اسرائیلی حملوں میں 75 فلسطینی شہید، بھوک سے مزید 10 جانیں چلی گئیں
اشاعت کی تاریخ: 27th, August 2025 GMT
اسرائیلی بمباری اور قحط نے محصور فلسطینیوں کی زندگی کو جہنم بنا دیا۔ صرف 24 گھنٹوں کے دوران 75 فلسطینی شہید کر دیے گئے، جبکہ بھوک نے مزید 10 افراد کی جان لے لی — ان میں دو معصوم بچے بھی شامل ہیں۔
قطری نشریاتی ادارے کے مطابق، غزہ کی وزارت صحت نے تصدیق کی ہے کہ گزشتہ ایک روز میں بھوک اور غذائی قلت سے 10 مزید فلسطینی جان کی بازی ہار چکے ہیں ۔ اس طرح صرف بھوک سے شہید ہونے والوں کی مجموعی تعداد 313 ہو چکی ہے، جن میں سے 119 بچے تھے — وہ بچے جو اسکول جانے کے بجائے خوراک کی تلاش میں جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔
اسرائیلی حملے مسلسل، امداد کے متلاشی بھی نشانے پر
غزہ کی وزارت صحت نے بتایا کہ حالیہ بمباری میں مارے جانے والے 75 فلسطینیوں میں 18 وہ افراد شامل ہیں جو امداد کے حصول کے لیے کھانے کی قطار میں کھڑے تھے ۔
آج صبح سے ہونے والی تازہ بمباری میں مزید 32 افراد شہید ہوئے، جن میں 8 امداد کے متلاشی شامل ہیں — وہ جو روٹی کے ایک نوالے کی امید لیے نکلے تھے، مگر زندگی کی ڈور ہی ٹوٹ گئی۔
شہادتوں کی مجموعی تعداد 62 ہزار 895 ہو چکی
وزارت صحت کے مطابق اکتوبر 2023 سے جاری اسرائیلی حملوں میں اب تک 62,895 فلسطینی شہید ہو چکے ہیں، جبکہ زخمیوں کی تعداد 1 لاکھ 58 ہزار 895 سے تجاوز کر چکی ہے۔ یہ اعداد و شمار نہ صرف ایک انسانی بحران کی عکاسی کرتے ہیں، بلکہ ایک اجتماعی المیے کی داستان بھی سناتے ہیں۔
غزہ سٹی کے مکینوں کو زبردستی بے دخل کرنے کی دھمکی
اسرائیلی فوج کے عربی ترجمان اویخائے ادرعی نے سوشل میڈیا پر دعویٰ کیا ہے کہ غزہ سٹی کے رہائشیوں کو لازمی طور پر شہر چھوڑنا ہوگا کیونکہ اسرائیلی فوج وہاں قبضے کی تیاری کر رہی ہے۔ انہوں نے جنوبی علاقے المواسی کی جانب جانے کا مشورہ دیا، حالانکہ یہ وہی علاقہ ہے جہاں روزانہ حملے کیے جا رہے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ جنوب جانے والوں کو زیادہ سے زیادہ انسانی امداد فراہم کی جائے گی لیکن حقیقت یہ ہے کہ اسرائیلی فورسز نے پورے غزہ میں امداد کی ترسیل تقریباً ناممکن بنا دی ہے ۔ نہ خوراک، نہ پانی، نہ دوا — اور جو “محفوظ علاقے” بتائے جاتے ہیں، وہاں بھی موت منڈلاتی رہتی ہے۔
95 فیصد آبادی خوراک خریدنے کے قابل نہیں
غزہ کے سرکاری میڈیا آفس کے مطابق محصور علاقے کی 95 فیصد سے زائد آبادی کے پاس نہ روزگار ہے، نہ آمدنی، نہ ہی وسائل کہ وہ بازاروں سے بنیادی ضروریات خرید سکیں۔
اسرائیلی ناکہ بندی کی وجہ سے ان اشیاء کا غزہ میں داخلہ بند ہے
انڈے، گوشت، مچھلی پنیر، دودھ، غذائی سپلیمنٹس پھل، سبزیاں اور دیگر درجنوں بنیادی اشیاء “بھوک کو ہتھیار بنایا جا رہا ہے
غزہ کے میڈیا آفس کا کہنا ہے کہ یہ صورتحال محض انسانی غفلت نہیں، بلکہ سوچی سمجھی “بھوک مارنے کی پالیسی کا نتیجہ ہے، جو اسرائیل کی جانب سے اپنائی گئی ہے۔
بیان میں مزید کہا گیا کہ یہ جرم صرف اسرائیل تک محدود نہیں بلکہ امریکا سمیت اُن تمام ممالک پر بھی ذمہ داری عائد ہوتی ہے** جو اس نسل کشی میں خاموش تماشائی یا عملی طور پر شریک ہیں۔
ذریعہ: Daily Mumtaz
پڑھیں:
وزیراعلیٰ بلوچستان کا شہید ایس ایچ او کے اہلِ خانہ سے تعزیت، اعزازات اور مالی امداد کا اعلان
بلوچستان کے ضلع کچھی کے علاقے بھاگ میں دہشت گرد حملے میں شہید ہونے والے ایس ایچ او لطف علی کھوسہ کے اہلِ خانہ سے تعزیت کے لیے وزیراعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی صحبت پور پہنچے، جہاں انہوں نے شہید کے بیٹوں کو گلے لگا کر ان کے والد کی بہادری کو خراجِ تحسین پیش کیا۔
وزیراعلیٰ نے کہا کہ شہید لطف علی کھوسہ اور کانسٹیبل عظیم کھوسہ نے دہشت گردوں کے مقابلے میں جانیں قربان کر کے بلوچستان پولیس کی جرأت اور قربانی کی نئی مثال قائم کی۔ انہوں نے اعلان کیا کہ شہداء کے بچوں کے تعلیمی اخراجات صوبائی حکومت برداشت کرے گی، جبکہ بیواؤں اور اہلِ خانہ کو ماہانہ وظیفہ اور مالی امداد فراہم کی جائے گی۔
مزید برآں، تھانہ صحبت پور کو شہید ایس ایچ او لطف علی کھوسہ کے نام سے منسوب کرنے اور شہید کے گاؤں کے اسکول کو اپ گریڈ کرنے کا بھی اعلان کیا گیا۔
اس موقع پر آئی جی پولیس محمد طاہر رائے اور صوبائی وزراء بھی وزیراعلیٰ کے ہمراہ تھے۔ انہوں نے شہداء کے لیے فاتحہ خوانی کی اور لواحقین کو صبر کی تلقین کی۔
میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وزیراعلیٰ بگٹی نے کہا کہ پولیس کے شہداء کی قربانیاں بلوچستان میں امن و امان کی بنیاد ہیں۔ انہوں نے وفاقی حکومت سے اپیل کی کہ صوبے کو جدید ہتھیار اور وسائل فراہم کیے جائیں تاکہ دہشت گردی کے خلاف جنگ مزید مؤثر بنائی جا سکے۔
مقامی شہریوں نے وزیراعلیٰ کے دورے کو شہداء کے خاندانوں کے لیے حوصلہ افزا قدم قرار دیا۔