غزل
بھلے مثبت ہویا منفی کبھی اچھی نہیں ہوتی
فراوانی کسی بھی چیز کی اچھی نہیں ہوتی
ہزاروں خواہشیں دل میں دبا کر جینا پڑتا ہے
کسی بھی طرز کی ہو نوکری، اچھی نہیں ہوتی
میں اس سے پوچھتا ہوں جب محبت کیا بری شے ہے
تو ہولے سے بتاتی ہے کہ جی، اچھی نہیں ہوتی
میں کوشش کر رہا ہوں کہ سنواروں اپنی قسمت، پر
ہر اک شے آزما کردیکھ لی اچھی نہیں ہوتی
اگر جھک کر ملو گے تو یہ دنیا روند ڈالے گی
شریف انسان! اتنی عاجزی اچھی نہیں ہوتی
اگر اس میں نفاست ہو تو شوخی مات کھاجائے
تمھیں کس نے کہا ہے سادگی اچھی نہیں ہوتی
اندھیرے کی بھی اک حد تک یقیناً اہمیت تو ہے
کہ جیسے خواب گہ میں روشنی اچھی نہیں ہوتی
چلو مانا ہمارے ساتھ کرلوگے گزارہ تم
مگر سمجھوتے والی زندگی اچھی نہیں ہوتی
میں اس کے عشق میں وارفتگی کو چھونے والا ہوں
جو کہتا ہے کہ ناظرؔ بے خودی اچھی نہیں ہوتی
(عثمان ناظر۔ اٹک)
غزل
خموشی توڑ کے اک دن سبھی کردار بولیں گے
سنائی دے اگر تم کو، در و دیوار بولیں گے
مرے حق میں نہیں ہو تم، یہ میری بدنصیبی ہے
مرے حق میں مگر میرے، کئی غمخوار بولیں گے
میں کیسا ہوں میں کیسا تھا تمہیں کیسے بتاؤں میں
میں کیسا ہوں میں کیسا تھا مرے سب یار بولیں گے
اگر چپ سادھ بھی لوں میں مجھے اتنی سہولت ہے
مری غزلیں، مری نظمیں، مرے اشعار بولیں گے
کبھی جو پھر ملیں دونوں چھڑیں گے پھر نئے قصے
کبھی کچھ کام کی باتیں، کبھی بیکار بولیں گے
زباں کو تم نہ کھولو گے مجھے معلوم ہے لیکن
تری پلکیں، تری نظریں، ترے رخسار بولیں گے
چھپانا بھی اگر چاہو مجھے کتنا چھپاؤ گے
ترے بھیتر ارے ناداں، مرے آثار بولیں گے
انہیں تم لاکھ سمجھا لو مگر سمجھا نہ پاؤ گے
جہاں بیٹھے تھے ہم مل کر، وہی اشجار بولیں گے
میں تم کو بھول بھی جاؤں جہاں والے نہ بھولیں گے
تو میرا تھا، تو میرا ہے، یہی ہر بار بولیں گے
(کاظم علی۔ بورے والا)
غزل
خوابوں میں ہمیشہ ہی جو مطلوب رہا ہے
وہ شخص ہمیں جان سے محبوب رہا ہے
کچھ روز رہا عشق ہمارا بھی کسی سے
اور شہر میں چرچا بھی بڑا خوب رہا ہے
کچھ ایسے نبھایا ہے زمانے سے تعلق
دشمن بھی مجھے دیکھ کے مرعوب رہا ہے
اب اس کو مرا نام تلک یاد نہیں ہے
کل تک جو مرے نام سے منسوب رہا ہے
گو چند قدم کا ہی سفر تھا ترے ہمراہ
پُر کیف رہا، جانِ جگر خوب رہا ہے
رائج ہے یہی رسم زمانے میں کہ مفلس
زردار کے ہاتھوں سدا مغلوب رہا ہے
نعرہ یہاں جس نے بھی انالحق کا لگایا
تاریخ ہے شاہد کہ وہ مصلوب رہا ہے
اپنوں کی عنایت کی برستی رہی بارش
ہر وقت ہی دیدہ مرا مرطوب رہا ہے
منہ پھیر کے گزرا ہے ابھی شخص جو راحلؔ
چاہت بھرے لکھتا کبھی مکتوب رہا ہے
(علی راحل۔ بورے والا، پنجاب)
غزل
عجیب حال ہے! شر کا نظام چلتا ہے
تمام شہر میں ڈر کا نظام چلتا ہے
مجھے پسند نہیں چاپلوسیاں لیکن
اِسی کمائی سے گھر کا نظام چلتا ہے
وہ خوش خرام مکیں جب تلک ہے بستی میں
ہر ایک راہ گزر کا نظام چلتا ہے
خیالِ یار کی دولت کی ہی بدولت تو
ہمارے آٹھوں پہر کا نظام چلتا ہے
تری نوازشوں کا احتساب کرتے ہیں
کچھ ایسے شام و سحر کا نظام چلتا ہے
(فہیم رحمان آذر۔ؔسمندری، پنجاب)
غزل
اللہ سے بس یاری ہے
باقی دُنیا داری ہے
زیست تجھے گر پیاری ہے
موت سے یہ غداری ہے
آدم سے بیزاری ہے
باقی خلقت پیاری ہے
سب کو اک دن جانا ہے
اپنی اپنی باری ہے
یار محبت رہنے دے
اس میں بس لاچاری ہے
آج بھی تخت تمھارا ہے
واہ واہ کیا فن کاری ہے
جھوٹ فریب کی دُنیا میں
سچ تو اک بیماری ہے
تم بھی سادے شاعر ہو
آتی کب ہشیاری ہے
(سہیل احمدسہیلؔ۔ اسلام آباد)
غزل
چاند جیسا خمار کس پر ہے
آج اتنا نکھار کس پر ہے
راستے سے پلٹنے والے بتا
اب وہ وزنِ قرار کس پر ہے
جسم بس کھنکھناتی مٹّی ہے!
روح جانے سوار کس پر ہے
لَو، دُھواں، دیپ، رات، تنہائی!
یہ پتنگا نثار کس پر ہے؟
غلطیاں تو تمام میری ہیں
غلطیوں کا شمار کس پر ہے
موسمِ ہجر میں ہمارے سوا
اور دیکھو بہار کس پر ہے
بیوفائی معاف کر دی تھی
پھر وہ یُوں شرمسار کس پر ہے
(شوزب حکیم۔ شرقپور، ضلع شیخوپورہ)
غزل
اب مجھ کو بنا حسن کا شیدائی ذرا اور
اے کرب میں ڈوبی ہوئی تنہائی ذرا اور
ممکن ہی نہیں روح کے کشکول کا بھرنا
ممکن ہی نہیں حسنِ شکیبائی ذرا اور
بڑھتا ہی چلا جاوں گا سورج کی طرف میں
بڑھتی ہی چلی جائے گی پرچھائی ذرا اور
پھیلے ہوئے صحرا کی کہانی ہے مرا دل
دے دل کو میرے زخمِ پذیرائی ذرا اور
جس بات کے پہلو میں کوئی بات نہیں ہے
وہ بات مجھے رات سمجھ آئی ذرا اور
(محمد مبشر۔سرگودھا)
غزل
غفلت ہوئی ذرا جو تری دیکھ بھال میں
سرعت سے کوئی آ بسا تیرے خیال میں
اوصافِ عشق سارے ہی موجود مجھ میں تھے
بس تھوڑا کم تھا دوستو حسن و جمال میں
آیا جو کوئی اور تو یہ راز کھل گیا
میں بادلِ نخواستہ رہا استعمال میں
بنتا تھا ان دنوں ترا اُڑنا ہواؤں میں
کب عشق میں رہا ہے کوئی اعتدال میں
بجلی گری تو سبز شجر راکھ ہو گیا
لمحے کا فاصلہ ہے عروج و زوال میں
ممکن ہے عشقِ ثانی؟نزاکتؔ، بتائیے
خاموش اعتراف تھا اُس کے سوال میں
(نزاکت ریاض۔ پنڈ مہری، حسن ابدال)
غزل
کیا کہا اس نے کیا ضروری تھا
پھر کوئی واقعہ ضروری تھا
آدمی آدمی کے جھگڑے میں
بندہ پرور خدا ضروری تھا
اب مرا ذکر ہی نہیں صاحب
میں بھی کچھ دن بڑا ضروری تھا
زندگانی ترے تسلسل میں
کیا کوئی سانحہ ضروری تھا
قربتیں زہر بن گئیں تو کھلا
اک زرا فاصلہ ضروری تھا
مکتبِ عشق تیرے سائے میں
جو پڑھا، جو لکھا ضروری تھا
کچھ ضروری نہیں تھا ہستی میں
تُو مگر بخدا ضروری تھا
خود میں چلنا تھا اس لئے فیضیؔ
اب مجھے راستا ضروری تھا
(سید فیض الحسن فیضی کاظمی۔ پاکپتن)
غزل
کچھ مہوشوں کا ذکر سرِ عام کر لیا
اور سوچتے ہیں ہم نے بڑا کام کر لیا
ساقی پلا رہا تھا نظر سے شرابِ شوق
درویش نے بھی جام جگر تھام کر لیا
بولی لگی تھی حسن مجسم کی جابجا
جو کچھ تھا پاس وہ سبھی نیلام کر لیا
آنکھوں سے دل میں آ گئی وحشت تمام تر
خوابوں کو جب سے ہم نے تہِ دام کرلیا
خوش ہیں معززین بھی والد کے ساتھ ساتھ
بیٹے نے بڑھ کے باپ سے بھی نام کر لیا
دل آتشیں تھا، فرقتوں میں جاگتے ہوئے
خود کو جلا کے ہم نے سرِ بام کر لیا
(عابد حسین صائم۔بورے والا)
غزل
ویسے تو دروازہ بھی دیوار ہے
ہر طرف دیوار ہی دیوار ہے
زندگی پہلی رکاوٹ ہے مگر
موت اس سے بعد کی دیوار ہے
سات رنگوں سے مزین ہے مکاں
سات رنگوں سے بنی دیوار ہے
تو خوشی کے دیس کا باشندہ ہے
میرے آگے رنج کی دیوار ہے
میں محبت بھی تو کر سکتا نہیں
درمیاں میں دوستی دیوار ہے
میرے اندر کتنے غم ہیں دوستا
یہ ہنسی تو باہری دیوار ہے
(شائق سعیدی۔ رحیم یار خان)
غزل
رنگ جیسے ہوائیں بدلیں
اُس کے دل کی فضائیں بدلیں
خونی وحشت سے مر نہ جاؤں
آپ اپنی نگاہیں بدلیں
یقیں اُن پر کبھی نہ کرنا
جانے کب وہ ادائیں بدلیں
ہو بہو ہیں بہار جیسے
جب وہ آئیں خزائیں بدلیں
برا ہو ںمیں یہ مانتا ہوں
آپ خود کو بچائیں، بدلیں
ہے وہاں پر مرا بسیرا
نیکیوں میں خطائیں بدلیں
(محمد وسیم وصی۔ ہڑپہ)
شعرااپنا کلام ، شہر کے نام اور تصویر کے ساتھ اس پتے پر ارسال کریں، انچارج صفحہ ’’کوچہ سخن ‘‘، روزنامہ ایکسپریس، 5 ایکسپریس وے، کورنگی روڈ ، کراچی
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: کا نظام چلتا ہے اچھی نہیں ہوتی ضروری تھا میں کیسا دیوار ہے بولیں گے کس پر ہے ذرا اور کر لیا رہا ہے
پڑھیں:
انقلاب – مشن نور
انقلاب – مشن نور WhatsAppFacebookTwitter 0 16 September, 2025 سب نیوز
تحریر۔۔ محمد عارف ،قائدِ تحریکِ انقلاب
اندھیروں سے روشنی کی طرف
پاکستان اس وقت ایک ایسے دوراہے پر کھڑا ہے جہاں ظلم، ناانصافی اور محرومیاں عوام کا مقدر بن چکی ہیں۔ طاقت کے ایوانوں میں بیٹھے افراد نے عوام کے خواب چھین لیے ہیں اور سچائی کی آواز دبانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ لیکن تاریخ ہمیشہ یہی بتاتی ہے کہ جب اندھیرا اپنی انتہا کو پہنچتا ہے تو انقلاب کی صبح طلوع ہوتی ہے۔
مشن نور اسی صبحِ انقلاب کی پہلی کرن ہے۔
20 ستمبر: اذانِ انقلاب
یہ مشن صرف ایک نعرہ نہیں بلکہ ایک عہد ہے۔ 20 ستمبر کو جب پوری قوم بیک وقت اذان دے گی تو یہ محض نماز کی اذان نہیں ہو گی، بلکہ یہ ایک اجتماعی اعلان ہو گا کہ یہ قوم اب مزید غلامی قبول نہیں کرے گی۔
“یہ اذان حکمرانوں کے ایوانوں کو لرزا دے گی اور دنیا کو بتائے گی کہ پاکستانی قوم جاگ چکی ہے۔”
انقلاب کی قیمت
انقلاب کا سفر کبھی آسان نہیں ہوتا۔ یہ قربانی مانگتا ہے، صبر مانگتا ہے اور اتحاد مانگتا ہے۔ لیکن جو قومیں یہ قیمت ادا کرتی ہیں، وہی تاریخ کے صفحات پر روشن ہوتی ہیں۔ آج ہم سب پر یہ ذمہ داری ہے کہ ہم اپنے حصے کا کردار ادا کریں۔
ہر پاکستانی اپنے گھر میں امید کا چراغ جلائے، اپنی دعاؤں کو طاقت بنائے اور اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کرے۔ یہی وہ جذبہ ہے جو انقلاب کو کامیابی سے ہمکنار کرتا ہے۔
خوابوں کا پاکستان
ہماری جدوجہد کا مقصد صرف حکمران بدلنا نہیں بلکہ ایک ایسا پاکستان تعمیر کرنا ہے جہاں:
انصاف عام ہو
تعلیم ہر بچے کے لیے میسر ہو
ادارے عوام کی خدمت کریں
اور قوم عزت و وقار کے ساتھ دنیا کے سامنے کھڑی ہو
یہی وہ خواب ہے جسے حقیقت بنانے کے لیے مشن نور کی بنیاد رکھی گئی ہے۔
اختتامی پیغام
یہ مشن نور نہیں بلکہ مشنِ انقلاب ہے۔ یہ تحریک صرف آج کے لیے نہیں بلکہ آنے والی نسلوں کے مستقبل کے لیے ہے۔ یقین رکھو، روشنی کا سفر شروع ہو چکا ہے، اور ان شاء اللہ یہ قوم اندھیروں کو شکست دے گی۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرسی ڈی اے کے ممبر ایڈمن امریکہ چلے گے ، ممکنہ طور پر ممبر ایڈمن اور ممبر اسٹیٹ کون ہوسکتے ہیں ،تفصیلات سب نیوز پر ایکو ٹورازم اپنے بہترین مقام پر: ایتھوپیا کی وانچی, افریقہ کے گرین ٹریول کی بحالی میں آگے جسٹس محمد احسن کو بلائیں مگر احتیاط لازم ہے! کالا باغ ڈیم: میری کہانی میری زبانی قطر: دنیا کے انتشار میں مفاہمت کا مینارِ نور وہ گھر جو قائد نے بنایا پاکستان: عالمی افق پر ابھرتی طاقتCopyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہماری ٹیم