Express News:
2025-09-17@23:15:16 GMT

مقبولیت اور قبولیت میں بڑا فرق ہے

اشاعت کی تاریخ: 26th, August 2025 GMT

ایک سیاسی مبصر اکثر یہ کہا کرتے ہیں کہ مقبولیت اور قبولیت میں بڑا فرق ہوتا ہے۔ حالیہ سیاسی صورتحال پر وہ اکثر یہ جملہ کہہ کر پاکستان تحریک انصاف کے چاہنے والوں کو باورکرایا کرتے ہیں کہ عوامی مقبولیت اقتدار حاصل کرنے کا پیمانہ نہیں ہوتی ہے۔ خاص کر ہماری سیاسی صورتحال اور تاریخ یہی بتاتی ہے کہ عوامی مقبولیت بھی کسی کے حسن کی طرح وقتی اور عارضی ہوا کرتی ہے اور بہت جلد بڑھاپے یا زوال کا شکار ہوجاتی ہے۔

حسن اور خوبصورتی دائمی نہیں ہوا کرتی ہے جب کہ سیرت ہمیشہ قائم رہتی ہے۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ شادی کرتے وقت سیرت کو اول اور پرائمری اہمیت دینی چاہیے اور حسن کو سیکنڈری۔ مگر ہم چونکہ ظاہری حسن اور خوبصورتی کے دلدادہ لوگ ہیں اس لیے یہ سبق بھول جاتے ہیں اور ہر اس شخص کو اپنا رہنما سمجھ لیتے ہیں جو دیکھنے میں اسمارٹ اور ہینڈسم معلوم ہوتا ہو یا جسے بولنا اچھا آتا ہو۔ ہماری سیاسی تاریخ میں دو رہنما ایسے گزرے ہیں جو اِن دونوں خصوصیات کی وجہ سے عوامی مقبولیت کے عروج پر پہنچ گئے۔ دونوں اشخاص جاہ و جلال اور خوبصورت شخصیت کے مالک رہے ہیں۔

ایک شخص جسے جب پھانسی کے تختہ پر چڑھایا گیا، وہ بھی اپنے دور کا بہت ہی مقبول رہنما تھا اورجس کے پلڑے میں کارکردگی کے بہت سارے کارنامے موجود تھے اور جسے آخری وقت تک یہ وہم اورگمان تھا کہ اس کے چاہنے والے اسے کال کوٹھری سے باہر نکال لائیں گے۔

ذوالفقار علی بھٹو اس ملک کے بہت بڑے عوامی لیڈر تھے۔ بلاشبہ انھوں نے اپنی سیاست کا آغاز ایک ڈکٹیٹر کی ملازمت سے کیا لیکن بعد ازاں انھیں جب یہ احساس ہونے لگا کہ عوام اب انھیں ایک علیحدہ شناخت کے ساتھ قبول کرلیں گے تو انھوں نے اس شخص سے کنارہ کشی اختیارکر لی جو حکمران تھا، وہ ایک علیحدہ سیاسی نظریے کے ساتھ میدان عمل میں اترے اور سوشل ازم کے نظریات کا پرچار کرتے ہوئے اپنی ایک مکمل علیحدہ شناخت بنا لی۔ قطعی نظر اس کے کہ انھوں نے 1970  کے پہلے عام انتخابات کے نتائج کو من و عن تسلیم کرنے سے انکار کر دیا اور جس کے نتیجے میں ہمارا یہ وطن عزیز دولخت ہوجانے کے سانحے سے بھی گزر گیا ۔

اس ملک کا وزیراعظم بننا اور اس ملک کو سوشل ازم کے فلسفہ سے سرفرازکرنا ان کا ایک عزم اور مقصد تھا جو انھوں نے ہر حال میں پورا کیا۔ یہ ملک جو ایک اسلامی نظریہ کے ساتھ معرض وجود میں آیا تھا بھٹو صاحب نے اس کی شکل ہی بدل کر رکھ دی۔ اقتدار سنبھالتے ہی انھوں نے سوشلسٹ اصولوں کے مطابق سارے ادارے اور کارخانے قومی تحویل میں لے لیے۔ بینکس ، اسکولز،کالجز اور تمام نجی کارخانے راتوں رات سرکارکی ملکیت قرار دے دیے گئے۔

ان کے اس فیصلے سے ان اداروں میں کام کرنے والوں کی تو چاندنی ضرور ہوگئی اور اُن کی تنخواہوں اور مشاہرات میں اضافہ ہوگیا لیکن وہ کام نہ کرنے اور مفت کی روٹی توڑنے کے عادی بن گئے۔ انھیں کام نہ کرنے کے جرم میں اب کوئی نوکری سے برخاست بھی نہیں کرسکتا تھا کیونکہ یونین سازی نے اُن کے تحفظ کا بیڑہ جو اُٹھا لیا تھا۔ نتیجتاً اس ملک کا جو نقصان ہوا، اس کا ازالہ اب تک ممکن نہ ہوسکا۔ سرکاری تحویل میں چلنے والے تمام ادارے خسارے سے دوچار ہونے لگے اور قومی خزانے پر بوجھ بننے لگے۔

پرائیویٹ سیکٹر میں سرمایہ کاری رک گئی اور ملک ترقی کے بجائے زوال پذیری کی طرف گامزن ہونے لگا۔ بینکوں کا حال ڈاکخانوں جیسا ہوگیا اور وہاں بھی مسابقت کا رجحان ختم ہو کر رہ گیا۔ بینکوں کے ملازم یونین کے عہدے دار بن کر ڈیوٹی سے غائب رہنے لگے اور سارا ماحول ابتر ہونے لگا۔ یہی حال اسکولوں اور کالجوں کا بھی ہوگیا اور معیار تعلیم زبوں حالی کا شکار ہوگیا۔ عوامی مقبولیت کے زعم میں ذوالفقار علی بھٹو نے بھی اپنے مخالفوں کے ساتھ ویسا ہی رویہ اختیار کر لیا جیسا ہم نے سابقہ عمرانی دور میں دیکھا تھا۔ 1977  میں وہ جب اقتدار سے معزول کردیے گئے تو اس وقت بھی وہ پارلیمنٹ کی دو تہائی اکثریت کے حامل تھے، مگر کیا ان کی یہ عوامی مقبولیت انھیں پھانسی سے بچا سکی ۔

جس روز 4 اپریل کو انھیں پھانسی پر لٹکایا گیا سارے ملک میں اتنا بڑا بھی ہنگامہ نہیں ہوا، جیسے محترمہ بے نظیر بھٹوکی شہادت پر ہوا تھا۔ دونوں موقعوں پرگرچہ غیر سول حکمرانوں کا دور تھا، مگر ایسا کیوں ہوا۔ اس سوال پر ہمیں غورکرنے کی ضرورت ہے۔ حالانکہ بھٹو کو پھانسی سے بچانے کے لیے اس وقت کئی غیر ممالک سربراہوں نے بھی آوازیں اُٹھائی تھیں۔ خان صاحب بھی آج عوامی مقبولیت کے اس دور سے گزر رہے ہیں جن پرکبھی بھٹو صاحب گزر رہے تھے۔ دونوں کا ایک دوسرے سے مماثلث یا تقابلی جائزہ تو اس لیے بھی نہیں کیا جاسکتا ہے کہ دونوں میں سیاسی سوجھ بوجھ کا ایک بہت بڑا فرق ہے۔ بھٹو صاحب نے ہمیشہ قابل اور ذہین لوگوں کو قدرکی نگاہوں سے دیکھا اور انھیں اپنے ساتھ بھی ملایا جب کہ خان صاحب نے ہمیشہ ایسے ذہین لوگوں کواپنے سے دورکیا۔ جو اُن کا ساتھ نبھانے کے لیے کبھی اُن کی پارٹی میں شامل بھی ہوئے تو انھوں نے اُن کی ایسی عزت افزائی کی کہ وہ خود ہی پارٹی سے علیحدہ ہوگئے۔

جسٹس وجیہ الدین، جاوید ہاشمی اور جہانگیر ترین سمیت کئی لوگ اس کی مثال ہیں۔ عثمان بزدار جیسے لوگ انھیں وسیم اکرم پلس لگا کرتے ہیں، وہ آج بھی اپنی اس پسند اور ناپسند پر سختی سے قائم ہیں ۔ انھیں وہ شخص زیادہ پیار اور اچھا لگتا ہے جو جتنا زیادہ بدتمیز اور جارحانہ صفات کا حامل ہو۔ جو مخالفوں کو صبح و شام لعن و طعن بکتا رہتا ہو وہی اُن کا زیادہ وفادار سمجھا جاتا ہے۔ خان صاحب کو ایک بڑی غلط فہمی یہ ہے کہ آج جو ان کی عوامی مقبولیت ہے وہ سب اُن کی اپنی طلسماتی شخصیت کی وجہ سے ہے ۔

حالانکہ انھیں معلوم ہونا چاہیے کہ 2011 تک سیاست میں قدم جمانے کے لیے وہ ایڑھیاں رگڑتے رہے اور انھیں کسی بھی عام انتخابات میں ایک دو سے زیادہ نشستیں نہیں ملیں۔ یہ پس پردہ باکمال طاقتور حلقوں کا کرشمہ تھا ۔ جنھوں نے 2011 میں نواز دشمنی میں اُن کا ہاتھ پکڑا اور انھیں عوامی مقبولیت کے اس درجے پر پہنچایا۔ اس سے پہلے 1996سے لے کر اگلے پندرہ سالوں تک وہ ایک ناکام سیاست کے امین بنے رہے۔ انھیں معلوم ہوجانا چاہیے کہ یہ مقبولیت جن لوگوں کی مرہون منت ہے وہی اسے واپس بھی لے سکتے ہیں۔

یہ نہ جھکنے اور ڈٹے رہنے کا زعم اب زیادہ دنوں تک قائم نہیں رہ پائے گا۔ ملک اگر اُن کے بغیر بھی ترقی اور خوشحالی کی راہ پر چل پڑا ہے تو یہ زعم زیادہ چلنے والا نہیں ہے۔ ہاں معرکہ حق کے بعد اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے آج صورتحال بالکل ہی مختلف ہے۔ چند برس پہلے کی ایک ناکام ریاست دنیا کی ایک کامیاب ریاست بن چکی ہے۔

قوم کی عزت وقار میں بڑا اضافہ ہوچکا ہے۔ دنیا ہماری صلاحیتوں کی معترف ہوچکی ہے اور ہم ایک روشن مستقبل کی جانب بڑھ چکے ہیں۔ ہر آنے والا نیا دن ہمارے لیے خوشی کی نوید لیے ہوتا ہے۔ خان صاحب نے اپنے چاہنے والوں کو کئی بار احتجاج کی کال دے کر دیکھ لیا۔ کوئی مؤثر احتجاج ابھی تک سامنے نہیں آیا۔ رفتہ رفتہ ان کی عوامی مقبولیت زنگ پکڑتی جارہی ہے۔ اسی لیے کہتے ہیں کہ مقبولیت اور قبولیت میں بڑا فرق ہوتا ہے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: عوامی مقبولیت کے انھوں نے بڑا فرق میں بڑا کے ساتھ اس ملک

پڑھیں:

روایتی ووٹنگ نہیں، سوشل میڈیا پر ہوگا وزیر اعظم کا انتخاب، نیپال

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

دنیا میں پہلی بار سوشل میڈیا کے ذریعے کسی وزیراعظم کا انتخاب ہوا ہے، اور یہ منفرد تجربہ جنوبی ایشیائی ملک نیپال میں سامنے آیا ہے۔

دنیا بھر میں حکمرانوں کا انتخاب عموماً پولنگ اسٹیشنوں پر ووٹ ڈال کر یا پوسٹل بیلٹ کے ذریعے ہوتا ہے، مگر نیپال میں سیاسی بحران اور عوامی مظاہروں کے بعد سابق چیف جسٹس سشیلا کارکی کو چیٹنگ ایپ ’’ڈسکارڈ‘‘ کے ذریعے عوامی ووٹنگ سے عبوری وزیراعظم منتخب کیا گیا۔ عوامی احتجاج اور حکومت کے مستعفی ہونے کے بعد جب اقتدار کا بحران پیدا ہوا تو نوجوان مظاہرین نے فیصلہ کیا کہ قیادت خود چنی جائے اور اس مقصد کے لیے ڈسکارڈ کو انتخابی پلیٹ فارم بنایا گیا۔

غیر ملکی میڈیا کے مطابق، نیپال میں نوجوانوں نے ’’یوتھ اگینسٹ کرپشن‘‘ کے نام سے ایک ڈسکارڈ سرور بنایا جس کے ارکان کی تعداد ایک لاکھ 30 ہزار سے زیادہ ہو گئی۔ یہ سرور احتجاجی تحریک کا کمانڈ سینٹر بن گیا، جہاں اعلانات، زمینی حقائق، ہیلپ لائنز، فیکٹ چیکنگ اور خبریں شیئر کی جاتی رہیں۔ جب وزیراعظم کے پی شرما اولی نے استعفیٰ دیا تو نوجوانوں نے 10 ستمبر کو آن لائن ووٹنگ کرائی۔ اس میں 7713 افراد نے ووٹ ڈالے جن میں سے 3833 ووٹ سشیلا کارکی کے حق میں پڑے، یوں وہ تقریباً 50 فیصد ووٹ کے ساتھ سب سے آگے نکلیں۔

ووٹنگ کے نتائج کے بعد سشیلا کارکی نے صدر رام چندر پاوڈیل اور آرمی چیف جنرل اشوک راج سگدی سے ملاقات کی اور بعد ازاں عبوری وزیراعظم کے طور پر اپنے عہدے کا حلف اٹھا لیا۔ انہوں نے اعلان کیا ہے کہ مارچ 2026 میں عام انتخابات کرائے جائیں گے اور 6 ماہ میں اقتدار عوامی نمائندوں کو منتقل کر دیا جائے گا۔ اس موقع پر انہوں نے یہ بھی کہا کہ ان کی اولین ترجیح شفاف الیکشن اور عوامی اعتماد کی بحالی ہوگی۔

خیال رہے کہ ڈسکارڈ 2015 میں گیمرز کے لیے بنایا گیا پلیٹ فارم تھا، مگر آج یہ ایک بڑے سوشل میڈیا نیٹ ورک میں تبدیل ہو چکا ہے۔ اس کا استعمال خاص طور پر جنریشن زیڈ میں مقبول ہے کیونکہ یہ اشتہارات سے پاک فیڈ، ٹیکسٹ، آڈیو اور ویڈیو چیٹ کے فیچرز فراہم کرتا ہے۔ نیپال میں اس پلیٹ فارم کے ذریعے وزیراعظم کا انتخاب جمہوری تاریخ میں ایک نیا اور حیران کن باب ہے جو مستقبل میں عالمی سیاست کے لیے بھی مثال بن سکتا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • انسان بیج ہوتے ہیں
  • الیکشن کمیشن نے عوامی راج پارٹی کے انٹرا پارٹی انتخاب کیس کا فیصلہ محفوظ کرلیا
  • پاکستان کی بنیاد جمہوریت‘ ترقی اور استحکام کا یہی راستہ: حافظ عبدالکریم
  • کمیٹیاں بلدیاتی اداروں پر عوام کا دباؤ بڑھائیں گی‘ وجیہہ حسن
  • کراچی میں خاتون کو بھائی اور شوہر نے غیرت کے نام پر  قتل کردیا
  • نیپال: روایتی ووٹنگ نہیں، سوشل میڈیا پر ہوگا وزیر اعظم کا انتخاب
  • روایتی ووٹنگ نہیں، سوشل میڈیا پر ہوگا وزیر اعظم کا انتخاب، نیپال
  • راجہ فاروق خان ریاست کے بڑے لیڈر ہیں، فرید خان
  • چیٹ جی پی ٹی مقبولیت کھو بیٹھا، امریکا اور برطانیہ میں گوگل جیمینائی ٹاپ پر
  • مالدیپ کا پارلیمانی وفد اسپیکر عوامی مجلس کی قیادت میں پاکستان پہنچے گا