مفاد پرستانہ سوچ اور سماجی ٹوٹ پھوٹ کے مرحلے پر پاکستانی سیاست میں متحرک رہنے اور با شعور نظریاتی سوچ کے تحت اپنے جمہوری و انسانی حقوق کی جدوجہد میں مارکس وادی لکھاری رانا اعظم کی ’’عہد حاضر میں مارکسزم کی معنویت‘‘ اور ’’پاکستان اور تیسری دنیا کے مباحث‘‘ نامی کتاب کو میں کم وبیش گزشتہ تین ماہ سے پڑھ رہا ہوں اور اس کتاب کے ایک ایک پہلو کے بغور مطالعے کے بعد مذکورہ کتاب یا رانا اعظم کا یہ کام امید کی ایک ایسی کرن نظر آتا ہے جو اپنے سہل اسلوب اور انداز بیان کی بدولت نئی نسل کے لیے مارکسزم کی معنویت کو سمجھنے کا نہایت آسان حوالہ ہے۔
رانا اعظم نے مذکورہ محنت طلب کام میں نہایت عرق ریزی دکھائی ہے اور مارکسزم سمجھانے کی ان مشکل اصطلاحات کا سہارا نہیں لیا جو عام زبان میں ’’جناتی اصطلاح‘‘ یا نہ سمجھ میں آنیوالے الفاظ ہیں جو کہ ہمارے سماج کی زبانیں بولنے والوں کے لیے مشکل بن جاتے ہیں، یہی وہ اہم نکتہ ہے جس کو رانا اعظم نے اپنی کتاب ’’عہد حاضر میں مارکسزم کی معنویت‘‘ کا دور رس ذریعہ بنایا ہے۔
رانا اعظم نے اپنی اس مذکورہ کتاب کو بارہ حصوں میں تقسیم کیا ہے جب کہ ان حصوں کے اہم نکتوں کو اختصار کے ساتھ 36 ابواب میں تقسیم کرکے مارکسزم کی افادیت و معنویت کو سماج کے چلن اور رہن سہن سے جوڑنے کی کوشش کی ہے جب کہ رانا اعظم خود رقم طراز ہیں کہ ’’ہم نے ان سوالات کو دیکھنے کے عمل میں کٹھ ملائیت Dogmaticism اور آزاد خیالی سے بچتے ہوئے جدلی رو اپنانے کی شعوری کوشش کی ہے، کس حد تک کامیاب ہوئے ہیں؟
اس کا فیصلہ کتاب کے قاری اور وقت پر چھوڑتے ہیں‘‘ رانا اعظم کا اعتراف ہے کہ ’’ہم نے جہاں مارکسسٹ روایت (محنت کشوں کے اقتدار، استقامت، جاننے، ماننے سے جڑی ہے) کی روشنی میں زیر نظر کتاب میں عہد حاضر کی نظریاتی، تنظیمی اور عملی سوالات کو اٹھایا ہے، وہیں ہم پاکستان میں قبائلیت، جاگیرداری، سامراجی استحصال کی سویلین زندگی پر سیاسی، سماجی اور معاشی بالا دستی، سیکیورٹی اسٹیٹ اور اسٹرٹیجک گہرائی کی پالیسی کو رد کرتے ہیں۔
نیم صنعتی سماج کی غیر ہموار ترقی کے نتیجے میں پیدا ہونیوالے قومی سوال کو Acknowledge اور ایڈریس کرتے ہوئے محنت کش طبقے کی سیاست کو اگلے بنچوں پر لانا چاہا ہے۔‘‘ موجودہ سرمایہ دارانہ ’’ترقی معکوس‘‘ کو ہم جدید ٹیکنالوجی اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے تناظر میں دیکھنے کے اتنے عادی بنا دیے گئے ہیں کہ ہماری نئی نسل ٹیکنالوجی کی ترقی اور دسترس کو ہی ترقی سمجھ رہی ہے جب کہ بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا انسان تہذیبی، سماجی اور فطری ترقی کے ان اہداف تک پہنچا ہے جن کے حصول کے بعد سماج یا دنیا سے کساد بازاری، انسانی قحط، نا انصافی ختم ہو کر عام فرد کو معاشی اور جمہوری آزادی دلوائی جا چکی ہے؟
یا کیا مفاد پرست سرمایہ دارانہ طبقہ ارتکاز دولت کے نتیجے میں عام انسان کی معاشی اور سماجی محرومی دور کرنے کا ذریعہ بنا یا بن پایا ہے؟ کیا عام انسانی وسائل اور محنت کو لوٹ کر سرمایہ اکٹھا کرنیوالے سامراجی ممالک کا عوام دشمن کردار اور انسان کو معاشی غلام بنانے کی خواہش اب دنیا میں دم توڑ گئی ہے؟ کیا دنیا کی نام نہاد سرمایہ دارانہ جمہوریت عام فرد کو ان کے جمہوری اور انسانی حقوق دلا پائی ہے؟
کیا عالمی ادارے بطور خاص اقوام متحدہ سرمایہ دارانہ ہدایات اور مفادات کے غلام نہیں؟ کیا دنیا اور پاکستان کا نام نہاد سرمایہ دار فطرت کے وسائل اور فطرت کے ذرائع عام فرد کی محنت سے حاصل کی گئی دولت کے بل بوتے پر نہیں لوٹ رہا ہے؟
کیا پاکستان کا آئین اور ادارے عام فرد کے جمہوری یا انسانی حقوق کا دفاع کرتے نظر آرہے ہیں؟ کیا پاکستان کا حکمران طبقہ سماج کے تمام وسائل پر طاقت اور ہٹ دھرمی سے قابض نہیں ہے؟ کیا آئین میں درج جمہوری و انسانی حقوق کا دفاع عدالتیں کر پا رہی ہیں؟
کیا آمرانہ اقتدار ایک پل کے لیے بھی اس ملک سے گیا ہے؟ ان سب استحصالی شکلوں کے سامنے مارکسزم اس وقت تک Relevance رہے گا جب تک عام فرد کو اس کے بنیادی جمہوری و معاشی حقوق نہیں مل جاتے۔ اسی طرح فطرت کو نقصان پہنچانے کے لیے موسمیاتی تبدیلی کے سرمایہ دارانہ ڈھونگ نے پاکستان سمیت پوری دنیا کو لوٹنے کا ایک ایسا نسخہ ایجاد کر رکھا ہے جو موسمیاتی تبدیلی کے نام پر سرمایادارانہ ’’رئیل اسٹیٹ‘‘ کے منافقانہ لالچ بھرے دھندے سے سماج کی اقدار اور فطرت کو چبا رہا ہے۔
اس حوالے سے دنیا میں کمیونسٹ نکتہ نظر کے تخلیق کار اور تمام انسانوں کے لیے مساویانہ معاشی و سماجی نظام وضع کرنے کے خالق جرمنی کے سماجی دانشور کارل مارکس نے دو صدی قبل ہی کہہ دیا تھا کہ ’’انسانی سماجی ترقی کے فوائد پانے کے لیے فطرت کے نظام کو چھیڑے بغیر بھی ترقی ممکن ہے‘‘
کارل مارکس کے الفاظ میں یوں سمجھئے کہ ’’ہم تسخیر کائنات کے لیے قدرت کے فراہم کردہ ذرائع کو انسانی سماج کی بہتری اور تعمیر کے لیے استعمال کرتے ہیں، ہم ان قدرتی ذرائع کو جدید اور بحفاظت طریقوں سے ’’بقائے انسانی‘‘ کے لیے کارآمد بناتے ہیں جب کہ سرمایہ دارانہ سماج میں فطرتی ذرائع کو انسانی ترقی اور ماحولیاتی استحکام کے بجائے ان ذرائع کو سرمایہ دارانہ مفاد،نفع اور اپنے مقاصددکے لیے استعمال کیا جاتا ہے جو کہ فطرت کے منفی طریقہ استعمال سے آخرکار تباہی کے انجام سے دوچار ہوتے ہیں، جس کے نتیجے میں تباہی کا سدباب ہونا ممکن نہیں ہوتا۔‘‘
دنیا میں ماحولیاتی نظام اور موسمیاتی تبدیلی ایک ایسی بھیانک شکل میں نمودار ہو رہا ہے، جس نے دنیا بھر کے انسانوں اور سائنسدانوں کو حیرت زدہ کر دیا ہے، دنیا میں اس موسمیاتی تبدیلی سے جہاں حیرت کے امکانات میں اضافہ ہو رہا ہے وہیں اس سے بچنے کے مختلف طریقے استعمال کیے جا رہے ہیں، مگر دنیا میں موسمیاتی ماحول کی اتھل پتھل پر قابو پانے کی کوشش میں جدید ٹیکنالوجی اور امریکا سمیت یورپ کے دیگر ترقی یافتہ ممالک بھی اب تک مشکلات کا شکار نظر آتے ہیں۔
آج کل موسمیاتی تبدیلی کے نہ قابو آنیوالے جن کا شکار پاکستان اور بطور خاص پنجاب نظر آتا ہے، گو اس تباہ کن صورتحال سے نمٹنے کی کوششیں حکومتی سطح پر جاری ہیں مگر اس کے باوجود سیکڑوں قیمتی جانوں کو نہ بچایا جا سکا ہے۔ علم و سیاسی شعور کی کساد بازاری میں ان تمام نکات کو آسانی سے سمجھنے کے لیے رانا اعظم کی کتاب ’’عہد جدید میں مارکسزم کی معنویت‘‘ کا مطالعہ دراصل مقاصد کے حصول اور انھیں سمجھنے کا وہ سہل نسخہ ہے جس کے لیے بہت ضروری ہے کہ آج کی نسل ایسی کتابوں کا مطالعہ کرے جو انصاف بر مبنی سماج کے قیام کی نظریاتی کوششوں کو عملی جامہ پہنائے کہ جس کی کوشش رانا اعظم ایسے مارکس وادی کر رہے ہیں۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: مارکسزم کی معنویت موسمیاتی تبدیلی سرمایہ دارانہ دنیا میں ذرائع کو سماج کی کی کوشش فطرت کے رہا ہے کے لیے
پڑھیں:
اسلام آباد: وفاقی وزیر برائے قومی غذائی تحفظ رانا تنویر حسین گنے کی فصل پر کیڑوںکے حملے کے حوالے سے اجلاس کی صدارت کررہے ہیں
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
250918-08-34