مقبولیت اور قبولیت میں بڑا فرق ہے
اشاعت کی تاریخ: 26th, August 2025 GMT
ایک سیاسی مبصر اکثر یہ کہا کرتے ہیں کہ مقبولیت اور قبولیت میں بڑا فرق ہوتا ہے۔ حالیہ سیاسی صورتحال پر وہ اکثر یہ جملہ کہہ کر پاکستان تحریک انصاف کے چاہنے والوں کو باورکرایا کرتے ہیں کہ عوامی مقبولیت اقتدار حاصل کرنے کا پیمانہ نہیں ہوتی ہے۔ خاص کر ہماری سیاسی صورتحال اور تاریخ یہی بتاتی ہے کہ عوامی مقبولیت بھی کسی کے حسن کی طرح وقتی اور عارضی ہوا کرتی ہے اور بہت جلد بڑھاپے یا زوال کا شکار ہوجاتی ہے۔
حسن اور خوبصورتی دائمی نہیں ہوا کرتی ہے جب کہ سیرت ہمیشہ قائم رہتی ہے۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ شادی کرتے وقت سیرت کو اول اور پرائمری اہمیت دینی چاہیے اور حسن کو سیکنڈری۔ مگر ہم چونکہ ظاہری حسن اور خوبصورتی کے دلدادہ لوگ ہیں اس لیے یہ سبق بھول جاتے ہیں اور ہر اس شخص کو اپنا رہنما سمجھ لیتے ہیں جو دیکھنے میں اسمارٹ اور ہینڈسم معلوم ہوتا ہو یا جسے بولنا اچھا آتا ہو۔ ہماری سیاسی تاریخ میں دو رہنما ایسے گزرے ہیں جو اِن دونوں خصوصیات کی وجہ سے عوامی مقبولیت کے عروج پر پہنچ گئے۔ دونوں اشخاص جاہ و جلال اور خوبصورت شخصیت کے مالک رہے ہیں۔
ایک شخص جسے جب پھانسی کے تختہ پر چڑھایا گیا، وہ بھی اپنے دور کا بہت ہی مقبول رہنما تھا اورجس کے پلڑے میں کارکردگی کے بہت سارے کارنامے موجود تھے اور جسے آخری وقت تک یہ وہم اورگمان تھا کہ اس کے چاہنے والے اسے کال کوٹھری سے باہر نکال لائیں گے۔
ذوالفقار علی بھٹو اس ملک کے بہت بڑے عوامی لیڈر تھے۔ بلاشبہ انھوں نے اپنی سیاست کا آغاز ایک ڈکٹیٹر کی ملازمت سے کیا لیکن بعد ازاں انھیں جب یہ احساس ہونے لگا کہ عوام اب انھیں ایک علیحدہ شناخت کے ساتھ قبول کرلیں گے تو انھوں نے اس شخص سے کنارہ کشی اختیارکر لی جو حکمران تھا، وہ ایک علیحدہ سیاسی نظریے کے ساتھ میدان عمل میں اترے اور سوشل ازم کے نظریات کا پرچار کرتے ہوئے اپنی ایک مکمل علیحدہ شناخت بنا لی۔ قطعی نظر اس کے کہ انھوں نے 1970 کے پہلے عام انتخابات کے نتائج کو من و عن تسلیم کرنے سے انکار کر دیا اور جس کے نتیجے میں ہمارا یہ وطن عزیز دولخت ہوجانے کے سانحے سے بھی گزر گیا ۔
اس ملک کا وزیراعظم بننا اور اس ملک کو سوشل ازم کے فلسفہ سے سرفرازکرنا ان کا ایک عزم اور مقصد تھا جو انھوں نے ہر حال میں پورا کیا۔ یہ ملک جو ایک اسلامی نظریہ کے ساتھ معرض وجود میں آیا تھا بھٹو صاحب نے اس کی شکل ہی بدل کر رکھ دی۔ اقتدار سنبھالتے ہی انھوں نے سوشلسٹ اصولوں کے مطابق سارے ادارے اور کارخانے قومی تحویل میں لے لیے۔ بینکس ، اسکولز،کالجز اور تمام نجی کارخانے راتوں رات سرکارکی ملکیت قرار دے دیے گئے۔
ان کے اس فیصلے سے ان اداروں میں کام کرنے والوں کی تو چاندنی ضرور ہوگئی اور اُن کی تنخواہوں اور مشاہرات میں اضافہ ہوگیا لیکن وہ کام نہ کرنے اور مفت کی روٹی توڑنے کے عادی بن گئے۔ انھیں کام نہ کرنے کے جرم میں اب کوئی نوکری سے برخاست بھی نہیں کرسکتا تھا کیونکہ یونین سازی نے اُن کے تحفظ کا بیڑہ جو اُٹھا لیا تھا۔ نتیجتاً اس ملک کا جو نقصان ہوا، اس کا ازالہ اب تک ممکن نہ ہوسکا۔ سرکاری تحویل میں چلنے والے تمام ادارے خسارے سے دوچار ہونے لگے اور قومی خزانے پر بوجھ بننے لگے۔
پرائیویٹ سیکٹر میں سرمایہ کاری رک گئی اور ملک ترقی کے بجائے زوال پذیری کی طرف گامزن ہونے لگا۔ بینکوں کا حال ڈاکخانوں جیسا ہوگیا اور وہاں بھی مسابقت کا رجحان ختم ہو کر رہ گیا۔ بینکوں کے ملازم یونین کے عہدے دار بن کر ڈیوٹی سے غائب رہنے لگے اور سارا ماحول ابتر ہونے لگا۔ یہی حال اسکولوں اور کالجوں کا بھی ہوگیا اور معیار تعلیم زبوں حالی کا شکار ہوگیا۔ عوامی مقبولیت کے زعم میں ذوالفقار علی بھٹو نے بھی اپنے مخالفوں کے ساتھ ویسا ہی رویہ اختیار کر لیا جیسا ہم نے سابقہ عمرانی دور میں دیکھا تھا۔ 1977 میں وہ جب اقتدار سے معزول کردیے گئے تو اس وقت بھی وہ پارلیمنٹ کی دو تہائی اکثریت کے حامل تھے، مگر کیا ان کی یہ عوامی مقبولیت انھیں پھانسی سے بچا سکی ۔
جس روز 4 اپریل کو انھیں پھانسی پر لٹکایا گیا سارے ملک میں اتنا بڑا بھی ہنگامہ نہیں ہوا، جیسے محترمہ بے نظیر بھٹوکی شہادت پر ہوا تھا۔ دونوں موقعوں پرگرچہ غیر سول حکمرانوں کا دور تھا، مگر ایسا کیوں ہوا۔ اس سوال پر ہمیں غورکرنے کی ضرورت ہے۔ حالانکہ بھٹو کو پھانسی سے بچانے کے لیے اس وقت کئی غیر ممالک سربراہوں نے بھی آوازیں اُٹھائی تھیں۔ خان صاحب بھی آج عوامی مقبولیت کے اس دور سے گزر رہے ہیں جن پرکبھی بھٹو صاحب گزر رہے تھے۔ دونوں کا ایک دوسرے سے مماثلث یا تقابلی جائزہ تو اس لیے بھی نہیں کیا جاسکتا ہے کہ دونوں میں سیاسی سوجھ بوجھ کا ایک بہت بڑا فرق ہے۔ بھٹو صاحب نے ہمیشہ قابل اور ذہین لوگوں کو قدرکی نگاہوں سے دیکھا اور انھیں اپنے ساتھ بھی ملایا جب کہ خان صاحب نے ہمیشہ ایسے ذہین لوگوں کواپنے سے دورکیا۔ جو اُن کا ساتھ نبھانے کے لیے کبھی اُن کی پارٹی میں شامل بھی ہوئے تو انھوں نے اُن کی ایسی عزت افزائی کی کہ وہ خود ہی پارٹی سے علیحدہ ہوگئے۔
جسٹس وجیہ الدین، جاوید ہاشمی اور جہانگیر ترین سمیت کئی لوگ اس کی مثال ہیں۔ عثمان بزدار جیسے لوگ انھیں وسیم اکرم پلس لگا کرتے ہیں، وہ آج بھی اپنی اس پسند اور ناپسند پر سختی سے قائم ہیں ۔ انھیں وہ شخص زیادہ پیار اور اچھا لگتا ہے جو جتنا زیادہ بدتمیز اور جارحانہ صفات کا حامل ہو۔ جو مخالفوں کو صبح و شام لعن و طعن بکتا رہتا ہو وہی اُن کا زیادہ وفادار سمجھا جاتا ہے۔ خان صاحب کو ایک بڑی غلط فہمی یہ ہے کہ آج جو ان کی عوامی مقبولیت ہے وہ سب اُن کی اپنی طلسماتی شخصیت کی وجہ سے ہے ۔
حالانکہ انھیں معلوم ہونا چاہیے کہ 2011 تک سیاست میں قدم جمانے کے لیے وہ ایڑھیاں رگڑتے رہے اور انھیں کسی بھی عام انتخابات میں ایک دو سے زیادہ نشستیں نہیں ملیں۔ یہ پس پردہ باکمال طاقتور حلقوں کا کرشمہ تھا ۔ جنھوں نے 2011 میں نواز دشمنی میں اُن کا ہاتھ پکڑا اور انھیں عوامی مقبولیت کے اس درجے پر پہنچایا۔ اس سے پہلے 1996سے لے کر اگلے پندرہ سالوں تک وہ ایک ناکام سیاست کے امین بنے رہے۔ انھیں معلوم ہوجانا چاہیے کہ یہ مقبولیت جن لوگوں کی مرہون منت ہے وہی اسے واپس بھی لے سکتے ہیں۔
یہ نہ جھکنے اور ڈٹے رہنے کا زعم اب زیادہ دنوں تک قائم نہیں رہ پائے گا۔ ملک اگر اُن کے بغیر بھی ترقی اور خوشحالی کی راہ پر چل پڑا ہے تو یہ زعم زیادہ چلنے والا نہیں ہے۔ ہاں معرکہ حق کے بعد اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے آج صورتحال بالکل ہی مختلف ہے۔ چند برس پہلے کی ایک ناکام ریاست دنیا کی ایک کامیاب ریاست بن چکی ہے۔
قوم کی عزت وقار میں بڑا اضافہ ہوچکا ہے۔ دنیا ہماری صلاحیتوں کی معترف ہوچکی ہے اور ہم ایک روشن مستقبل کی جانب بڑھ چکے ہیں۔ ہر آنے والا نیا دن ہمارے لیے خوشی کی نوید لیے ہوتا ہے۔ خان صاحب نے اپنے چاہنے والوں کو کئی بار احتجاج کی کال دے کر دیکھ لیا۔ کوئی مؤثر احتجاج ابھی تک سامنے نہیں آیا۔ رفتہ رفتہ ان کی عوامی مقبولیت زنگ پکڑتی جارہی ہے۔ اسی لیے کہتے ہیں کہ مقبولیت اور قبولیت میں بڑا فرق ہوتا ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: عوامی مقبولیت کے انھوں نے بڑا فرق میں بڑا کے ساتھ اس ملک
پڑھیں:
کراچی ملک کی لائف لائن ہے‘ پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت نے کھنڈر بنادیا ٗ منعم ظفر
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251031-01-14
کراچی (اسٹاف رپورٹر) امیر جماعت اسلامی کراچی منعم ظفر خان نے کہا ہے کہ کراچی پورے ملک کی لائف لائن ہے لیکن اسے دانستہ نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت کی نااہلی اور کرپشن نے شہر کو کھنڈر بنا دیا ہے، سڑکیں ٹوٹی ہوئی ہیں، پانی ناپید ہے، سیوریج کا نظام درہم برہم ، انفرا اسٹرکچر تباہ حال ہے اور ای چالان کے نام پر شہریوں کی جیبوں پر ڈاکا ڈالا جا رہا ہے۔ صرف گزشتہ 24 گھنٹے میں ساڑھے 6 کروڑ روپے کے چالان کر کے ظلم کی انتہا کر دی گئی۔ وفاقی و صوبائی حکومتوں نے مل کر کراچی کو تباہ کیا ہے۔سندھ حکومت نے کراچی کے ترقیاتی فنڈز اور2010تا 2025تک کراچی کے حصے کے 3ہزار 360ارب روپے ہڑپ کرلیے ۔ انفرااسٹرکچر سیس کے نام پر ایک ہزار ارب روپے وصول کیے گئے مگر شہر کی تعمیر پر خرچ نہیں کیے گئے ،جماعت اسلامی اقامت دین، عدل کے قیام اور ظلم کے نظام کے خاتمے کی جدوجہد کر رہی ہے۔ پاکستان کلمے کی بنیادپر حاصل کیا گیا تھا، مگر آج ملک میں ظلم، ناانصافی، مہنگائی اور بے روزگاری نے عوام کا جینا دوبھر کر دیا ہے۔ حکمرانوں کے چہرے بدلتے ہیں مگر نظام وہی استحصالی رہتا ہے۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے جماعت اسلامی ضلع جنوبی کے تحت شاہ عبدالطیف بھٹائی ہال موسیٰ لین لیاری میں عوامی کمیٹیوں کی تقریب حلف برداری و ممبرز کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔تقریب سے امیر ضلع جنوبی سفیان دلاور،سابق ایم پی اے سید عبدالرشید، نائب امیرضلع جنوبی و رکن سٹی کونسل سید جواد شعیب ودیگر نے بھی خطاب کیا ۔اس موقع پر سابق رکن صوبائی اسمبلی غلام حسین بلوچ ، فضل الرحمن سمیت بڑی تعداد میں نوجوان، معززین علاقہ اور جماعت اسلامی کے ذمے داران بھی موجود تھے ۔ منعم ظفر خان نے مزیدکہاکہ جماعت اسلامی واحد جماعت ہے جو کراچی کے عوام کے حق کی جدوجہد کر رہی ہے۔ اختیارات و وسائل نہ ہونے کے باوجود2 سال میں 171 سے زاید پارک بحال اور 43 سرکاری اسکولوں کی تعمیر نو کی، ایک لاکھ سے زاید اسٹریٹ لائٹس نصب کیں اور 6 لاکھ افراد تک پانی پہنچایا۔ یہ سب اس عزم کا مظہر ہے کہ جماعت اسلامی خدمت کو عبادت سمجھتی ہے۔انہوں نے کہا کہ لیاری میں قائم ہونے والی 200 عوامی کمیٹیاں محلے اور گلی کی سطح پر عوامی خدمت کا فریضہ انجام دیں گی۔ یہ کمیٹیاں صفائی ستھرائی کی بہتری ، قانون شکنی کی روک تھام اور منشیات کے خاتمے کے لیے فعال کردار ادا کریں گی۔منعم ظفر خان نے شرکا کو جماعت اسلامی کے اجتماعِ عام لاہور میں شرکت کی دعوت دیتے ہوئے کہا کہ 21، 22 اور 23 نومبر کومینار پاکستان لاہور میں ہونے والا اجتماعِ عام ملک میں رائج ظلم و استحصال کے نظام کی تبدیلی کی تحریک کا آغاز ثابت ہوگا۔ اجتماع عام کا پیغام ہے’’بدل دو نظام کو‘‘۔انہوں نے کہا کہ پورے ملک سے نوجوان، خواتین، بچے اور مختلف شعبہ ہائے زندگی سے وابستہ افراداس میں شریک ہوں گے۔ سفیان دلاور نے کہاکہ جماعت اسلامی ظلم کے مقابلے میں عدل و انصاف کے نظام کے قیام کی جدوجہد کر رہی ہے۔ لیاری کے عوام بجلی، پانی، سڑکوں اور منشیات جیسے سنگین مسائل سے دوچار ہیں مگر حکمرانوں نے عوامی مسائل سے چشم پوشی اختیار کر رکھی ہے۔ جماعت اسلامی خدمت، امانت اور دیانت کی علامت ہے، کراچی کے عوام کے چہروں پر مسکراہٹ لوٹانا ہمارا مشن ہے۔
امیر جماعت اسلامی کراچی منعم ظفر خان ، سفیان دلاور، سید عبد الرشید، سید جواد شعیب جماعت اسلامی ضلع جنوبی کے تحت موسیٰ لین لیاری میں عوامی کمیٹیوں کی تقریب حلف برداری و ممبرز کنونشن سے خطاب کررہے ہیں