فلیمنگو پر 40 سالہ تحقیق سے بڑھاپے کو شکست دینے کا راز سامنے آگیا
اشاعت کی تاریخ: 30th, August 2025 GMT
ایک طویل المدتی تحقیق نے انکشاف کیا ہے کہ ہجرت کرنے والے فلیمنگو ان پرندوں کے مقابلے میں کم رفتار سے بڑھاپے کی طرف بڑھتے ہیں جو اپنی پوری زندگی ایک ہی جگہ گزارتے ہیں۔ یہ مطالعہ فرانس کے جنوبی علاقے کامارگ میں ٹور دو ولاٹ ریسرچ انسٹی ٹیوٹ نے 40 برس سے زائد عرصے تک جاری مانیٹرنگ پروگرام کے تحت کیا۔
گلابی فلیمنگو (Phoenicopterus roseus) میں 2 رویے پائے جاتے ہیں: کچھ پرندے کامارگ میں ہی رہتے ہیں، جبکہ دوسرے سردیوں میں اٹلی، اسپین یا شمالی افریقہ ہجرت کرتے ہیں۔ تحقیق کے مطابق رہائشی پرندے جوانی میں زیادہ شرحِ بقا اور تولیدی کامیابی حاصل کرتے ہیں لیکن بعد کی زندگی میں تیزی سے بڑھاپے کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ان میں بڑھاپا اوسطاً 40 فیصد تیز ہوتا ہے اور اس کا آغاز تقریباً 20.
یہ بھی پڑھیے: صحتمند بڑھاپے کے لیے درمیانی عمر میں کیا کھائیں؟
اس کے برعکس ہجرت کرنے والے پرندے جوانی میں زیادہ خطرات اور شرحِ اموات کا سامنا کرتے ہیں مگر جو زندہ رہ جاتے ہیں وہ بڑھاپے کی طرف دھیمے انداز میں بڑھتے ہیں۔ ان میں بڑھاپے کا آغاز اوسطاً 21.9 سال میں ہوتا ہے۔
محقق سبیسٹیان روکس کے مطابق رہائشی پرندے جوانی میں بھرپور کارکردگی دکھاتے ہیں مگر اس کا خمیازہ بڑھاپے میں بھگتنا پڑتا ہے۔ مہاجر پرندے دیر سے اور آہستہ بوڑھے ہوتے ہیں۔
1977 سے جاری فلیمنگو رنگنگ پروگرام آج بھی پرندوں کی شناخت ممکن بناتا ہے اور عمر رسیدگی کے راز سمجھنے میں قیمتی ڈیٹا فراہم کر رہا ہے۔ ماہرین کے مطابق یہ تحقیق اس بڑے حیاتیاتی سوال کے جواب میں مدد دے سکتی ہے: ہم کیوں اور کیسے مرتے ہیں؟
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
بڑھاپا پرندہ فلیمنگو ہجرتذریعہ: WE News
پڑھیں:
عام زکام یا فلو بھی ہارٹ اٹیک کے خطرے میں اضافہ کر سکتے ہیں، طبی تحقیق
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
حالیہ طبی تحقیق نے ایک چونکا دینے والا انکشاف کیا ہے کہ صرف بڑی یا خطرناک بیماریاں ہی نہیں بلکہ عام وائرل انفیکشنز جیسے فلو، زکام یا کورونا وائرس بھی ہارٹ اٹیک کے خطرے کو بڑھا سکتے ہیں۔
ماہرین کے مطابق جب جسم کسی وائرس سے لڑنے کی کوشش کرتا ہے تو اس دوران پیدا ہونے والی سوزش، خون کے بہاؤ میں تبدیلی اور آکسیجن کی کمی دل پر دباؤ ڈالتی ہے، جو بعض اوقات مہلک نتائج کا باعث بن سکتی ہے۔
تحقیق کے مطابق جب کوئی شخص فلو یا نزلہ زکام میں مبتلا ہوتا ہے تو مدافعتی نظام متحرک ہو جاتا ہے۔ اس عمل میں جسم کے مختلف حصوں میں سوزش بڑھ جاتی ہے، جو خون کی نالیوں کی دیواروں کو نقصان پہنچاتی ہے۔ یہی عمل ایتھروسکلروسس یعنی شریانوں میں چکنائی جمنے کے عمل کو تیز کرتا ہے۔ اگر یہ چکنائی کسی نالی کو مکمل طور پر بند کر دے تو دل کا دورہ پڑ سکتا ہے۔
مزید برآں کچھ وائرس ایسے بھی ہوتے ہیں جو خون کو گاڑھا کر دیتے ہیں۔ یہ کیفیت جسم میں خون کے لوتھڑے بننے کا باعث بنتی ہے، جو اگر دل یا دماغ کی نالی میں پھنس جائیں تو نتیجہ ہارٹ اٹیک یا فالج کی صورت میں نکل سکتا ہے۔
ماہرین نے اس تحقیق میں اس بات کی بھی نشاندہی کی کہ سانس کی نالی کے وائرس، جیسے فلو یا کورونا ، جسم میں آکسیجن کی سطح کم کر دیتے ہیں۔ ایسی صورت میں دل کو زیادہ تیزی سے کام کرنا پڑتا ہے تاکہ جسم کو مناسب آکسیجن فراہم کی جا سکے۔ اگر دل پہلے ہی کسی بیماری کا شکار ہو تو یہ دباؤ مزید خطرناک ہو سکتا ہے۔
تحقیق میں ایک اور اہم پہلو پر روشنی ڈالی گئی کہ بعض وائرس براہِ راست دل کے پٹھوں پر حملہ کرتے ہیں۔ یہ حالت مایوکارڈائٹس کہلاتی ہے، جس میں دل کے پٹھے کمزور ہو جاتے ہیں اور دل کی کارکردگی متاثر ہوتی ہے۔ بعض اوقات یہی عمل ہارٹ اٹیک جیسی علامات پیدا کر دیتا ہے۔
ماہرین امراضِ قلب کا کہنا ہے کہ عام فلو یا زکام کو معمولی سمجھ کر نظرانداز نہیں کرنا چاہیے، خاص طور پر اگر مریض کو پہلے سے ہائی بلڈ پریشر، ذیابیطس یا کولیسٹرول کا مسئلہ ہو۔ ایسے افراد کو وائرل بیماری کے دوران دل کی دھڑکن، سانس لینے میں دشواری یا سینے میں بھاری پن محسوس ہو تو فوراً ڈاکٹر سے رجوع کرنا چاہیے۔
دل کی بیماریوں سے بچاؤ کے لیے طبی ماہرین نے تجویز دی ہے کہ سردیوں کے موسم میں ویکسین لگوانا، پانی کا زیادہ استعمال، متوازن غذا، ہلکی ورزش اور نیند کا مناسب دورانیہ برقرار رکھنا ضروری ہے۔