Express News:
2025-09-17@23:46:02 GMT

قہر الٰہی

اشاعت کی تاریخ: 31st, August 2025 GMT

سچ بولنا، اس پر قائم رہنا آسان نہیں، ماضی میں ایسے بہت سے کردار نظر آتے ہیں جنھوں نے حق کی راہ میں بہت اذیتوں کو برداشت کیا، انھوں نے کانٹوں کی راہ منتخب کر لی لیکن کلمہ حق پر قائم رہے، دست بردار نہیں ہوئے۔ حضور اکرم ﷺ کے دور سے لے کر خلفائے راشدین کے بعد بھی یہ ایک جہد مسلسل تھا اور تکلیفوں، اذیتوں آزمائشوں کے بعد وہ لوگ تو گزر گئے، پر ان کے نام تاریخ میں ثبت ہو گئے۔

وہ عظیم لوگ جو بعد میں آنے والی نسلوں کے لیے مشعل راہ بنے تھے، آج بھی نیکی اور بدی کے درمیان فرق کو واضح سمجھانے میں مددگار ہیں۔ حالیہ بارشوں نے جو ملک بھر میں تباہی پھیلائی ہے حیران کن ہے۔ ماضی میں کلاؤڈ برسٹ کے حوالے سے جو کچھ نظروں کے سامنے سے گزرا ناقابل یقین، پر بہت سے خسارے کے ساتھ چیخ چیخ کر کہہ رہا ہے کہ ہاں یہ ہوا ہے۔ یقین کرو اور اپنے اعمالوں کو درست کرو، پر اکثر لوگ اس طرح کے حادثات و واقعات کو بس نظر سے گزار کر شیئر کرنے پر اکتفا کرتے ہیں۔

بابو ٹاپ سر پر کلاؤڈ برسٹ کے متعلق کچھ ایسا ہی تھا۔ ’’سامنے اس پہاڑ پر ایک بجلی سی آسمان سے بڑی زوردار آواز سے گری اور پھر جیسے پہاڑ سے پانی پھٹ کر بہا، ایسے جیسے سیلاب کا ریلا ہو، اتنے سالوں سے ہم یہاں رہ رہے ہیں، ہم نے کبھی بھی ایسا منظر نہیں دیکھا۔‘‘

اب تک ہم نے کلاؤڈ برسٹ کی تعریف محض کتابوں میں ہی پڑھی تھی، کورس کی کتابوں سے پڑھ کر نوٹس بنانے کے عمل تک محدود اس معلومات میں اتنا کچھ متاثر کن نہ ہوتا تھا لیکن حالیہ چند برسوں میں اس کے رونما ہونے میں بہت سی نشانیاں پنہاں ہیں، اگر ہم ان کو قیامت کی جھلکیوں سے منسوب کریں تو بالکل درست رہے گا۔

صرف یہی نہیں بلکہ حالیہ کراچی میں ہونے والی دھواں دھار بارش نے بھی کچھ ایسا ہی قیامت خیز منظر پیش کیا تھا۔’’ ہماری ریڈ لائن بس نے ابھی ہمیں ایم اے جناح روڈ کی جانب کا رخ کیا ہی تھا کہ پانی کے بڑے بڑے ریلے چلے آ رہے تھے، رکشے والوں نے من مانی کے باوجود بھی انکارکر دیا تھا، ایسے میں سرکاری بس غنیمت لگی، لیکن نمائش کے بعد گرومندر کے قریب ٹریفک جام کی بدتر صورت حال دیکھتے ہوئے بہت سے مسافروں نے بس سے اتر کر پیدل چلنے کو ترجیح دی، خبر تھی کہ آگے بھی تین لال بسیں ٹریفک جام میں پھنسی ہیں۔

پیدل چلنے کا یہ عمل نہ صرف خطرناک تھا بلکہ جان لیوا بھی ثابت ہو سکتا تھا۔ لوگوں سے بچتے ٹریفک سے نبرد آزما ہوتے گہرے پانیوں میں چلتے، یقین جانیں کمر تک پانی پہنچ رہا تھا۔ اس چوراہے پر شہر کی چار مصروف سڑکوں کا ٹریفک گہرے پانی میں گھرا انتہائی ہولناک منظر تھا۔

ایک معروف ٹی وی چینل کے ساتھ ہی گرین لائن بس کا اسٹیشن ہماری منزل تھا، لیکن اس سے پہلے ایک برساتی نالہ جہاں پانی پوری رفتار سے بہتا گر رہا تھا، اس کے درمیان کوئی بھی آتا تو وہ اسے اپنی جانب تیزی سے بہاتا لے جاتا، یہ دیکھ کر ذہن میں آتا ہے کہ ملک کے دیگر علاقوں میں سیلاب میں نجانے کتنے لوگ اس طرح کے بظاہر نارمل لیکن شدید پانی کا شکار ہوئے ہوں گے، اس تیز دھار میں کوئی نہیں چل رہا تھا۔’’اس جانب مت جائیں، وہ خطرناک ہے، دیکھیے نالہ پوری قوت سے پانی کو اپنی جانب کھینچ رہا ہے۔‘‘

دو نوجوانوں نے اپنی بائیک کو اس دھار سے دور لے جاتے مشورہ دیا تھا اور حقیقت بھی تھی کہ اگر پیر پھسلتا اور اس پانی میں بہہ جاتے تو نالے کے اوپر رکاوٹی دیوار سے ٹکرا کر کچھ بھی ہو جانا تھا، لوگ بالائی علاقوں کے سیلاب اور تباہی سے اتنے خوف زدہ تھے کہ قطار بنا کر چھوٹے سے فٹ پاتھ پر اسکوٹروں اور انسان ساتھ چل رہے تھے۔

بارش کی یہ تیز رفتاری محض آدھ پون گھنٹے میں اتنی بڑھ گئی تھی کہ لوگ جو وہاں بیکری اور دوسری دکانوں سے ضرورت زندگی کی اشیا خرید رہے تھے اس کا شکار ہوئے۔ ان کی گاڑیاں ڈوب گئیں، کس طرح اوپر والے نے گرین لائن کے اسٹیشن پر پہنچایا یہ وہی جانتا ہے۔ کارڈ میں لوڈ ڈالنے اور ٹکٹ خریدنے والوں کی لمبی قطار تھی اوپر مسافروں کا شور اور دھکم پیل عجیب ماحول تھا اس افرا تفری میں غصہ، چڑچڑاہٹ اور خود کو جلد ازجلد محفوظ مقام تک پہنچانے کی لگن نے آوازیں بلند کیں۔

’’ اللہ کا شکر ادا کریں کہ اس نے یہاں تک پہنچایا ہے، سب چپ ہو جائیں اور استغفار پڑھیں۔‘‘ایک خاتون نے بلند آواز میں ایک ڈپٹ لگائی اور لوگوں کی بھنبھناہٹ تھمی۔ گرین بس میں بھی لوگ خوف زدہ تھے، اس کے راستے میں بھی شدید پانی تھا، شکر ہے کہ رب العزت نے یہ سفر بھی بحفاظت ختم کیا، ورنہ لوگ تو اپنے آفسوں میں رکے رات۔‘‘لوگوں کے رویے، جذبات اور خیالات اس طرح کی مشکلات آفات میں بپھر بھی جاتے ہیں، ان کے جذبات اشتعال انگیزی کا شکار ہو جاتے ہیں، یہ سوچے سمجھے بغیر کہ اس کا اختتام تکلیف دہ ہوگا، خون خرابہ، چوٹیں اور تکلیف دہ یادیں لیکن سب نالے کے جانب بہتے پانی کی طرح چلے جاتے ہیں، جس کی گہرائی میں سوائے تباہی کے اورکچھ بھی نہیں۔

ہمیں یاد رکھنا ہے کہ آسمان پر امنڈتے بادل کبھی کسی قوم کے لیے بارش کا نہیں بلکہ تباہی کا پیغام لائے تھے کہ یہ قدرت الٰہی کی جانب سے ان پر عذاب تھا جو قہر بن کر ان پر ٹوٹا تھا اور یہ بھی کہ ایک تندور سے ابلتا پانی پوری دنیا کو لے ڈوبا تھا، پہاڑکی چوٹی پر بیٹھ کر پناہ لینے والوں کو بھی جنھوں نے سمجھا تھا کہ وہ محفوظ بلند مقام پر ہیں، لیکن قہر الٰہی سے نہ بچ سکے۔

ماسوائے ان کے کہ جن کے لیے امان مقرر تھا، اور بادلوں کی طرح ابابیلوں کے اس جھنڈ سے بھی پناہ نہ مل سکی تھی جو عذاب بن کر ظالموں پر ٹوٹا تھا۔ہم اخبار کی سطریں، نیوز چینلز کی خبریں، سوشل میڈیا کے شارٹس سب یوں ہی دیکھتے ہیں کہ اوہو، بڑا افسوس ہوا، چچ چچ۔۔۔۔ پر بھول جاتے ہیں کہ اس طرح کی آفات کا شکار ہم بھی بن سکتے ہیں، ہم پر بھی قہر الٰہی ٹوٹ سکتا ہے ۔

’’میں صبا سینما سے پیدل چل کر آ رہی ہوں، میرے پیروں میں درد ہو گیا چل چل کر، پر کیا کرتی کوئی گاڑی نہیں چل رہی تھی، ابھی راستے میں ایک آدمی بے چارہ نالے میں ڈوب گیا تھا، بڑی مشکل سے لوگوں نے اسے پکڑ کر نکالا، وہ بے چارہ سمجھا کہ پل کے نیچے کھڑا ہو جاؤں پر اسے پتا ہی نہ تھا کہ وہاں نالہ ہے، بس پانی کی وجہ سے اسے نظر ہی نہ آیا تھا۔

بارش نے سب کچھ تالاب کر دیا تھا پر بڑے بڑے نالے اب بھی ویسے ہی بہہ رہے تھے کہ علاقوں سے ملحق چھوٹے نالے تو کوڑا کرکٹ سے اٹے پڑے تھے، تیز بارش میں پانی ان سے بھی ابل کر سڑکوں پر آ رہا تھا، بجائے بڑے بڑے نالوں میں گرنے کے اس میں قصور اگر انتظامیہ کا ہے تو عوام بھی اس میں کم حصے دار نہیں کہ ان میں انتظامیہ کے کارکنوں سے لے کر عام عوام تک جی کڑا کرکے کوڑا یوں ڈالتے ہیںکہ جیسے وہ نکاسی آب کے لیے نہیں بلکہ کوڑا کرکٹ کے لیے بنے ہوں۔ آخر ہم سب کب تک اپنی ذمے داریوں کو نااہلیوں میں بہاتے رہیں گے، کیا اب بھی ہم کسی اور قہر الٰہی کے منتظر ہیں جیسے ہم سائنسی توجیہات میں مدغم کر کے اپنا آپ مطمئن کرنے میں مشغول ہیں۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: قہر ال ہی جاتے ہیں رہے تھے رہا تھا کا شکار کے لیے

پڑھیں:

لاہور میں زیر زمین پانی کی سطح تیزی سے کم ہو نے لگی

لاہور میں تیزی کے ساتھ زمین سے پانی نکالے جانے کیوجہ سے خطے میں زیر زمین شدید پانی کی قلت ہوگئی ہے۔

تفصیلات کے مطابق محکمہ ایریگیشن رسرچ انسٹی ٹیوٹ نے کہا ہے کہ لاہور میں حالیہ بارشیں بھی زیر زمین پانی کی سطح کو قدرتی طور پر بلند کرنے میں ناکام ہوگئی ہیں۔

ایریگیشن رسرچ انسٹی ٹیوٹ کا کہنا ہے کہ زیر زمین پانی کی سطح کو بلند رکھنے کے لیے ہنگامی صورتحال کے تحت تمام چھوٹے بڑے نجی سرکاری اسکولوں کالجوں اور یونیورسٹیوں سمیت ہاؤسنگ سوسائٹی میں ری چارجنگ کنویں بنانا ہونگے۔ کیونکہ لاہور زیر زمین پانی کی سطح خطر ناک حد تک کم ہو رہی ہے۔

محکمہ ایریگیشن رسرچ انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر ذاکر حسین سیال نے ایکسپریس نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا زیر زمین پانی کی ری چارجنگ بہت کم ہوئی جس کی وجہ سے زیر زمین لاہور کے مختلف علاقوں میں ایک فٹ سے لے کر چار فٹ تک سالانہ پانی کی سطح کم ہونے لگی ہے۔

ریچارجنگ کر کے پانی کی سطح بلند کرنے کے لیے محکمہ ایریگیشن کے ریسرچ انسٹیٹیوشن نے 70 سے زائد ریچارج ویل لگا دیے ہیں۔ حالیہ بارشوں میں 10 سے پندرہ  ایکڑ فٹ کے بجائے صرف 15 لاکھ لیٹر پانی کو ریچارج کیا جا سکا ہے۔ اس کے علاوہ گلبرگ کے ایریا میں پانی کی سطح 125 سے 30 فٹ پر ہے۔

لاہور شہر کے دیگر علاقوں میں کھارے پانی کی سطح کم ہوتے ہوتے ڈیڑھ سو فٹ  تک چلی گئی ہے جبکہ پینے کا پانی سات سو فٹ تک پہنچ چکا ہے۔ 

لاہور میں پانی کی سپلائی زیادہ ہونے کے باعث ٹیوب ویل کی تعداد بھی سرکاری اور نجی ہاؤسنگ سوسائٹی میں بڑھنے لگی ہے۔

https://cdn.jwplayer.com/players/sl54dtPk-jBGrqoj9.html?fbclid=IwY2xjawM0pj5leHRuA2FlbQIxMABicmlkETFnN1dKajNuMHFKS0Z0dUd0AR72qgeLa0LXYPKvg4udCdkJJcE66i21GTCPqgDQOsyfyp7qLSyQaf-sC7dE0g_aem_iYGYuHLvWcaHP5WwmMjhWg

ایک سروے کے مطابق لاہور میں 1500 سے 1800 تک ٹیوب ویل لگے ہوئے ہیں جو 24 گھنٹے ہی چلتے رہتے ہیں جس کی وجہ سے زیر زمین پانی کی سطح تیزی کے ساتھ گر رہی ہے۔

ریسرچ کے ڈائریکٹر ذاکر سیال نے بتایا کہ  لاہور میں جس تیزی کے ساتھ زمین سے پانی نکالا جا رہا ہے اس کے حساب سے ریچارجنگ نہ ہونے کے برابر ہے بڑے بڑے ڈیم بنانے کے ساتھ ساتھ انڈر گراؤنڈ ڈیمز کی بھی ضرورت ہے۔

متعلقہ مضامین

  • بارش اور کرپٹ سسٹم
  • سیلاب زدگان کی فوری امداد
  • پانچ دریاؤں کی سرزمین ’’پنج آب‘‘ پانی کی نظر
  • کیا راول ڈیم کا پانی فلٹریشن کے بعد بھی پینے کے لیے غیر محفوظ ہے؟
  • دریائے ستلج کے سیلاب میں کمی
  • سیلاب
  • جب ’شاہی شہر‘ ڈوب رہا تھا !
  • سندھ میں سیلاب سے قادرپور فیلڈ کے 10 کنویں متاثر
  • گھوٹکی؛ سیلابی پانی سے قادرپورگیس فیلڈ کے متعدد کنویں متاثر، گیس کی سپلائی بند
  • لاہور میں زیر زمین پانی کی سطح تیزی سے کم ہو نے لگی