data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

پشاور:خیبرپختونخوا کے وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور کی جانب سے جے یو آئی (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن پر تنقید کے بعد سیاسی درجہ حرارت مزید بلند ہو گیا ہے جب کہ جے یو آئی کے مرکزی رہنما حافظ حمداللہ نے گنڈاپور کے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے شدید ردعمل دیا اور کئی سخت سوالات اٹھا دیے۔

میڈیا رپورٹس کےمطابق علی امین گنڈا پور کے بیان پر ردعمل دیتے ہوئے  حافظ حمداللہ نے کہا ہے کہ مولانا فضل الرحمن کو فارم 47 کا بینیفیشری کہنے سے پہلے یہ بتائیں کہ آپ خود خیبرپختونخوا کے وزیر اعلیٰ کس کے این او سی پر بنے؟ خیبرپختونخوا کے وزیراعلیٰ نہ تین میں نہ تیرہ میں بلکہ تین سو تیرہ میں ہیں، پورا صوبہ بدامنی کا شکار ہے، لوگ امن کو ترس رہے ہیں اور تم لاہور جا کر صرف زبانی دعوے کر کے واپس لوٹ آتے ہو۔

حافظ حمداللہ نے دعویٰ کیا کہ پی ٹی آئی کی  حکومت بازو کے زور پر نہیں بلکہ ڈنڈے اور نوٹ کے سہارے بنی ہے اور علی امین کیخلاف  اپنی پارٹی کے اندر سے بھی آوازیں اٹھنا شروع ہو چکی ہیں، علی امین  خود کو عوامی نمائندہ کہتے ہیں، پہلے یہ بتائیں کہ تمہارے جلسوں میں لوگ خود آتے ہیں یا زبردستی بسوں میں بھر کر لائے جاتے ہیں؟

حافظ حمداللہ نے 8 فروری کے عام انتخابات کے حوالے سے بھی سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ تمہیں ووٹ سے نہیں، نوٹ سے جتوایا گیا اور جو مینڈیٹ علی امین گنڈا پور دوسروں پر جعلی ہونے کا الزام لگا رہے ہیں، وہی الزام ان  پر زیادہ واضح نظر آتا ہے۔

خیال رہےکہ  علی امین گنڈاپور نے گزشتہ روز لاہور میں پریس کانفرنس کے دوران مولانا فضل الرحمن کو نشانے پر رکھتے ہوئے کہا تھا کہ وہ “فارم 47 کے بینیفیشری ہیں” اور ان کے پاس کوئی حقیقی عوامی مینڈیٹ نہیں، انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ مولانا کے صرف ایک ایم این اے اور دو ایم پی اے ہی حقیقی ووٹ سے منتخب ہوئے، باقی تمام نشستیں مبینہ دھاندلی کا نتیجہ ہیں۔

انہوں نے مزید کہا تھا کہ مولانا فضل الرحمان کو خیبرپختونخوا میں تبدیلی کے بجائے پہلے اپنے رویے اور پارٹی میں اصلاح لانی چاہیے کیونکہ عوام نے انہیں ان کے حلقے سے بھی مسترد کر دیا۔

عوامی سطح پر بھی یہ سوال گردش کر رہا ہے کہ کیا موجودہ حکومت حقیقتاً عوامی نمائندگی رکھتی ہے یا پھر اس کے پیچھے کوئی اور عوامل کارفرما ہیں۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: حافظ حمداللہ نے مولانا فضل علی امین

پڑھیں:

گوگل نے 200 ملازمین کو فارغ کردیا، اتنے بڑے پیمانے پر برطرفیوں کی وجہ کیا بنی؟

اس سال اب تک آرٹیفیشل انٹیلیجنس یعنی مصنوعی ذہانت کی تیز رفتار ترقی اور ٹیکنالوجی کے پھیلاؤ نے بڑی ٹیکنالوجی کمپنیوں کو اپنی تنظیمی ڈھانچے پر نظرثانی کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔

لیکن اس تیزی کی قیمت بھی ادا کرنی پڑ رہی ہے، اور کئی کمپنیوں نے اپنے وسائل اے آئی پر مرکوز کرنے کے لیے ملازمین کو فارغ کر دیا ہے۔

گوگل بھی اپنے اے آئی منصوبوں، خصوصاً جیمنی اور اے آئی اوورویوز کو بہتر بنانے میں مصروف ہے، مگر دیگر بڑی کمپنیوں کے برعکس اس نے حال ہی میں ایک مختلف سمت اختیار کی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: گوگل کے جیمینی ’نینو بنانا ایپ‘ نے سوشل میڈیا پر دھوم مچادی

اطلاعات کے مطابق، گوگل نے محنت کشوں کے حقوق اور خراب کام کرنے کے حالات پر بڑھتے تنازع کے بیچ سینکڑوں اے آئی ورکرز کو برطرف کر دیا۔

امریکی جریدے وائرڈ کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق، اگست میں 200 سے زائد کنٹریکٹرز کو اچانک نوکری سے فارغ کر دیا گیا۔

یہ ورکرز مختلف آؤٹ سورسنگ کمپنیوں کے ذریعے بھرتی کیے گئے تھے اور گوگل کے اے آئی منصوبوں میں بنیادی کردار ادا کر رہے تھے۔

مزید پڑھیں: گوگل جیمنی پہلی بار چیٹ جی پی ٹی کو پیچھے چھوڑنے میں کامیاب، یہ کام کیسے ہوا؟

ان کی ذمہ داریوں میں اے آئی کے جوابات کا تجزیہ کرنا، انہیں دوبارہ لکھنا، درجہ بندی کرنا اور سسٹم کو درست اور ہموار رکھنے کے لیے فیڈ بیک دینا شامل تھا۔

اہم کردار ادا کرنے کے باوجود ان میں سے بیشتر کو کم معاوضہ اور خراب کام کرنے کے حالات کا سامنا تھا، مثال کے طور پر، گلوبل لاجک کے ذریعے بھرتی ہونے والے ’سپر ریٹرز‘ کو فی گھنٹہ 28 سے 32 ڈالر دیے جاتے تھے۔

جبکہ اسی نوعیت کا کام کرنے والے دوسرے کنٹریکٹرز کو صرف 18 سے 22 ڈالر فی گھنٹہ ملتے تھے، ان میں سے کئی ملازمین نے شکایت کی کہ انہیں نہ تو ملازمت کی کوئی ضمانت تھی اور نہ ہی بنیادی سہولتیں میسر تھیں۔

مزید پڑھیں: ’گوگل اے آئی خلاصہ گلے پڑگیا‘، آن لائن ٹریفک متاثر ہونے پر ببلشرز کا احتجاج

صورتحال اس وقت مزید کشیدہ ہو گئی جب ورکرز نے خراب حالات کے خلاف آواز بلند کی اور یونین سازی پر غور شروع کیا۔ تاہم، گوگل نے اس پر ناپسندیدگی ظاہر کی اور سوشل میڈیا پر حالاتِ کار پر بات کرنے والے ملازمین کو وارننگ دی۔

جلد ہی اچانک برطرفیوں کا سلسلہ شروع ہو گیا، بعض ملازمین کو بتایا گیا کہ یہ فیصلے ’پروجیکٹ کم کرنے‘ کی وجہ سے کیے گئے ہیں، جبکہ ٹیم کے کچھ ارکان کا کہنا ہے کہ انہیں غیر حقیقی اہداف دیے جا رہے تھے جو دباؤ میں اضافے کا باعث بنے۔

گوگل کا موقف ہے کہ یومیہ ورکنگ کنڈیشنز کی نگرانی اس کے کنٹریکٹرز اور سب کنٹریکٹرز کی ذمہ داری ہے، تاہم متاثرہ ملازمین کا کہنا ہے کہ پالیسیوں نے انہیں کسی قسم کا تحفظ فراہم نہیں کیا۔

یہ برطرفیاں اس بات کو اجاگر کرتی ہیں کہ اے آئی کی صنعت اب بھی انسانی محنت پر انحصار کرتی ہے، مگر اس محنت کو اکثر وہ قدر نہیں دی جاتی جس کی وہ مستحق ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

آرٹیفیشل انٹیلیجنس اے آئی ٹیکنالوجی گوگل

متعلقہ مضامین

  • جاپان: درمیانی فاصلے تک مار کرنے والے امریکی میزائل تعینات
  • خاندانی نظام کو توڑنے کی سازش
  • لاہور ،10سالہ بچے سے بدفعلی کی کوشش کرنے والا ملزم گرفتار
  • ایرانی صدر فیلڈ مارشل کو پہچانے بغیر آگے بڑھ گئے، نشاندہی پر دلچسپ ردعمل اور معذرت
  • عمران خان کا ٹوئٹر اکاؤنٹ استعمال کرنے والے کا نام بتانے سے انکار
  • اے آئی کی کارکردگی 100 گنا بڑھانے والی جدید کمپیوٹر چپ تیار
  • گوگل نے 200 ملازمین کو فارغ کردیا، اتنے بڑے پیمانے پر برطرفیوں کی وجہ کیا بنی؟
  • ایرانی صدر فیلڈ مارشل کو پہچانے بغیر آگے بڑھ گئے، نشاندہی پر دلچسپ ردعمل اور معذرت
  • صارفین کے تجربے کو بہتر بنانے کے لیے اسٹریٹجک شراکت داری کا اعلان
  • آج تک جو آپریشن ہوئے انکا کیا نتیجہ نکلا؟علی امین گنڈاپور