سپریم کورٹ نے منشیات برآمدگی کیس میں ملزم کو کیوں بری کیا؟
اشاعت کی تاریخ: 25th, August 2025 GMT
سپریم کورٹ نے منشیات برآمدگی کے کیس میں ملزم زاہد نواز کو بری کر دیا۔ 3 رکنی بینچ، جس کی سربراہی جسٹس محمد ہاشم خان کاکڑ نے کی، کیس کی سماعت کی۔ جسٹس اشتیاق ابراہیم اور جسٹس علی باقر نجفی بھی بینچ کا حصہ تھے۔
فیصلے میں عدالت نے کہا کہ کوئی بھی شخص اپنے ہی مقدمے میں جج نہیں ہو سکتا۔ پولیس انسپکٹر محمد نعیم ضیا، جو مدعی بھی تھے، نے خود تفتیش کی، جس سے شفافیت متاثر ہوئی اور انصاف کے بنیادی اصولوں کی خلاف ورزی ہوئی۔
مزید پڑھیں: سپریم کورٹ نے بہن کے وراثتی حصے کے خلاف بھائی کی درخواست خارج کر دی
عدالت نے مزید بتایا کہ 1280 گرام چرس میں سے 64 گرام کا نمونہ 15 دن بعد اور باقی 1216 گرام مالخانے میں 12 دن بعد جمع کرایا گیا، جس سے چین آف کسٹڈی ثابت نہ ہو سکی۔ سپریم کورٹ نے کہا کہ استغاثہ کیس شک سے بالاتر ثابت نہیں کرسکا اور پولیس اہلکار کی ذاتی گواہی کے بغیر سزا دینا انصاف کے اصول کے خلاف ہے۔
عدالت نے ملزم کے مؤقف کو تسلیم کیا کہ مقدمہ دشمنی کی بنیاد پر بنایا گیا اور استغاثہ شفاف تفتیش اور آزاد شواہد فراہم کرنے میں ناکام رہا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
جسٹس محمد ہاشم خان کاکڑ سپریم کورٹ ملزم زاہد نواز منشیات برآمدگی.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: جسٹس محمد ہاشم خان کاکڑ سپریم کورٹ ملزم زاہد نواز منشیات برآمدگی سپریم کورٹ نے
پڑھیں:
اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس طارق جہانگیری کو کام سے روکنے کا حکمنامہ جاری
—فائل فوٹواسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس طارق جہانگیری کو کام سے روکنے کا 2 صفحات کا حکم نامہ جاری کر دیا گیا۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ سرفراز ڈوگر اور جسٹس اعظم خان نے تحریری حکم نامہ جاری کیا ہے۔
تحریری حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ جوڈیشل کونسل کے فیصلے تک جسٹس جہانگیری کو کام سے روکا جا رہا ہے، اس کیس میں حساس نوعیت کے سوالات ہیں، جج کی اہلیت سے متعلق سوال ہے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے کہا گیا ہے کہ عدالت کو بتایا گیا کہ سپریم جوڈیشنل کونسل میں شکایت بھی زیر التوا ہے۔
عدالت نے جسٹس طارق محمود جہانگیری کو سپریم جوڈیشل کونسل کے فیصلے تک بطور جج کام سے روکنے کا حکم دیا ہے۔
تحریری حکم نامے میں اٹارنی جنرل اور ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد سے 21 اکتوبر کو معاونت طلب کی گئی ہے جبکہ ایک اور درخواست گزار کی کیس میں فریق بننے کی درخواست منظور کی گئی ہے۔