پی ٹی آئی تحریک چلانے کی پوزیشن میں نہیں،عرفان صدیقی
اشاعت کی تاریخ: 19th, August 2025 GMT
مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما اور سینیٹر عرفان صدیقی نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ موجودہ حالات میں پی ٹی آئی کسی بھی قسم کی سیاسی تحریک چلانے کی پوزیشن میں نہیں ہے،یہ جماعت ایک ایسے بھوسے کے ڈھیر کی مانند ہو چکی ہے، جس میں لاکھ کوششوں کے باوجود بھی کوئی تحر یک پیدا نہیں ہو سکتی۔
میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے عرفان صدیقی نے کہا کہ پی ٹی آئی بارہا احتجاجی سیاست آزما چکی ہے، مگر اب یہ تھک چکے ہیں۔ ان کے پاس نہ کوئی ٹھوس لائحہ عمل ہے، نہ ہی قومی ڈائیلاگ کے لیے سنجیدہ سوچ۔ وہ ایک تخیلاتی دنیا میں رہتے ہیں جہاں باتوں سے تبدیلی آ جاتی ہے۔
عرفان صدیقی نے واضح کیا کہ اگر کوئی گھر میں چند افراد کے ساتھ بیٹھ کر بات چیت کرے تو اسے قومی ڈائیلاگ نہیں کہا جا سکتا۔ اور اگر مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی جیسی بڑی سیاسی جماعتوں سے بات نہ کی جائے، تو پھر قومی سطح پر مکالمہ کیسے ممکن ہو گا؟
انہوں نے یہ سوال بھی اٹھایا کہ اگر پی ٹی آئی واقعی کسی قومی مفاہمت کی خواہاں ہے تو دو بڑی سیاسی جماعتوں کو کیسے نظر انداز کر سکتی ہے؟
عرفان صدیقی کا کہنا تھا کہ اہم دنوں، خاص طور پر 5 اگست اور 14 اگست کو پی ٹی آئی نے عوام سے سڑکوں پر نکلنے کی اپیل کی، لیکن ان کی کال پر عوام نے کوئی خاص ردعمل نہیں دیا۔”
انہوں نے مزید الزام لگایا کہ پی ٹی آئی 9 مئی کو نہ صرف دفاعی تنصیبات بلکہ 250 سے زائد مقامات پر منصوبہ بندی کے تحت حملوں میں ملوث رہی۔ یہ سب کچھ ظاہر کرتا ہے کہ ان کا مقصد صرف احتجاج نہیں بلکہ انتشار پھیلانا تھا۔
عرفان صدیقی نے پی ٹی آئی کی حکمتِ عملی کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ پی ٹی آئی جاگتی آنکھوں سے خواب دیکھ رہی ہے۔ وہ زمینی حقائق سے نظریں چرا رہی ہے، اور صرف نعروں سے کوئی سیاسی تحریک جنم نہیں لیتی۔
ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: عرفان صدیقی نے پی ٹی ا ئی
پڑھیں:
حماس کو عسکری اور سیاسی شکست نہیں دی جاسکتی: اسرائیلی آرمی چیف
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اسرائیلی فوج کے سربراہ ایال زامیر نے واضح الفاظ میں کہا ہے کہ غزہ پر قبضہ کرکے بھی حماس کو عسکری و سیاسی شکست نہیں دی جا سکتی۔
عالمی خبررساں ادارے کے مطابق اسرائیلی فوج کے سربراہ ایال زامیر نے وزیراعظم بن یامین نتن یاہو کو بتایا ہے کہ غزہ شہر پر مکمل قبضے کے لیے چھ ماہ درکار ہوں گے، تاہم اس کے باوجود حماس کو عسکری اور نہ ہی سیاسی طور پر شکست دی جا سکتی ہے۔
یہ بریفنگ ایسے وقت میں دی گئی جب نتن یاہو کی ہدایت پر اسرائیلی فوج غزہ شہر میں کارروائیاں بڑھاتے ہوئے پورے کے پورے رہائشی علاقے تباہ کر رہی ہے اور اس انتباہ کو نظر انداز کر رہی ہے کہ اس سے قیدیوں کی جان کو شدید خطرہ لاحق ہے۔
چینل کے مطابق ایال زامیر نے سیاسی قیادت پر واضح کیا کہ مجوزہ زمینی کارروائی سے کوئی فیصلہ کن نتیجہ حاصل نہیں ہو گا، وہ حکومت کے ساتھ نتائج کے بارے میں حقیقت پسندانہ توقعات شیئر کرنا چاہتے ہیں۔
ایال زامیر نے بند کمرہ اجلاس میں کہا کہ حتمی فیصلہ کن کامیابی کے لیے غزہ کے دیگر علاقوں اور مرکزی کیمپوں تک کارروائی پھیلانی ہو گی، لیکن اس سے اسرائیل کو ایسے شہری چیلنجز کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے جنہیں فوج برداشت نہیں کرنا چاہتی۔
اسرائیلی سکیورٹی اداروں کے اندازوں کے مطابق غزہ پر قابو پانے کے لیے کئی ماہ سے لے کر نصف سال تک کا وقت درکار ہوگا، جس کے بعد علاقے کی مزید وسیع کارروائی شروع کی جا سکے گی۔
چینل نے بتایا کہ نتن یاہونے سکیورٹی اجلاس میں زور دیا کہ طے شدہ وقت کے مطابق کارروائی شروع کی جائے، حالانکہ خدشات بڑھ رہے ہیں کہ اس زمینی آپریشن سے حماس کے زیر قبضہ قیدیوں کی زندگیاں خطرے میں پڑ سکتی ہیں۔
رپورٹ کے مطابق نتن یاہونے وزرا اور سکیورٹی حکام کے ساتھ یہ بھی غور کیا کہ اگر حماس نے قیدیوں کو نقصان پہنچایا یا انہیں قتل کیا تو اس کے ممکنہ نتائج کیا ہوں گے تاہم چینل نے یہ نہیں بتایا کہ اسرائیلی حکومت کن اقدامات پر غور کر رہی ہے۔
آٹھ اگست کو اسرائیلی کابینہ نے نتن یاہوکے اس منصوبے کی منظوری دی تھی جس کے تحت بتدریج پورے غزہ پر دوبارہ قبضہ کیا جانا ہے، جس کا آغاز غزہ شہر سے کیا جائے گا۔
تین ستمبر کو اسرائیلی فوج نے عربات جدعون 2 کے نام سے آپریشن شروع کیا جس کا مقصد غزہ شہر پر مکمل قبضہ ہے۔ اس فیصلے نے خود اسرائیل کے اندر شدید احتجاج کو جنم دیا ہے کیونکہ اس سے قیدیوں اور فوجیوں کی زندگیاں خطرے میں ہیں۔
ادھر امریکی ٹی وی چینل سی این این کے مطابق دو اسرائیلی حکام نے اتوار کو بتایا کہ غزہ شہر پر اسرائیلی زمینی حملہ آئندہ چند دنوں میں شروع ہو سکتا ہے۔
زمینی یلغار سے قبل اسرائیلی فوج نے غزہ میں بلند و بالا عمارتوں اور اہم عمارتوں کو تیزی سے تباہ کرنا شروع کر دیا ہے جن کے بارے میں اس کا دعویٰ ہے کہ حماس انہیں استعمال کرتی ہے۔