گرمی میں نکال کر فلسطینی مسلمانوں سے ہمدردی اور اظہار یکجہتی کر رہے ہیں جہاں اسرائیل کے خلاف اور فلسطینیوں کی حمایت میں لاکھوں لوگ نعرے لگاتے ہیں۔ اسرائیلی پرچم پیروں تلے روند کر اپنے غم و غصے کا اظہار کر رہے ہیں۔

ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی میں جماعت اسلامی نے شارع فیصل پر اور جے یو آئی نے شاہراہ قائدین پر بڑی بڑی ریلیاں نکال کر اسرائیل سے اپنی نفرت کا اظہار کیا۔ فلسطینیوں کی امداد کی اپیلیں بھی ہوئیں جن میں لوگوں نے دل کھول کر عطیات بھی دیے۔ بعض جماعتوں نے امدادی سامان جمع کرکے بھجوایا بھی مگر اسرائیلی وزیر دفاع نے سنگدلی سے کہہ دیا کہ فلسطین کے مسلمانوں اور زخمیوں تک کوئی بیرونی امداد پہنچنے ہی نہیں دی جائے گی۔ مسلم ممالک میں مسلمانوں کے علاوہ دنیا بھر میں غیر مسلم بھی فلسطینیوں کی حمایت میں ریلیاں نکال رہے ہیں مگر اسرائیل اور اس کے بڑے حمایتی امریکا پر کوئی اثر نہیں ہو رہا۔

مسلمان غیر مسلموں خصوصاً امریکا، برطانیہ، فرانس جو ایٹمی طاقت ہیں اور یورپ سے یہ پوچھتے ہیں کہ ان کے یہاں تو جانوروں کے بھی حقوق ہیں وہاں تو وہ اپنے کتوں کا بھی بڑا خیال رکھتے ہیں تو کیا عشروں سے اسرائیل کی وحشیانہ بربریت کا شکار اور زیر عتاب فلسطینی مسلمان جانوروں سے بھی بدتر ہیں جنھیں اب تک ہزاروں کی تعداد میں شہید کیا جا چکا اور باقی بچے ہوئے زخمیوں اور تباہ و برباد متاثرین غزہ تک اسرائیل دوائیں اور خوراک بھی پہنچنے نہیں دے رہا اور انسانی حقوق کے دعویدار اس قدر بے حس ہو چکے ہیں کہ وہ مل کر بھی اسرائیلی وحشت پر آواز بلند نہیں کر رہے اور انھیں بے گناہ مسلمانوں کے مقابلے میں امریکی ٹیرف کے مقابلے کی زیادہ فکر ہے مسلمانوں کا خون بہتا ہے تو بہتا رہے کیونکہ عرب دنیا اور مسلم ممالک بھی اپنے ان بھائیوں پر ہونے والے مظالم پر خاموش ہیں تو انھیں کیا پڑی کہ مسلمانوں کو جینے کا حق ہی دلا سکیں۔

مسلم عوام دنیا بھر میں اسرائیلی بربریت پر سراپا احتجاج اور مسلمان ممالک خود کو بے بس سمجھ کر خاموش ہیں اور جو مسلمان ممالک اسرائیل کو تسلیم کر چکے وہ بھی سفارتی سطح پر اسرائیل کو اس کی بربریت پر نہیں روک رہے اور ہر ایک صرف اپنے بچاؤ میں مصروف ہے کہ اسرائیل انھیں بھی اپنی جارحیت کا نشانہ نہ بنا دے۔

پاکستان کے عوام جہاد کی حمایت میں فتویٰ دے چکے مگر ہماری حکومت بھی دوسروں کی طرف فلسطینیوں سے دکھاؤے کی محبت اور بیانات پر اکتفا کیے ہوئے ہے جس کے ارکان پارلیمنٹ نے اپنی جیب سے فلسطین کے لیے ایک پیسہ بھی نہیں نکالا جب کہ اب حکومت نے انھیں لاکھوں روپے تنخواہیں بھی بڑھا دی ہیں۔ مساجد میں علما بیانات دے رہے ہیں تو لوگ پوچھتے ہیں کہ ہم اسرائیل سے لڑنے جا نہیں سکتے۔ امداد کے لیے عطیات دیں تو وہ وہاں پہنچنے نہیں دی جا رہی تو علما کے پاس ایک ہی جواب ہے کہ یہودی و نصرانی مصنوعات کا بائیکاٹ کرکے انھیں مالی نقصان پہنچائیں۔ مسلمان عوام تو بائیکاٹ بھی کر رہے ہیں مگر عرب و مسلم ممالک اور ان کے سربراہ اپنے ممالک کے عوام کو اسرائیل کے خلاف غصے کا اظہار بھی نہیں کرنے دے رہے۔

متعلقہ مضامین

  • فلسطین سے دکھائوے کی محبت
  • انتقال کرنے والے افراد کے شناختی کارڈ کیسے منسوخ کروائیں؟ گائیڈ لائنز جاری
  • پوپ کا غزہ پر موقف، کوئی اعلی اسرائیلی عہدیدار آخری رسومات میں شریک نہیں ہو گا
  • کیا ٹرمپ 2028 میں بھی صدارتی الیکشن لڑیں گے؟ اشارے واضح ہونے لگے
  • پی اے سی کا اجلاس: ای او بی آئی نے 2 ارب 79 کروڑ روپے جعلی پنشنرز کو دیدیئے
  • اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ بیک ڈور مذاکرات نہیں ہورہے‘ عمرایوب
  • اسٹیبلشمنٹ فیڈریشن کو ون یونٹ نظام نہ بنائے: لیاقت بلوچ
  • تحریکِ انصاف کا اندرونی انتشار اسٹیبلشمنٹ کی طاقت بن گیا، جماعت اسلامی
  • اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ بیک ڈور مذاکرات نہیں ہو رہے، عمر ایوب
  • اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ بیک ڈور مذاکرات نہیں ہورہے: عمر ایوب