’ووٹر ادھیکار یاترا‘ نے مودی سرکار کی ووٹ چوری کو بے نقاب کردیا
اشاعت کی تاریخ: 30th, August 2025 GMT
بھارت میں اپوزیشن کی جانب سے شروع کی گئی ’’ووٹر ادھیکار یاترا‘‘ نے مودی سرکار کی مبینہ ووٹ چوری کو بے نقاب کردیا ہے۔ ایک دہائی سے زائد اقتدار پر قابض مودی حکومت کے بھارتی جمہوریت کے دعووں کی قلعی کھل گئی ہے۔
بھارتی میڈیا اے این آئی نیوز کے مطابق اپوزیشن کی یہ مہم اپنے آخری مراحل میں داخل ہوچکی ہے۔ بہار میں ہونے والے جلسوں میں اپوزیشن رہنماؤں راہول گاندھی، تیجسوی یادیو اور مکیش سہنی نے بھرپور شرکت کی۔
قائد حزب اختلاف راہول گاندھی نے وزیراعظم مودی پر سخت تنقید کرتے ہوئے انہیں ’’ووٹ چور‘‘ قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر وہ وزیر اعظم کو ووٹ چور کہہ رہے ہیں تو مودی خاموش کیوں ہیں؟ یہ خاموشی اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ جانتے ہیں ہم نے انہیں بے نقاب کر دیا ہے۔
راہول گاندھی نے انتخابی فہرستوں میں سنگین بے ضابطگیوں کا انکشاف کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ بہار کے ایک گاؤں کے 947 ووٹرز کو انتخابی فہرست میں ایک ہی گھر کا رہائشی دکھایا گیا ہے۔
اپوزیشن رہنماؤں کے مطابق ’ووٹر ادھیکار یاترا‘ کا مقصد عوام میں ووٹر فہرستوں میں ہونے والی ان بے ضابطگیوں کے خلاف شعور اجاگر کرنا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ مودی حکومت اور الیکشن کمیشن کی خصوصی نظرثانی کے تحت لاکھوں ووٹرز کو فہرستوں سے خارج کیا جا رہا ہے۔
راہول گاندھی نے کہا کہ مودی کی خاموشی اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ تبدیلیاں ان کی نگرانی میں ہو رہی ہیں۔ انہوں نے الزام لگایا کہ بہار الیکشن سے قبل ہی مودی عوام کا جمہوری حق چھین کر خود کو ووٹ چور ثابت کر چکے ہیں۔
اپوزیشن کا مؤقف ہے کہ ووٹر لسٹ میں تبدیلیوں سے یہ حقیقت آشکار ہو گئی ہے کہ بھارت میں نام نہاد جمہوریت کی آڑ میں مودی نے دراصل آمریت مسلط کر رکھی ہے۔
.
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: راہول گاندھی
پڑھیں:
تنزانیہ میں اپوزیشن کا انتخابات کیخلاف ماننے سے انکار؛ مظاہروں میں 700 ہلاکتیں
تنزانیہ میں عام انتخابات میں اپوزیشن جماعتوں نے دھاندلی کے الزامات عائد کرتے ہوئے ملک گیر مظاہروں کا اعلان کیا تھا جو بدستور جاری ہے۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق چند روز قبل ہونے والے جنرل الیکشن میں صدر سمیعہ صولوہو حسن نے زبردست کامیابی حاصل کی تھی۔
تاہم ان انتخابات میں صدر سمیعہ کے مرکزی حریف یا تو قید میں تھے یا انہیں الیکشن میں حصہ نہیں لینے دیا گیا تھا۔ جس سے نتائج میں دھاندلی کے الزامات کو تقویت ملی تھی۔
اپوزیشن جماعت چادیما نے انتخابی نتائج کو مسترد کرتے ہوئے شفاف الیکشن کا مطالبہ کیا اور مظاہروں کا اعلان کیا تھا۔
جس پر صرف تنزانیہ کے دارالحکومت دارالسلام میں پُرتشدد مظاہروں کا سلسلہ تیسرے دن بھی جاری ہے۔ شہروں میں جھڑپوں کے دوران سیکڑوں افراد ہلاک اور سیکڑوں زخمی ہوگئے۔
اپوزیشن نے دعویٰ کیا ہے کہ پولیس تشدد میں اب تک 700 سے زائد افراد ہلاک ہوچکے ہیں جبکہ حکومت نے تاحال کسی سرکاری اعداد و شمار کی تصدیق نہیں کی گئی۔
مظاہرین نے سڑکوں پر رکاوٹیں کھڑی کیں گاڑیوں کو نذر آتش کیا اور سیکیورٹی فورسز پر پتھراؤ کیا پولیس اور فوج نے طاقت کا استعمال کرتے ہوئے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس اور گولیاں چلائیں۔
اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے دفتر نے مظاہرین کی ہلاکتوں پر تشویش ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ سیکیورٹی فورسز کو غیر ضروری طاقت کے استعمال سے گریز کرنا چاہیے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل نے کم از کم ایک سو ہلاکتوں کی تصدیق کی ہے جبکہ اپوزیشن کا کہنا ہے کہ حقیقی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔
دارالسلام اور دیگر حساس علاقوں میں کرفیو نافذ کر دیا ہے انٹرنیٹ سروسز معطل ہیں اور فوج کو سڑکوں پر تعینات کر دیا گیا ہے۔
حکام کا کہنا ہے کہ صورتحال کو قابو میں لانے کی کوشش کی جا رہی ہے اور امن و امان کی بحالی اولین ترجیح ہے۔