Express News:
2025-09-17@23:13:03 GMT

بزمِ کونین سجانے کے لیے آپ ﷺ آئے

اشاعت کی تاریخ: 29th, August 2025 GMT

جیسے ہی ربیع الاوّل شریف کے ماہِ مقدس کا آغاز ہوتا ہے تو عاشقانِ رسولِ عربی ﷺ خوشی سے جھوم اُٹھتے ہیں اور اِس پورے ماہِ مقدس کو انتہائی عقیدت و احترام اور شایانِ شان طریقے سے مناتے ہیں۔

محافلِ جشنِ عید میلادالنبی ﷺ کا انعقاد ہوتا ہے، گلیوں اور بازاروں کو دلھن کی طرح سجا دیا جاتا ہے، مساجد اور بلند و بالا عمارات پہ چراغاں کے خوب صورت مناظر آنکھوں کو فرحت آنگیں نظارے پیش کرتے ہیں، درود و سلام کی بے مثل اور خوب صورت صدائیں سماعتوں سے ٹکرا کر کانوں میں رس گھولتی ہیں، گھر، گھر صدقات و خیرات اور لنگر کا وسیع اہتمام و انتظام کیا جاتا ہے۔

سکول، کالجز اور جامعات میں تقاریر اور نعت خوانی کے مقابلے ہوتے ہیں۔ پوری دنیا میں سرکاری و غیر سرکاری سطح پر ’’سیرت النبی ﷺ‘‘ کے موضوع پر سیمینارز اور تقریبات منعقد کی جاتی ہیں، اخبارات خصوصی ایڈیشن شایع کرنے اور الیکٹرانک میڈیا خصوصی نشریات اپنے ناظرین کے لیے پیش کرنے کا اہتمام کرتا ہے۔ شکرانے کے نوافل ادا کیے جاتے ہیں اور ایک دوسرے کو خوشی کے اس موقع پر جشنِ آمدِ رسولؐ ﷺ کی مبارک باد دینے کا عظیم سلسلہ چل نکلتا ہے۔

یہ سارے اہتمام و انتظامات کس لیے ہوتے ہیںِ؟ اس لیے کہ آج کے دن ہی پروردگارِ عالم نے حضور سید ِعالمؐ، سرورِ کائناتؐ، فخر ِموجوداتؐ، ہادیٔ عالمؐ، رحمتِ عالمؐ، آقائے نام دارؐ، حبیبِ خدا حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کو اس دنیا میں مبعوث فرما کر امتِ مسلمہ پر ایک بہت بڑا احسان فرمایا۔ خداوند ِقدوس نے واضح ارشاد فرمایا جس کا مفہوم یہ ہے کہ اے حبیب ﷺ! آپ فرما دیں کہ جب تم پر اﷲ کا فضل اور اُس کی رحمت ہو تو، خوش ہُوا کرو، تمہارا خوشیاں منانا اس سے بہتر ہے، جو تم اپنے لیے جمع کیے رکھتے ہو۔

ربِ کائنات نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ’’یاد کرو! تم اﷲ کی نعمتیں، تاکہ تم فلاح پاؤ۔‘‘

ربِ قدوس نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ’’اور اپنے پروردگار کی نعمت کو خوب کھول کر بیان کرو۔،،

کیا آپ ﷺ سے بڑھ کر بھی کوئی نعمت کوئی فضل اور کوئی احسان ہوسکتا ہے۔۔۔۔؟ یقیناً نہیں!

حضور پُرنور ﷺ کی حیاتِ پاک کا ہر ایک لمحہ، نہ صرف امتِ مسلمہ کے لیے بل کہ پوری انسانیت کے لیے مینارۂ نور کی حیثیت رکھتا ہے۔ گویا رحمتِ عالم ﷺ کی اس دنیا میں آمد ایک بہت بڑا انقلاب تھا اور ایسا انقلاب کہ جس کے انتظار میں یہ سسکتی بِلکتی انسانیت صدیاں تڑپتی اور ترستی رہی کہ کوئی عظیم راہ نما، کوئی عظیم ہستی، کوئی عظیم مسیحا اس دنیا میں تشریف لائے اور ہماری تاریک اور اندھیروں میں ڈوبی ہوئی زندگی کو روشنی بخش دے، بے راہ روی سے ہٹا کر صراطِ مستقیم پہ چلادے، اﷲ رب العزت کا پتا دے، دلوں پہ لگے زنگ کو اتار دے اور گرد آلود روح کو نکھار دے۔

آخر کار ربِ کائنات کو انسانیت پر ترس آیا اور ذاتِ باری تعالیٰ نے12ربیع الاول کی صبح سعادت کو وہ نور ہدایت عطا فرمایا کہ جس کی تابندہ کرنوں سے پوری کائنات جگ مگا اُٹھی اور جس کی خوش بُو سے سارا عالم معطر ہوگیا، محبتوں کے بے مثل پھول کِھل اُٹھے، خلوص و پیار کے چراغ روشن ہوگئے، چاند، سورج اور ستاروں کو ضوفشائی نصیب ہوئی، دریاؤں اور سمندروں کو روانی ملی، خوش بوؤں کو پاکیزہ احساس ملا، گم کردہ منزل انسانیت کو جینے اور سنورنے کا سلیقہ آیا، تہذیب و تمدن پہ روپ آیا۔

محمد علی ظہوریؒ اپنے نعتیہ کلام میں بارگاہِ رسالت مآب ﷺ میں ہدیۂ عقیدت کے پھول نچھاور کرتے ہوئے، آپ ﷺ کی آمد کا یوں تذکرہ کرتے ہیں:

بزمِ کونین سجانے کے لیے آپ ؐ آئے

شمع توحید جلانے کے لیے آپؐ  آئے

ایک پیغام جو ہر دل میں اُجالا کردے

ساری دنیا کو سنانے کے لیے آپؐ آئے

یہ ایک مسلمہ تاریخی حقیقت ہے کہ اﷲ تبارک و تعالیٰ کے خاص فضل و کرم سے آقائے نام دار، حبیبِ خدا حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ نے جو عظیم انقلاب برپا کیا وہ ہمہ پہلو اور ہمہ گیر انقلاب تھا، یہ عقائد و افکار اور سیرت و کردار میں انقلاب تھا۔ معاشرت اور معیشت میں انقلاب تھا۔ قانون اور سیاست میں انقلاب تھا۔ تعلیم و تربیت میں انقلاب تھا۔ اخلاق و عبادات میں انقلاب تھا۔ اخلاص و ایثار اور محبت و پیار میں انقلاب تھا۔ مساوات و احساسات میں انقلاب تھا۔ انسانی زندگی کا کوئی ایسا گوشہ اور کوئی شعبہ ایسا نہ تھا کہ جس کے لیے حضور سیدِ عالم ﷺ نے راہ نما اور زریں اصول عطا نہ فرمائے ہوں۔

دعائے خلیلؑ کی قبولیت رسولِ رحمت ﷺ کی ذاتِ مقدس کے کیا کہنے کہ اﷲ تبارک و تعالیٰ نے اپنی اطاعت کو اپنے پیارے حبیب ﷺ کی اطاعت سے مشروط کردیا۔ اور اپنی محبت کو آپ ﷺ کی محبت سے لازم و ملزوم ٹھہرایا، تاکہ لوگ کوچۂ سرکارِ دو عالم ﷺ سے فیض یاب ہو کر مجھ تک پہنچیں، مجھ تک رسائی حاصل کریں، یعنی بارگاہِ خداوندِ قدوس میں حاضر ہونے سے پہلے اتباع سنت کا خوب صورت لباس زیب تن کرنا بے حد ضروری ہے۔

آپ ﷺ کا اس دنیا میں تشریف لانا ایک مقصد کے تحت ہی تو تھا، خدائے واحد کی ذاتِ کریمی کا ارشادِ پاک کا مفہوم ہے کہ وہ رسولؐ ﷺ، اﷲ کی آیاتِ مقدس کی تلاوت فرما کے انہیں سناتے، اُن کا تزکیہ فرماتے اور اُنھیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتے ہیں حالاں کہ اِس سے پہلے یہی لوگ صریح گم راہیوں میں پڑے ہوئے تھے۔

آپ ﷺ کی بعثت سے قبل کا نقشہ حضرت جعفر طیار رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے نجاشی کے دربار میں خطاب کرتے ہوئے یوں پیش کیا، آپؓ فرماتے ہیں:

’’اے بادشاہِ سلامت! ہم بے ین اور کم علم تھے، بتوں کی پرستش کرتے، مردار کھاتے اور بے حیائی کے دل دادہ تھے، اپنے بھائیوں پر ظلم ڈھاتے اور ہم سایوں کو تکلیف پہنچاتے تھے، ہم میں سے طاقت ور، کم زور پر ظلم و ستم کیا کرتا تھا، ہم میں انسانیت نام کی کوئی چیز نہ تھی اور مہمان داری کا نام و نشان نہ تھا، کوئی قائدہ اور قانون نہ تھا کہ ہم میں سے ایک پاکیزہ انسان کو اﷲ رب العزت نے آخری پیغمبر ﷺ بنا کر مبعوث فرمایا، جس کے حسب و نسب، سچائی، امانت، پاک دامنی، دیانت داری، تقویٰ و طہارت، ہم دردی و پاکیزگی کو ہم خوب جانتے ہیں۔

اُس درِیتیمؐ نے ہم کو بتایا کہ ہم سب کا پروردگار بس ایک اﷲ ہے، اُس کا کوئی شریک نہیں اور وہ ماں، باپ اور اولاد سے مُبّرا ہے، وہ اﷲ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ ہی رہے گا، وہی سب کا خالق و مالک اور رازق ہے، نفع و نقصان اُس کے ہاتھ میں ہے، یہ بت کسی بھی چیز کے مالک نہیں ہیں، ایک اﷲ تعالیٰ کی ذاتِ کریمی ہی حجت روا اور مشکل کشا ہے، اِس کے ساتھ حضورِ اقدس ﷺ نے ہمیں یہ بھی ہدایات فرمائیں کہ ہمیشہ سچ بولا کرو، اپنا وعدہ پورا کیا کرو، تمام گناہوں سے الگ رہو، آپس میں صلۂ رحمی کرو، ہم سایوں کے ساتھ اچھا سلوک کرو، حرام باتوں سے بچو، خون ریزی اور یتیم کے مال کھانے سے دور رہو، کسی کا ناحق مال نہ کھاؤ، اِسی طرح پاک دامن عورتوں پر تہمت لگانے سے منع کیا اور ساتھ ہی نماز پڑھنے کا حکم بھی دیا، روزے رکھنے اور زکوٰۃ ادا کرنے کی تاکید فرمائی، مہمان نوازی کا درس دیا، ہم سب اُن پر ایمان لائے اور آپ ﷺ کی اتباع کرتے ہوئے آپ ﷺ پر دل و جان سے فدا ہوئے۔،،

قارئین محترم! یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ رسولِ مقبول ﷺ کے مقدس ارشاداتِ عالیہ حکمت و بصیرت کے ان بیش قیمت اور انمول موتیوں اور ہیروں پر مشتمل ہیں، جن سے زندگی کے نئے اُفق اور نئی راہوں کا سراغ ملتا ہے۔ اور انسان میں بھر طریقے سے جذبۂ عمل بیدار ہوتا ہے، پھر ان پر مستزاد یہ کہ ھادیٔ عالم ﷺ نے ان ارشاداتِ مقدسہ پر ہی اکتفا نہ فرمایا، بل کہ اپنے حسن عمل سے، سیرت و کردار سے اور اپنے اسوۂ حسنہ سے پوری عالمِ انسانیت کے لیے ایک دائمی اور عملی نمونہ پیش فرمایا، جیسا کہ ربِ کریم عزوجل نے ارشاد فرمایا: ’’درحقیقت! تم لوگوں کے لیے اﷲ کے رسول ﷺ کی زندگی میں ایک بہترین نمونہ ہے۔،،

آپ ﷺ سے سچی اور حقیقی محبت اِس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ ہم سب آپ ﷺ کے ارشاداتِ گرامی کی روشنی میں ربِ غفور کی طرف سے عطا کردہ اپنی زندگی کے شب و روز گزاریں، اﷲ تبارک و تعالیٰ ہم سب کو اسلام میں پورا داخل ہونے کی توفیق عطا فرمائے، اور ہمارے ایمان کی سلامتی اور صغیرہ کبیرہ گناہوں کو اپنے پیارے حبیب ﷺ کے صدقے معاف فرمائے۔ آمین

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: میں انقلاب تھا ارشاد فرمایا اس دنیا میں کے لیے ا پ ا پ ﷺ کی عالم ﷺ اور ہم ﷺ کی ا

پڑھیں:

آج تک جو آپریشن ہوئے انکا کیا نتیجہ نکلا؟

راولپنڈی ( اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 15 ستمبر2025ء ) علی امین گنڈاپور کا کہنا ہے کہ آج تک جو آپریشن ہوئے انکا کیا نتیجہ نکلا؟ خیبرپختونخواہ میں یہ جنازے کس کی وجہ سے ہورہے ہیں ؟ یہ شہادتیں جس مسئلے کی وجہ ہورہی ہیں اس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے، جب تک عوام کا اعتماد نہ ہو کوئی جنگ نہیں جیتی جاسکتی۔ تفصیلات کے مطابق وزیر اعلٰی خیبرپختونخواہ نے پیر کے روز اڈیالہ جیل کے قریب میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یہ ملاقات کی اجازت نہیں دیتے چار پانچ گھنٹے بٹھا دیتے ہیں، یہاں بیٹھنے کے بجائے سیلاب زدہ علاقوں میں کام کررہا تھا، سوشل میڈیا کو چھوڑیں ہر بندے کو مطمئن نہیں کیا جاسکتا۔

علی امین گنڈا پور نے کہا کہ ملاقات نہ کرانے کی وجہ پارٹی میں تقسیم ہو اور اسٹیبلشمنٹ چاہتی ہے پارٹی تقسیم ہو، ہمیں مائننگ بل اور بجٹ بل پاس کرانے پر بھی ملاقات نہیں دی گئی، اگر عمران خان سے ملاقات ہوجاتی تو شفافیت ہوتی اور لوگوں کا ابہام بھی ختم ہوجاتا۔

(جاری ہے)

وزیراعلیٰ نے کہا کہ سینیٹ الیکشن پر بھی ملاقاتیں روکی گئی، اب باجوڑ والے معاملے پر ملاقاتوں میں رکاوٹ ڈال رہے ہیں۔

یہ چاہتے ہیں ملاقاتیں نہ ہو اور کنفیوژن بڑھتی رہے، اسٹیبلشمنٹ کے ایجنڈے پر ہمارے کچھ لوگ بھی بیوقوف بن جاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ملاقات نہیں دئیے جانے پر کیا میں جیل توڑ دوں، میں یہ کرسکتا ہوں مگر اس سے کیا ہوگا؟ یہ ہر ملاقات پر یہاں بندے کھڑے کردیتے ہیں۔ وزیراعلیٰ نے کہا کہ ن لیگ کو شرم آنی چاہیے شہداء کے جنازوں پر ایسی باتیں کرتے ہوئے، ن لیگ ہر چیز میں سیاست کرتی یے، ملک میں جمہوریت تو ہے نہیں اسمبلیاں جعلی بنائی ہوئی ہیں، جنازوں پر جانے کی بات نہیں انسان کو احساس ہونا چاہیے۔

اپنے لوگوں کی شہادتوں کے بجائے پالیسیز ٹھیک کرنی چاہیے۔ علی امین گنڈا پور نے کہا کہ ہم نے تمام قبائل کے جرگے کرکے اس مسلے کا حل نکالنے کی کوشش کی، ہم نے ان سے کہا مذاکرات کا راستہ نکالیں پہلے انہوں نے کہا تم کون ہو، پھر دوبارہ بات ہوئی تو ٹی آر اوز مانگے گئے ہم نے وہ بھی بھیجے، معاملات اس ٹریک پر نہیں جسے مسائل حل ہوں، ہمارے پاس کوئی ایجنڈا ہی نہیں مسائل حل کرنے کا۔

انہوں نے کہا کہ ہمارے علاقوں میں سیلاب کی نوعیت مختلف تھی، پورے پورے پہاڑی تودے مٹی بستیوں کی بستیاں اور درخت بہہ گئے، سیلاب بڑا چیلنج تھا ہم نے کسی حد تک مینیج کرلیا ہے اور آج بھی متاثرہ علاقوں میں ابھی امدادی کام جاری ہے جبکہ سیلاب سے ہمارے صوبے میں 400 اموات ہوچکی ہیں۔ وزیراعلیٰ نے کہا کہ وفاقی حکومت نے ہمارے ساتھ کوئی وعدہ پورا نہیں کیا، فارم 47 کے ایم این ایز گھوم رہے ہیں صوبے میں لیکن کوئی خاطر خواہ امداد نہیں کی گئی، وفاقی حکومت کو جو ذمہ داری نبھانی چاہیے تھی نہیں نبھائی مگر میں اس پر سیاست نہیں کرتا ہمیں انکی امداد کی ضرورت بھی نہیں ہے، ہم نے ہر چیز پر سیاست کی ایک جنازے رہ گئے تھے، اس سے قبل میں جن جنازوں میں گیا یہ نہیں گئے تو کیا میں اس پر سیاست کرونگا۔

انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کے مسئلے کو سنجیدگی سے عملی اقدامات کرکے حل نکالنا چاہیے، کسی کا بچہ کس کا باپ کسی کا شوہر کوئی بھی نقصان نہیں ہونا چاہیے اور اس پر ایک پالیسی بننی چاہیے، میں نے دہشت گردی کے خاتمے کیلیے وزیر اعلٰی بنتے ہی میں نے پورے قبائل کے جرگے بلائے، میں نے کہا تھا افغانستان سے بات کرنی چاہیے جس پر وفاق نے کہنا شروع کیا کہ میں کچھ نہیں کرسکتا۔

علی امین گنڈا پور نے کہا کہ افغانستان اور ہمارا ایک بارڈر ہے ایک زبان ہے ایک کلچر ہے روایات بھی مماثل ہیں، ہم نے وفاقی حکومت کو ٹی او آرز بھیجے سات آٹھ ماہ ہوگئے کوئی جواب نہیں دیا، یہ نہیں ہوسکتا میں پرائی جنگ میں اپنے ہوائی اڈے دوں، مذاکرات اور بات چیت کے ایجنڈے پر یہ نہیں آرہے۔ انہوں نے کہا کہ خیبرپختونخوا میں یہ جنازے کس کی وجہ سے ہورہے ہیں اسکا ذمہ دار کون ہےَ یہ شہادتیں جس مسئلے کی وجہ ہورہی ہیں اس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے، میں پوچھتا ہوں آج تک جو آپریشن ہوئے انکا کیا نتیجہ نکلا؟ جب تک عوام کا اعتماد نہ ہو کوئی جنگ نہیں جیتی جاسکتی۔

وزیراعلیٰ نے کہا کہ کوئی نہیں چاہتا کسی کے بچے شہید ہوں، ہمیں اپنی پالیسیز کو از سر نو جائزہ لینا ہوگا، مجھے اپنے لیڈر سے اسلیے ملنے نہیں دے رہے انکا مقصد ہے پارٹی تقسیم ہو اور اختلافات بڑھتے رہیں۔

متعلقہ مضامین

  • 3 برس میں 30 لاکھ پاکستانی ملک چھوڑ کر چلے گئے
  • 3 برس میں 30 لاکھ پاکستانی نے ملک چھوڑ کر چلے گئے
  • اگر کوئی سمجھتا ہے کہ میں ٹوٹ جا ئوں گا تو یہ غلط فہمی ہے ، عمران خان
  • ڈھاکا یونیورسٹی میں انقلاب کی نوید
  • انقلاب – مشن نور
  • بھارت نفرت کا عالمی چیمپئن 
  • پہلگام کی طرح کیا غزہ پر کسی کپتان کا بیان آئی سی سی پرداشت کرپائے گی؟
  • بھارت نفرت کا عالمی چیمپئن
  • آج تک جو آپریشن ہوئے انکا کیا نتیجہ نکلا؟
  • ٹک ٹاک سے انقلاب نہیں آتے، اگر آتے تو عمران خان آج جیل میں نہ ہوتے،علی امین گنڈاپور