غزہ میں پہلی بار حماس کے خلاف نعرے بازی
اشاعت کی تاریخ: 26th, March 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 26 مارچ 2025ء) خبررساں ادارے اے ایف پی نے رپورٹ کیا ہے کہ عینی شاہدین کے مطابق زیادہ تر مظاہرین مرد تھے، جو 'حماس آؤٹ‘ کے نعرے لگا رہے تھے اور اس فلسطینی تنظیم کو 'دہشت گرد‘ قرار دے رہے تھے۔
جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے کے مطابق یہ مظاہرہ بیت لاہیہ نامی علاقے میں ہوا۔ تقریباً دو ماہ کی جنگ بندی کے بعد اسرائیلی فوج کی جانب سے غزہ پر شدید بمباری دوبارہ شروع کرنے کے ایک ہفتے بعد یہ ہجوم وہاں جمع ہوا تھا۔
غزہ پٹی میں اسرائیل کی تازہ بمباری میں اب تک 792 سے زائد فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں۔حماس کی قیادت اب ایک کمیٹی کرے گی
سوشل میڈیا نیٹ ورک 'ٹیلیگرام‘ پر اس احتجاج کے لیے ایک اپیل منگل کے روز کی گئی تھی۔
(جاری ہے)
اس مظاہرے میں شریک ایک شخص سید محمد نے کہا، ''مجھے نہیں معلوم کہ یہ مظاہرہ کس نے منظم کیا۔‘‘ تاہم یہ فلسطینی خوف زدہ نظر آتا تھا۔
اس نے مزید بتایا، ''میں نے عوام کی طرف سے پیغام دینے کے لیے احتجاج میں حصہ لیا ہے کیونکہ جنگ بہت زیادہ اور طویل ہو چکی ہے۔ میں نے وہاں حماس کے لوگوں کو اس مظاہرے کو منتشر کرتے ہوئے دیکھا۔‘‘
ایک اور شخص کا، جو مظاہرے میں شریک ہوا اور جس نے اپنا نام مجیدی بتایا، کہنا تھا، ''لوگ اب تھک چکے ہیں۔‘‘ اس نے مزید کہا، ''اگر حماس کے اقتدار چھوڑ دینے سے مسئلہ حل ہو سکتا ہے، توعوام کے تحفظ کے لیے حماس اقتدار چھوڑ کیوں نہیں دیتی؟‘‘
سات اکتوبر: غزہ جنگ کا ایک سال اور خطے پر اثرات
غزہ پٹی میں اس طرح کے مظاہرے غیرمعمولی سمجھے جاتے ہیں۔
حماس پر نکتہ چینی بھی شاذ و نادر ہی ہوتی ہے کیونکہ یہ عسکریت پسند گروپ اپنے داخلی مخالفین کے خلاف سخت کارروائی کے لیے بھی جانا جاتا ہے۔ مظاہرہ اسرائیلی مطالبات کے عین مطابقاسرائیل تسلسل کے ساتھ یہ مطالبہ کرتا رہا ہے کہ غزہ میں 2007 سے برسراقتدار حماس اقتدار سے الگ ہو جائے۔ لیکن غزہ میں حماس کے خلاف عدم اطمینان کی سطح کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔
گزشتہ برس ستمبر میں'فلسطین سینٹر فار پالیسی اینڈ سروے ریسرچ‘ کا ایک سروے سامنے آیا تھا، جس کے نتائج میں بتایا گیا تھا کہ ایک طویل جنگ لڑنے کے بعد بھی 35 فیصد فلسطینی حماس کے حامی ہیں جبکہ فلسطینی اتھارٹی کے حق میں 26 فیصد فلسطینی باشندے ہیں۔
قبل ازیں غزہ پٹی میں الفتح کے ایک ترجمان نے ہفتے کے روز حماس سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ غزہ پٹی میں فلسطینیوں کے ''وجود‘‘ کے تحفظ کے لیے ''حکومت سے الگ ہو جائے۔
‘‘غزہ پٹی اسرائیل اور حماس کے درمیان 17 ماہ سے زائد عرصے سے جاری جنگ سے تباہ ہو چکی ہے، جب کہ دو مارچ کو اسرائیل کی جانب سے حماس کے عسکریت پسندوں کو اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا کرنے پر مجبور کرنے کی کوشش میں اس علاقے کو ہر قسم کی امداد کی ترسیل روک دیے جانے کے بعد سے وہاں انسانی صورتحال پھر انتہائی ابتر ہو چکی ہے۔
ج ا ⁄ ص ز، م م (اے ایف پی، ڈی پی اے)
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے غزہ پٹی میں حماس کے کے لیے
پڑھیں:
غزہ سے ملنے والی لاش ممکنہ طور پر حماس کے سربراہ محمد سنوار کی ہے؛ اسرائیلی فوج
اسرائیلی فوج نے امکان ظاہر کیا ہے کہ غزہ کے جنوبی شہر خان یونس کے یورپی اسپتال کے قریب سے ملنے والی جنگجوؤں کی متعدد لاشوں میں سے ایک حماس رہنما محمد سنوار کی ہے۔
عالمی خبر رساں کے مطابق اسرائیلی فوج کے بیان میں کہا گیا ہے کہ خان یونس کی ایک زیر زمین سرنگ سے متعدد مزاحمت کاروں کی لاشیں ملی ہیں۔
یہ وہ سرنگ ہے جس پر اسرائیلی فضائیہ نے 13 مئی کو بمباری کی تھی اور زیر زمین سرنگ کو تباہ کردیا تھا۔
اسرائیلی حکام کو شُبہ ہے کہ ان لاشوں میں سے ایک محمد سنوار کی بھی ہو سکتی ہے جو غزہ میں حماس کے عسکری سربراہ اور شہید یحییٰ سنوار کے بھائی ہیں۔
تاحال حماس رہنما محمد سنوار کی موت کی باضابطہ تصدیق ہونا باقی ہے اور لاش کی شناخت کے لیے اسرائیلی ماہرین ڈی این اے اور دیگر شواہد کی مدد سے کام کر رہے ہیں۔
اگر یہ تصدیق ہو جاتی ہے تو یہ حماس کے لیے ایک بڑا دھچکہ تصور کیا جائے گا کیونکہ محمد سنوار غزہ میں تنظیم کے دفاعی انفرا اسٹرکچر کے نگران اور کئی بڑی کارروائیوں کے مرکزی منصوبہ ساز سمجھے جاتے تھے۔
یاد رہے کہ اس سے قبل بھی محمد السنوار کی ہلاکت اور اسرائیلی میڈیا نے بھی دو ہفتے قبل بھی ان کی لاش ملنے کا دعویٰ کیا تھا۔
اسرائیل اس جنگ میں اب تک حماس اور حزب اللہ کی اعلیٰ قیادت سمیت اہم کمانڈرز کو غزہ، بیروت اور تہران میں نشانہ بنا چکے ہے۔
وزیر اعظم نیتن یاہو متعدد بار دعویٰ کرتے آئے ہیں کہ 7 اکتوبر 2023 کے ایک ایک ذمہ دار کو چن چن کر قتل کریں گی چاہے وہ دنیا کے کسی بھی کونے میں ہوں۔
اسرائیل اب تیزی سے غزہ کے جنوبی شہروں کو نشانہ بنا رہا ہے جہاں سے وہ حماس کی حکومت اور طاقت کو ختم کرکے من پسند انتظامیہ لانا چاہتا ہے۔