’’مجھے دیکھ کر ان کے چہرے کی مسکراہٹ دونوں کانوں تک پہنچ گئی تھی، میںنے آگے بڑھ کر جھک کر ان کے بیڈ پر بیٹھ کر انھیں ساتھ لگا لیا اور ان کے گال پر بوسہ بھی دیا۔ ان کی خیریت پوچھی اور اپنے ساتھ لائے ہوئے پھولوں کے گلدستے کو ان کے ہاتھ میں پکڑایا-
(یہ میری سب سے بڑی پھوپھو تھیں، میرے ابا کی لاڈلی بہن، انھوں نے میرے ابا کا زندگی کے ہر اتار چڑھاؤ میں یوں ساتھ دیا تھا جیسے مائیں دیتی ہیں۔ ابا کو جب بھی کوئی مشورہ کرنا ہوتا تھا، انھی سے کرتے۔ انھوں نے مل کر سارے خاندان کو ایک لڑی میں پرو رکھا تھا۔
ابا کے جانے کے بعد وہ اور اماں ایسی بیمار ہوئیں کہ دونوں بستر سے جا لگیں اور چلنے پھرنے سے رہ گئیں ۔ انھوں نے شکریہ ادا کر کے گلدستہ وصول کیااور کہا کہ میں ان کے باورچی خانے سے کوئی گلدان منگوا کر اسے اس میں سجا بھی دوں ۔ میںنے ان کی ملازمہ کو جا کر بتایا کہ مجھے کوئی گلدان چاہیے، ’’ ہاں اس میں پانی بھی ڈال کر لانا بیٹا!‘‘ وہ پانی والا گلدان لے آئی اور میرے حوالے کیا۔ چند منٹ میں وہ میرے لیے جوس کا گلاس لے آئی جسے میں نے شکریہ کے ساتھ وصول کیا-
’’ چائے بناؤ ساجدہ بی بی کے لیے‘‘ انھوں نے ملازمہ سے کہا۔ اس گھر میں وہ تنہا اس ملازمہ کے ساتھ رہتی ہیں، بچے سب اپنے اپنے گھروں میں اسی شہر میں رہتے ہیں مگر ماں سے کوسوں دور… عرف عام میں کہا جا سکتا ہے کہ ہزارو ں میل کے فاصلے پر۔ کسی کے پاس ماں کے لیے درد ہے نہ احساس، نہ ان کے گھروں اور ان کی زندگیوں میں ماں کی کوئی جگہ۔
ان کے ساتھ ساتھ ان کے ہمسفر بھی ملازمتیں کرتے ہیں کہ گھر کی گاڑی چلے- پرائے گھروں میں سب کو کرائے دینا منظور تھا مگر ماں کے ساتھ اس کے گھر میں رہ کر اس کی دیکھ بھال اور خدمت کرنے کو کوئی تیار نہ تھا۔ اگر یہ خاندانی ملازمہ بھی نہ ہوتی تو جانے پھوپھو کا کیا ہوتا ۔
مجھے اماں سے بہت پیار تھا اور ابا کے جانے کے بعد میں نے اماں کو یوں اپنی ذمے داری سمجھ لیا تھا جیسے میں نے انھیں جنم دیا ہو۔ ان کے لیے بھی اگر چہ ایک کل وقت ملازمہ تھی مگر اماں کا خیال، ان کی دوا دارو… سب کچھ میں خود کرتی ہوں۔ میں ان کی تنہا اولاد ہوں ۔
اماں کے نام جو گھر تھا وہ اماں نے اسی وقت بیچ دیا تھا جب انھیں بیماری اور تکلیف کے باعث اسپتال جانا پڑا تھا، انھیں لگا تھا کہ وہ جانے والی ہیں۔
’’ بجائے اس کے کہ میرے مرنے کے بعد تمہیں اس گھر کو بیچنے میں مسائل کا سامنا کرنا پڑے، بہتر ہے کہ میں اسے بیچ کر اس کا پیسہ بینک میں رکھ دوں اور جب تک میں زندہ ہوں، وہ پیسہ میرے کام آتا رہے اور میرے بعد تم اس اکاؤنٹ کی مالک ہو گی‘‘ اماں نے مجھے کہا تھا۔ اللہ کا شکر ہے کہ اماں کی حالت اتنی بہترہو گئی کہ ہم انھیں اسپتال سے گھر لے آئے۔ ان کے گھر کے پیسوں کو دو ایک جگہ پر انوسٹ کردیا اور اس کی آمدن کافی بہتر آنے لگی۔
اسپتال سے اماں کو ہم اپنے گھر لے آئے اور مجھے لگا کہ میرے گھر میں رحمت، برکت اور سکون میں اضافہ ہو گیا تھا۔
اماں مجھے اصرار کر کے کہتی ہیں کہ کم از کم ہر دو ہفتے کے بعد پھوپھو کو ملنے ضرور جایا کروں، میں بھول جاتیں تو یاد کراتی ہیں، خود بھی دونوں آپس میں ٹیلی فون پر رابطے میں رہتی ہیں ۔’’ بچے کب آئے تھے پھوپھو؟‘‘ میںنے چائے پیتے ہوئے ان سے پوچھا تھا۔
’’ کوئی عید پر آیا تھا، کوئی مدرز ڈے پر… بہت مصروف ہیں سارے!‘‘
’’ بس اس گھر میں پڑی ہوں، اس آس پر نظریں دروازے پر رہتی ہیں کہ جانے کس وقت کوئی بھول بھٹکا مجھے ملنے کو آجائے ‘‘ میرے دل کو بہت تکلیف ہوئی، ایسی بھی کیا مصروفیات ہیں کہ اپنی ماں کے لیے وقت نہ نکل سکے۔ میں ان کے پاس بیٹھی تھی اور خود اس دور میں سوچ رہی تھی جب میں اس عمر میں پہنچوں گی تو میرے ساتھ کیا ہوگا۔
’’ آپ ان کے لیے دعا کیا کریں پھوپھو، کبھی کوئی ٹھوکر ملے گی تو خود ہی لوٹ کر آپ کے پاس آئیں گے…‘‘ میںنے انھیں تسلی دی۔
’’ نہ میری بیٹی، اللہ نہ کرے کہ انھیں کوئی ٹھوکر لگے ۔ اللہ انھیں کامیابیاں عطا فرمائے، انھیں وہ سب کچھ ملے جس کے لیے وہ تگ و دو کر رہے ہیں۔ انھیں کبھی تکلیف، دکھ یا درد نہ ہو‘‘ ماں کا دل تھانا، کیسے اولاد کے لیے ایک لفظ بھی غلط سوچ سکتا ہے۔
میری آنکھیں بھی بھیگ گئی تھیں۔ اللہ تعالی سب کی اولادوں کو ہدایت دے اور ماں باپ کو محبت سے رکھنے کی توفیق عطا فرمائے، جیسا کہ اللہ تعالی نے قرآن پاک میں بار بار والدین کے ساتھ حسن سلوک کی تلقین کی ہے اور ہدایت کی ہے کہ انھیں اف تک نہ کہو-
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: انھوں نے کے ساتھ گھر میں کے لیے ماں کے کے بعد ہیں کہ
پڑھیں:
پہلگام کی طرح کیا غزہ پر کسی کپتان کا بیان آئی سی سی پرداشت کرپائے گی؟
ایوارڈ یافتہ بھارتی صحافی روش کمار نے ایشیا کپ میں پاکستان اور بھارت کے درمیان میچ کے دوران مصافحے کے تنازع پر سخت ردعمل دیا ہے۔
اپنے یوٹیوب چینل پر، جس کے 90 لاکھ سے زائد سبسکرائبرز ہیں، گفتگو کرتے ہوئے روش کمار نے کہا کہ پہلے کہا گیا کہ کھیل ہمیشہ اسپورٹس مین اسپرٹ کے تحت ہوتا ہے، لیکن اگر بھارتی کپتان پاکستانی کپتان سے ہاتھ ہی نہیں ملاتے تو یہ کیسی اسپورٹس مین اسپرٹ ہے۔
کوئی شک نہیں @ravish_journo برصغیر کے سب سے بہترین صحافی ہیں سنئیے ان کا بھارتی کھلاڑیوں کا پاکستان سے ہاتھ نہ ملانے پر تبصرہ pic.twitter.com/ZfrpnwKU5u
— Kamran Yousaf (@Kamran_Yousaf) September 15, 2025
انہوں نے کہا کہ میچ کھیلا جا رہا ہے، ٹکٹیں بک رہی ہیں، اس سے آمدنی بھی ہو رہی ہے اور پھر عوام کو یہ کہہ کر بہلایا جا رہا ہے کہ کپتان نے ہاتھ نہیں ملایا۔
’میچ سے قبل پہلگام دہشت گرد حملے میں مارے گئے افراد کی یاد کا حوالہ بھی دیا گیا تھا۔۔۔ایسا لگتا ہے جیسے عوام کو ایک ٹوکن تھما دیا گیا ہو تاکہ وہ اسی کو حب الوطنی سمجھ کر خوش رہیں۔‘
یہ بھی پڑھیں: اسپورٹس مین شپ نظر انداز: بھارتی کھلاڑیوں کا پاکستانی کھلاڑیوں سے ہاتھ ملانے سے گریز
روش کمار نے سوال اٹھایا کہ بھارتی کپتان سوریا کمار یادیو کا بیان کیا بی سی سی آئی یا آئی سی سی کی منظوری کے بغیر دیا جاسکتا تھا، اگر کسی میچ میں پاکستانی یا کوئی اور کپتان غزہ یا فلسطین پر بیان دے تو کیا آئی سی سی اسے برداشت کرپائے گی۔
ان کے بقول سوریا کمار یادیو کا بیان اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ اسپورٹس مین اسپرٹ میں سیاست کس حد تک شامل ہوچکی ہے۔
مزید پڑھیں:’اگر پہلگام کا مسئلہ ہے تو جنگ لڑیں‘، راشد لطیف بھارتی کھلاڑیوں کے رویے پر برس پڑے
روش کمار نے مزید کہا کہ جس طرح بھارتی میڈیا کو ’گودی میڈیا‘ کہا جاتا ہے، ویسا ہی حال اب کرکٹ کا بھی دکھائی دے رہا ہے۔
انہوں نے شنگھائی تعاون تنظیم کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے دہشت گردی سے نمٹنے کے عزم پر بھارت کوئی اعتراض نہ جتا سکا، تو کیا اس پر بھی بھارتی کپتان کوئی بیان دینا پسند کریں گے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اسپورٹس مین اسپرٹ ایشیا کپ بھارت بھارتی کپتان پاکستان پاکستانی کپتان روش کمار سوریا کمار یادیو شنگھائی تعاون تنظیم غزہ فلسطین مصافحے کا تنازع