Express News:
2025-09-17@23:17:42 GMT

والدین کی خدمت تمام بچوں پر فرض ہے

اشاعت کی تاریخ: 26th, August 2025 GMT

ہمارے معاشرے میں ایک عام رویہ یہ ہے کہ جب والدین بڑھاپے کی دہلیز پر قدم رکھتے ہیں، تو ان کی دیکھ بھال کا سارا ذمہ ایک ہی بیٹے یا بیٹی کے سپرد کر دیا جاتا ہے اور بعض اوقات پھر یہی ایک اولاد اپنی پوری زندگی والدین کی خدمت میں لگا دیتی ہے، جب کہ باقی بہن بھائی خود کو اس سے بالکل بری الذمہ سمجھ لیتے ہیں۔ یہ نہ صرف غیر منصفانہ عمل ہے، بلکہ یہ اس ایک فرد یا گھرانے کی جسمانی اور ذہنی صحت پر بھی بہت گہرا اثر ڈالتا ہے۔

والدین کی خدمت اور ان کی عزت کرنا ہر اولاد کے لیے چاہے وہ بیٹا ہو یا بیٹی یک ساں طور پر ایک سعادت اور فرض ہے۔ اکثر یہ کہا جاتا ہے کہ ’’بیٹیاں تو شادی کے بعد اپنے گھروں کی ہو جاتی ہیں‘‘ لیکن حقیقت یہ ہے کہ بیٹیاں بھی والدین کی ذمہ داری سے کسی طرح سبک دوش نہیں ہو سکتیں۔

شادی کے بعد بھی وہ والدین کی خدمت، ان کی ضرورت کے وقت ساتھ کھڑے ہونے، اور مالی و اخلاقی معاونت کی پابند ہوتی ہیں۔ صرف بیٹے ہی نہیں، بلکہ بیٹیاں بھی اپنے والدین کے دکھ سکھ میں برابر کی شریک ہونی چاہئیں۔ بیٹی ہونے کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ وہ صرف زبانی ہمدردی یا معمولی سا مالی تعاون کرے، بلکہ اس پر بھی والدین کی خدمت ہر معانی میں فرض ہے۔

اکثر دیکھا گیا ہے کہ وہ بیٹا جو والدین کے ساتھ رہتا ہے اور دن رات ان کی خدمت کرتا ہے، وہ اور اس کے اہل خانہ اپنی نجی زندگی اور ذاتی وقت کی ہمیشہ قربانیاں دیتے ہیں۔ ایسے میں ضروری ہے کہ والدین صرف اپنی اولاد کے شکر گزار نہ رہیں، بلکہ اس کے ساتھ ساتھ اپنی بہو یا داماد اور ان کی اولادوں کی حوصلہ افزائی کریں اور انھیں کھل کر سراہیں۔ ان کے حصے کی قربانیوں کو نظرانداز کرنا یا انھیں صرف ’فرض‘ قرار دے کر ایک طرف ہوجانا اچھی خاصی ناانصافی کے مترادف ہے۔ والدین کو چاہیے کہ وہ اپنی دعاؤں اور محبت میں سب سے زیادہ قدر اسی بیٹے اور اس کے گھرانے کو دیں، جو ان کے ساتھ کھڑے ہیں۔

وہ فرد جس پر والدین کی خدمت کی زیادہ ذمہ داری آ جاتی ہے، وہ اکثر ذہنی دباؤ، تھکن اور اکثر احساسِ محرومی کا شکار بھی ہو جاتا ہے۔ ایسے حالات میں اس کی ’’ذہنی صحت‘‘ کو نظرانداز نہیں کرنا چاہیے۔ خدمت کرنے والے فرد کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی زندگی میں کچھ حدود ضرور قائم کرے۔ مثلاً:

اپنی نجی زندگی اور والدین کی ضروریات کے درمیان توازن رکھنا۔

بہن بھائیوں سے عملی تعان اور مالی طور پر ہاتھ بٹانے کا مطالبہ کرنا۔

اپنے آرام اور ذہنی سکون کے لیے وقت نکالنا۔

اگر سب بہن بھائی والدین کی خدمت میں شریک ہو جائیں، تو نہ صرف والدین خوش رہیں گے، بلکہ ان کی اولاد کے دلوں میں بھی فرق نہیں ہوگا اور اس سے آنے والے وقت میں ان کے درمیان محبت اور انصاف بھی بڑھے گا۔ مالی تعاون، وقت دینا، والدین کے ساتھ بیٹھ کر بات کرنا اور ان کی دعائیں لینا سب کے لیے سکونِ قلب کا باعث ہے۔ بہت سے گھرانوں میں دیگر بہن بھائی والدین کے اخراجات کے لیے معاونت کرکے یا تمام اخراجات اٹھا کر یہ سمجھنے لگتے ہیں کہ انھیں اب اپنے والدین کے لیے مزید کچھ کرنے کی ضرورت ہی نہیں، کیوں کہ وہی تو سب کچھ کر رہے ہیں، جب کہ ایسا ہرگز نہیں ہے۔

پیسے سے بہت کچھ ہوتا ہے، لیکن پیسہ سب کچھ نہیں ہوتا۔ والدین کو وقت دینا،  ان کے ساتھ رہنا اور ان کی دیکھ بھال ایک پوری اور بہت اہم ذمے داری ہوتی ہے۔ اس لیے اِس ذمے داری کو بھی اہمیت دینی چاہیے اور اولاد کے درمیان باہم بانٹ لینا چاہیے اور اسے کسی ایک بیٹے یا بیٹی پر ہرگز نہیں چھوڑنا چاہیے، سب اس ذمے داری کو سمجھیں اور اس میں مساوی طور پر برابر حصہ ڈالیں۔ بیٹے ہی نہیں بیٹیاں بھی اپنے والدین کے دکھ سکھ میں ساتھ کھڑی ہوں۔ اگر وہ اپنے الگ گھر میں رہتی ہیں، تو خصوصیت کے ساتھ  انھیں ضرور بیٹوں کی طرح اپنے والدین کو اپنے ہاں ٹھیرانا چاہیے۔

والدین کے ساتھ دیگر بہن بھائیوں کو والدین کے  ساتھ رہنے والے بیٹے اور اس کے گھرانے کی قربانی کو قدر کی نگاہ سے دیکھنا چاہیے۔ سب بہن بھائی والدین کے معاملات میں مشاورت سے فیصلہ کریں۔ والدین کو بوجھ سمجھیں اور نہ کسی کو سمجھنے دیں، ان کا رتبہ اور وقار ہر لمحہ ملحوظ رکھتے ہوئے ان کی خدمت کریں۔ والدین کی تیمار داری اور ان کی خدمت کرنے والے فرد کی ذہنی اور جسمانی صحت کا خیال رکھیں۔

یاد رکھیے! والدین اللہ کی عظیم نعمت ہیں۔ ان کی خدمت سب اولاد پر فرض ہے، چاہے بیٹا ہو یا بیٹی۔ یہ بوجھ ایک فرد پر ڈال دینا ناانصافی ہے۔ والدین کو بھی چاہیے کہ وہ اپنے ساتھ رہنے والے بیٹے اور اس کی فیملی کو محبت اور عزت دیں۔ انصاف اور توازن سے نہ صرف والدین خوش رہیں گے بلکہ بہن بھائیوں کے درمیان تعلقات بھی مضبوط ہوں گے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: والدین کی خدمت اپنے والدین ان کی خدمت بہن بھائی والدین کو والدین کے کے درمیان اور ان کی اولاد کے کے ساتھ اور اس فرض ہے

پڑھیں:

صوبائی وزیر طارق علی ٹالپور اور فریال تالپور کی سرپرستی میں محکمہ سماجی بہبود کرپشن کا گڑھ بن گیا

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

کراچی(رپورٹ:منیر عقیل انصاری)محکمہ سماجی بہبود سندھ تباہی کے دھانے پر پہنچ گیا ،سیکرٹری سوشل ویلفیئرپرویز سیھڑ کی ناقص کارکردگی اور ڈائریکٹر جنرل سوشل ویلفیئر ہیڈکواٹر کی پوسٹ کا ایڈیشنل چارج 8ماہ سے پرویز سیھڑکے پاس تھا جو سو فیصدپروجیکٹس کا بجٹ ریگولر بجٹ ،اسکیموں کا بجٹ خردبرد کر کے صوبائی وزیر طارق علی ٹالپورکی اجازت سے بیرون ملک چلے گئے۔

جس کی بناسوشل ویلفیئر کا چارج معظم مری جو ڈی جی چائیلڈ پروٹیکشن اتھارٹی کے پاس ہے جو ماضی میں ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کے انڈومنٹ فنڈ میں خوردبرد میں ملوث تھے۔محکمہ سماجی بہبود کی من مانیاں, جونیئر آفیسر کی اہم پوسٹوں پر تعینات سینئر افسران کو نظر انداز کرنا ،ٹیم ورک پر یقین نہ رکھنا،جس کی وجہ سے سوشل ویلفیئر کی اسکیمیں نامکمل رہیں اور چار پروجیکٹس کے کمیشن بننے تھے جو نوو ٹیفائی نہ ہوسکے۔

جن میں چیرٹی کمیشن،سینئر سیٹیزن ایکٹ کمیشن ،آرفن ایکٹ کمیشن اور سندھ سوشل ویلفیئر کاو¿نسل آج تک دوبارہ نو ٹیفائی نہ ہوسکے۔جبکہ ان چاروں پروجیکٹس کے بجٹ کو سو فیصد ہڑپ کیا جاچکا ہے اور نتائج اس کے بالکل زیرو ہیں۔

ذارئع کے مطابق صوبائی وزیر طارق علی ٹالپورنے اپنے پرسنل سیکرٹری اعظم نوحانی کو فری ہینڈ دے دیا ہے کہ ڈیپارٹمنٹ میں جواب سے زیادہ کرپٹ آفیسر ہو اسے ذمہ داری سونپنے ی جائے۔جس پر اعظم نوحانی نے خیر محمد کلوڑکو ضلع گھوٹکی سے تبادلہ کر کے ڈپٹی ڈائریکٹر ایڈمن کی اہم پوسٹ پر تعینات کیا۔

جب کہ خیر محمد کلوڑ کے بارے میں مشہور ہے کہ یہ خود جعلی اسناداسٹنٹ سوشل ویلفیئر افیسرگریڈ پندرہ کی پوسٹ پر جعلی بھرتی ہوا تھا۔جبکہ اس پوسٹ کی ایڈورٹائزنگ بھی نہیں ہوئی تھی اور ابھی دو سال بھی مکمل نہیں ہوئے تھے کہ یہ موصوف بھاری رشوت کے عوض اسٹنٹ ڈائریکٹر 17میں پرموٹ ہوگئے بعد ازاں مئی 2024میں دوسرا پرموشن ڈپٹی ڈائریکٹر گریڈ 18میں حاصل کرکے ضلع گھوٹکی سے تبادلہ کروا کر ڈپٹی ڈائریکٹر ایڈمن کی پوسٹ پر تعیناتی حاصل کی۔

ذرائع کے مطابق گھوٹکی میں تمام غیر قانونی بھرتیاں اور کروڑوں روپے کی کرپشن کرنے کے بعداب کراچی ہیڈکواٹر میں کرپشن کا بازار گرم کر رکھا ہے۔

وزیر برائے سماجی بہبود طارق علی ٹالپورکے فری ہینڈ دینے کی وجہ سے تمام پورے سندھ کے دفتروں سے ماہانہ بنیاد پرایک لاکھ روپے،پچاس ہزار اور تعلقہ دفاتر سے پچیس ہزار روپئے بھتہ وصول کرتا ہے ہیڈ کواٹر کے تمام ڈی ڈی او پاورز اس کے پاس ہیں۔تمام اکاو¿نٹس جو کہ مختلف بینکوں میں سوشل ویلفیئر کے پروجیکٹس کے نام پر کھلے ہیں آپریٹ کررہا ہے۔

ان پروجیکٹس کے اوکانٹس کے علاو¿ہ ہیڈ کوارٹر کے مین اکاو¿نٹس1901. KQاور KQ.1937جوریگولر بجٹ سے متعلق ہے اربوں روپئے نکال کر ہضم کئے جارہے ہیں۔انھوں نے چودہ ماہ سے ڈپٹی ڈائریکٹر والینٹر ایجنسیزکا ایڈیشنل چارج بھی اپنے پاس رکھا ہے اور یہ تیس ہزار روپئے رشوت رینیول آف این جی او کی رشوت کے لیتا ہے۔

جو سب بڑھا کر پچاس ہزار روپئے کر دی گئی ہے۔چیریٹی کا سرٹیفیکیٹ ایشو کرنے کیلئے چالیس ہزار روپئے رشوت کے لئے جاتے ہیں۔جبکہ قانون کے مطابق تمام این جی اووز ہرسال دو ہزار روپئے گورنمنٹ چالان ادا کرتے ہیں اور دس ہزار روپئے کا چالان چیرٹی کمیشن کا ادا کرتے ہیں۔

ٹرانسفر ،پوسٹنگ اور چھوٹے اسٹاف سےپچیس ہزار روپئے لئے جاتے ہیں اور بڑے افسران سے ایک لاکھ روپئے رشوت وصول کی جاتی ہے اور دھڑلے سے کہا جاتا ہے کہ وزیرطارق علی ٹالپور اور اعظم نوحانی کو رشوت دیتا ہوں میرا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا ہے۔

یہاں تک کہ وزیر اعلی سندھ بھی میرا کچھ نہیں کرسکتے۔ یہ صاحب اس وقت چار گاڑیوں کے مالک بنے ہوئے ہیں۔ابھی حال ہی میں ڈھائی کروڑ روپئے مالیت کی فور چونر خریدیں ہے۔

جبکہ یہ شخص 2009میں جعلی کاغذات پر بھرتی ہوا تھااور اس وقت اس کے پاس موٹر سائیکل تک نہیں تھی۔ضلع گھوٹکی کے تمام تعلقہ دفتروں کا بجٹ 2016سے لیکر 2023تک کھلے عام ہڑپ کیاکیونکہ تمام دفتروں کےڈی ڈی پاور اختیارات ان کے پاس تھے۔

سںب سے یہ برملا کہتے تھے کہ گھوٹکی کے تمام سرداروں کے ساتھ ساتھ فریال تالپور کی بھی بھی مجھے مکمل حمایت حاصل ہے اس لئے میرا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا ہے۔اس شخص نے اپنی میگا کرپشن سے محکمہ کا نقشہ ہی بگاڑ کر رکھ دیا ہے۔

جس کی وجہ سے محکمہ ترقی کرنے کے بجائے روز بروز تنزلی کا شکار ہوتا جارہا ہے۔ چھوٹے ملازمین اپنی ترقی نہ ہونے سے پریشان ہیں کیونکہ ترقی کے لئے بھی ان سے ایک ایک لاکھ روپئے رشوت طلب کی جاتی ہے۔

صوبائی وزیر طارق تالپور خاندانی نواب ہوتے ہوئے بھی اس رشوت خور آفیسر کے محتاج ہیں۔اس آفیسر کی میگا کرپشن کے باوجود کوئی اس کا ٹرانسفر نہیں کرسکتا۔

حال ہی میں غیرقانونی بھرتیوں کی انکوائری اینٹی کرپشن ڈیپارٹمنٹ نے شروع کی تھی لیکن پچاس لاکھ روپے رشوت دے کر اور اوپر سے فون کروا کر یہ انکوائری رکوا دی گئی۔ان حالات میں سینئر آفیسر اور چھوٹے ملازمین عوام الناس جو اپنی تنظیموں کی رینیول اور اپنی رجسٹریشن کروانےجاتے ہیں تو بھاری رشوت کا سن کر پریشان ہو جاتے ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • ٹرمپ اپنے دوسرے سرکاری دورے پر برطانیہ میں
  • دوران آپریشن نرس کے ساتھ رنگ رلیاں منانے والا ڈاکٹر دوبارہ جاب کیلئے اہل قرار
  • کراچی: بچے بچیوں کے ساتھ بدفعلی کرنے والے ملزم کے بارے میں علاقہ مکین کیا کہتے ہیں؟
  • صوبائی وزیر طارق علی ٹالپور اور فریال تالپور کی سرپرستی میں محکمہ سماجی بہبود کرپشن کا گڑھ بن گیا
  • ایک شخص نے اپنے اقتدار کو طول دینے کیلئے پی ٹی آئی کو کرش کیا، عدلیہ کو اپنے ساتھ ملالیا، عمران خان
  • بچے کی پیدائش پر اسکی شناخت نہ کروانا بچے کے ساتھ حق تلفی ہے، ترجمان نادرا
  • اسرائیل کی معاشی تنہائی شروع
  • ’اور کیسے ہیں؟‘ کے علاوہ بھی کچھ سوال جو آپ کو لوگوں کے قریب لاسکتے ہیں!
  • عوام کی خدمت پر تنقید کی جارہی ہے، ایسا کرنے والوں کی بے بسی سمجھتی ہوں، مریم نواز
  • یہ وہ لاہور نہیں