ڈراما ’دایان‘ میں مہوش حیات کی اسٹائلنگ ہٹ یا فلاپ؟
اشاعت کی تاریخ: 27th, July 2025 GMT
پاکستانی ڈراما سیریل ’دایان‘ ان دنوں مقبولیت کی بلندیوں پر ہے۔ یہ سیریل عبداللہ کادوانی اور اسد قریشی کی پروڈکشن ہے اور شائقین سے بھرپور پذیرائی حاصل کر رہا ہے۔
اس ڈرامے کی خاص بات مہوش حیات کی طویل عرصے بعد ٹی وی اسکرین پر واپسی ہے، جسے شائقین بے حد سراہ رہے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں:مہوش حیات کو کیسے ہمسفر کی تلاش ہے اور مستقبل کے ارادے کیا ہیں؟ اداکارہ نے سب بتا دیا
ہدایت کار سراج الحق نے ان کے حسین روپ کو خوبصورتی سے پیش کیا ہے، اور مہوش کی موجودگی نے شو کو ایک الگ ہی چمک بخش دی ہے۔
کہانی کی جھلک:’دایان‘ کی کہانی نہال نامی معصوم لڑکی کے گرد گھومتی ہے، جو اپنے غریب پس منظر اور مجرم باپ کی وجہ سے ہونے والی ناانصافیوں کے باعث ایک منفی کردار میں بدل جاتی ہے۔
مہوش حیات نے نہال اور میشا دونوں کرداروں کو نہایت خوبی سے نبھایا ہے، لیکن میشا کے روپ میں ان کا اسٹائل، میک اپ، ملبوسات اور اسکرین پر ان کی موجودگی خاص طور پر توجہ کا مرکز بن چکی ہے۔
مہوش حیات کے کچھ خاص ملبوسات جیسے سرخ میکسی اور سیاہ لباس کو مداحوں کی جانب سے خوب سراہا جا رہا ہے۔ ان کے اسٹائل نے فیشن حلقوں میں بھی خاصی توجہ حاصل کی ہے۔
مداحوں کے دلچسپ تبصرےاگرچہ مداحوں کی بڑی تعداد مہوش حیات کی اداکاری اور اسٹائل کو سراہ رہی ہے، لیکن سوشل میڈیا پر کچھ صارفین نے ان کے ’نینی‘ (گورنَس) جیسے کردار پر دلچسپ تبصرے بھی کیے ہیں:
ایک صارف نے لکھا ’ایسی اسٹائلش نینی گھر میں ہو تو ہر باپ بچہ بننا چاہے گا‘۔
دوسرے نے کہا ’ایلون مسک بھی اتنی ماڈرن نینی ہائر نہیں کر سکتا جتنی زوار اور اس کی بیوی کے لیے رکھی گئی ہے‘۔
ایک اور تبصرہ تھا ’یہ نینی تو سیدھی میٹ گالا سے زوار شاہ کے گھر آئی ہے‘۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اسد قریشی ڈراما ڈراما دایان عبداللہ کادوانی مہوش حیات.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: ڈراما دایان عبداللہ کادوانی مہوش حیات مہوش حیات
پڑھیں:
پنجاب میں جنگلی حیات کے غیرقانونی شکار پر جرمانے بھی بڑھا دیے گئے
لاہور:پنجاب حکومت نے صوبے میں جنگلی حیات کے تحفظ اور انسانی آبادیوں کو ممکنہ خطرات سے محفوظ رکھنے کے لیے جنگلی جانوروں کے نظم و نسق سے متعلق دو اہم اقدامات کیے ہیں۔
اس سلسلے میں ایک طرف ’’پنجاب وائلڈ لائف ہیزرڈ کنٹرول رولز 2025‘‘ نافذ کیا گیا ہے، تو دوسری جانب جنگلی حیات کے تحفظ سے متعلق قوانین میں کئی ترامیم منظور کی گئی ہیں، جن کے ذریعے صوبے میں تحفظِ ماحول اور حیاتیاتی تنوع کے نظام کو جدید خطوط پر استوار کیا جا رہا ہے۔
سرکاری اعلامیے کے مطابق نئے قواعد کا مقصد انسانوں اور جنگلی جانوروں کے درمیان تصادم یا خطرے کی صورت میں سائنسی، منظم اور فوری کارروائی کو ممکن بنانا ہے۔ اگر کوئی جنگلی جانور انسانی جان یا دیگر جانداروں کے لیے خطرہ بن جائے، یا کسی بیماری یا چوٹ کے باعث زندہ رہنے کے قابل نہ ہو، تو چیف وائلڈ لائف رینجر فیلڈ رپورٹ، سائنسی شواہد اور عوامی شکایات کی بنیاد پر کارروائی کا حکم دے سکتا ہے۔
ہنگامی حالات میں رینجر متعلقہ ماہرین سے مشورہ کرکے اس جانور کو قابو میں لانے، منتقل کرنے یا ہٹانے کا فیصلہ کر سکے گا۔
قواعد میں واضح کیا گیا ہے کہ ہر ایسی کارروائی سے قبل پنجاب کیپٹیو وائلڈ لائف مینجمنٹ کمیٹی اور ویٹرنری ماہرین سے مشاورت لازم ہوگی تاکہ تمام اقدامات انسانی اصولوں اور سائنسی معیار کے مطابق ہوں۔ اس کے ساتھ مستقبل میں ایسے خطرات سے بچاؤ کے لیے ایک جامع حکمتِ عملی بھی تیار کی گئی ہے، جس کے تحت کسی نوع کو نقصان دہ یا ’’پیسٹ‘‘ قرار دیا جا سکے گا۔
بعض علاقوں میں محدود مدت کے لیے شکار کے خصوصی اجازت نامے جاری کیے جا سکیں گے، جبکہ حساس مقامات کو ’’وائلڈ لائف ہیزرڈ زون‘‘ قرار دے کر وہاں جانوروں کو کھلانے یا پالنے پر پابندی عائد کی جا سکے گی۔
نئے قواعد میں غیر ملکی انواع کو ان کے آبائی علاقوں میں واپس بھیجنے اور مقامی انواع کو ان کے قدرتی مسکن میں دوبارہ متعارف کرانے کی گنجائش بھی شامل ہے۔ خطرناک جانوروں کی منتقلی یا قابو پانے میں معاونت کرنے والے افراد اور اداروں کو سرکاری شرح کے مطابق انعامات دیے جائیں گے۔
علاوہ ازیں، پنجاب حکومت نے جنگلی حیات کے تحفظ سے متعلق قوانین میں ترامیم کرتے ہوئے جرائم کے مالی جرمانوں میں نمایاں اضافہ کر دیا ہے۔ شاہین سمیت نایاب اور شکاری پرندوں کے غیر قانونی شکار یا قبضے پر مکمل پابندی عائد کر دی گئی ہے۔
وائلڈ لائف کے ترمیم شدہ قانون کے تحت فرسٹ شیڈول میں شامل بعض جنگلی پرندوں کے غیرقانونی شکار یا پکڑنے کا فی جانور معاوضہ 10 ہزار روپے ہوگا۔ باز، ہریڑ، لگر اور الو کا معاوضہ ایک لاکھ روپے، شیڈول دوئم اور سوئم میں شامل ممالیہ جانوروں کے غیر قانونی شکار یا پکڑنے کا محکمانہ معاوضہ ایک لاکھ روپے ہوگا۔ گیدڑ، سور، جنگلی سور کا محکمانہ معاضہ 25 ہزار روپے ہوگی۔
اسی طرح غیرقانونی شکار میں استعمال ہونے والے اسلحے کا جرمانہ شارٹ گن 25 ہزار، غیر ملکی شارٹ گن 50 ہزار، مقامی رائفلز 50 ہزار، غیر ملکی رائفل ایک لاکھ روپے، پی سی پی ائیر گن 50 روپے۔ غیرقانونی شکار میں استعمال ہونے والی جیپ، گاڑی کا جرمانہ 5 لاکھ روپے، موٹر سائیکل کا جرمانہ ایک لاکھ، سائیکل 25 ہزار، کشتی کا 25 ہزار، ٹیپ ریکارڈ اور دیگر برقی آلات کا جرمانہ 25 ہزار روپے ہوگا۔
نئی ترامیم کے تحت اعزازی گیم وارڈن کے عہدے ختم کر دیے گئے ہیں، جبکہ کمیونٹی بیسڈ کنزروینسی کے ارکان کو اب باقاعدہ قانونی اختیار حاصل ہوگا کہ وہ غیر قانونی شکار یا تجارت کی روک تھام میں مدد دے سکیں۔
شکار، بریڈنگ اور خرید و فروخت کے اجازت ناموں کی نیلامی کے لیے ڈیجیٹل پلیٹ فارم متعارف کرایا جائے گا۔ اسی طرح کتوں کی دوڑ کے مقابلوں میں زندہ خرگوشوں کے استعمال پر مکمل پابندی لگا دی گئی ہے اور صرف مشینی چارے کی اجازت دی گئی ہے۔
نئے قانون کے مطابق صوبے بھر میں خصوصی وائلڈ لائف پروٹیکشن سینٹرز قائم کیے جائیں گے جہاں عملہ جدید ہتھیاروں اور آلات سے لیس ہوگا۔ ان اہلکاروں کو وارنٹ کے بغیر تلاشی لینے اور گرفتاری کا اختیار بھی حاصل ہوگا تاکہ جنگلی حیات کے تحفظ سے متعلق قوانین پر مؤثر عمل درآمد یقینی بنایا جا سکے۔