یورپی یونین صدر ارسلا فان ڈیر لائن کا جہاز حادثے سے بال بال بچ گیا، روس پر الزام
اشاعت کی تاریخ: 2nd, September 2025 GMT
یورپی یونین کی صدر ارسلا فان ڈیر لائن کو لے جانے والا طیارہ بلغاریہ میں لینڈنگ کے دوران جی پی ایس جیمنگ کا شکار ہوا، تاہم خوش قسمتی سے جہاز محفوظ طریقے سے اتر گیا۔
امریکی نشریاتی ادارے سی این این کے مطابق، یورپی کمیشن کی نائب ترجمان اریانا پوڈیسٹا نے بتایا کہ بلغاریہ کے حکام نے اس جی پی ایس مداخلت کو روس سے منسوب کیا ہے۔ پائلٹس کو نیویگیشن سسٹم ناکارہ ہونے کے بعد کاغذی نقشوں کے ذریعے جہاز لینڈ کرانا پڑا۔
یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب صدر ارسلا فان ڈیر لائن مشرقی یورپی ممالک کے دورے پر تھیں تاکہ یوکرین کے لیے مزید حمایت حاصل کی جا سکے۔ وہ ان رہنماؤں میں شامل ہیں جو روس کے خلاف کیف کی بھرپور حمایت کرتے ہیں اور یورپی ممالک پر زور دیتی رہی ہیں کہ یوکرین کو مزید وسائل فراہم کریں۔
ترجمان نے کہا کہ یہ واقعہ صدر کے دورے کی اہمیت کو ظاہر کرتا ہے کیونکہ وہ خود روسی خطرات کو قریب سے دیکھ رہی ہیں۔ حکام کو ابھی تک یہ علم نہیں کہ آیا حملہ آوروں نے براہِ راست اسی پرواز کو نشانہ بنایا یا یہ عام مداخلت تھی۔
یاد رہے کہ اس سے قبل بھی اسکینڈینیوین اور بالٹک ریاستیں روس پر مسلسل جی پی ایس جیمنگ کے الزامات عائد کر چکی ہیں۔ ماہرین کے مطابق روس اپنے جہازوں اور کالینن گراڈ کے علاقے کو استعمال کر کے اس قسم کی مداخلت کرتا رہا ہے۔
یورپی یونین اس معاملے پر پہلے ہی کئی روسی اداروں اور شخصیات پر پابندیاں لگا چکی ہے اور امکان ہے کہ یہ واقعہ مزید سخت اقدامات کا باعث بنے گا۔
ذریعہ: Express News
پڑھیں:
وقف قانون پر سپریم کورٹ کی متوازن مداخلت خوش آئند ہے، مسلم راشٹریہ منچ
سپریم کورٹ نے اپنے حکم میں وقف ترمیمی قانون 2025 کے متنازعہ شقوں پر عارضی پابندی عائد کی ہے، جن پر وسیع پیمانے پر اعتراضات سامنے آئے تھے۔ اسلام ٹائمز۔ وقف ترمیمی قانون 2025 پر سپریم کورٹ کے عبوری فیصلے نے سیاسی اور سماجی حلقوں میں وسیع بحث کو جنم دیا ہے۔ مسلم راشٹریہ منچ (ایم آر ایم) نے اس حکم کا گرم جوشی سے خیرمقدم کیا اور اسے ملک اور معاشرے کے مفاد میں ایک متوازن اور تاریخی فیصلہ قرار دیا۔ فورم کے قومی رابطہ کار شاہد سعید اور خواتین ونگ کی قومی سربراہ ڈاکٹر شالینی علی نے اسے ایسا اقدام قرار دیا جو ملک میں بھائی چارہ، اتحاد اور منصفانہ ماحول کو مزید مضبوط کرے گا۔ سپریم کورٹ نے اپنے حکم میں وقف ترمیمی قانون 2025 کے متنازعہ شقوں پر عارضی پابندی عائد کی ہے، جن پر وسیع پیمانے پر اعتراضات سامنے آئے تھے۔ ان میں مسلمانوں کے لئے اسلام کی پانچ سال تک پیروی کی شرط، کلکٹر کو وقف کی جائیدادوں کے تعین کا اختیار اور وقف کی جائیدادوں سے متعلق فیصلے کرنے کی انتظامی طاقت شامل ہیں۔ عدالت نے کہا کہ ان شقوں پر تفصیلی سماعت کے بعد ہی حتمی فیصلہ ہوگا۔
ساتھ ہی عدالت نے یہ بھی واضح کیا کہ قانون کو مکمل طور پر منسوخ کرنے کا کوئی جواز نہیں، یعنی باقی قانون لاگو رہے گا جب کہ متنازعہ شقوں پر عدالت حتمی فیصلہ سنائے گی۔ مسلم راشٹریہ منچ کے قومی رابطہ کار شاہد سعید نے سپریم کورٹ کے حکم کو ہر طبقے کے لئے قابل احترام اور قابل قبول قرار دیا اور کہا کہ یہ فیصلہ قومی اتحاد اور سالمیت کو مزید مضبوط کرے گا۔ انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ متوازن اور دل کو سکون دینے والا ہے، اس نے مسلمانوں میں پیدا شدہ الجھن کو مکمل طور پر ختم کر دیا ہے۔ عدالت نے دونوں جانب سے دلائل سننے کے بعد ریلیف دیا، جس سے یہ یقین مضبوط ہوتا ہے کہ عدلیہ عوامی مسائل کو سنجیدگی سے لیتی ہے اور غیر جانبدارانہ فیصلے کرتی ہے، یہ حکم بھارت کی جمہوری روایت کو مکمل طور پر مضبوط کرتا ہے۔
مسلم راشٹریہ منچ کے خواتین ونگ کی قومی سربراہ ڈاکٹر شالینی علی نے کہا کہ یہ فیصلہ عدالتی غیر جانبداری اور بھارتی جمہوریت کی مضبوطی کی علامت ہے۔ انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ نے ثابت کر دیا ہے کہ عدلیہ نہ صرف غیر جانبدار ہے بلکہ ہر طبقے، ہر کمیونٹی اور ہر حصے کے جذبات کا مکمل احترام بھی کرتی ہے۔ اس حکم نے نہ صرف وقف ترمیمی قانون سے متعلق شبہات دور کیے ہیں بلکہ مسلمانوں کے درمیان پیدا ہونے والی الجھن کو بھی ختم کر دیا ہے۔ یہ فیصلہ معاشرتی ہم آہنگی، بھائی چارہ اور ہم نصابی تعلقات کو فروغ دیتا ہے۔ مسلم راشٹریہ منچ اس کا دل سے خیرمقدم کرتا ہے۔
مسلم راشٹریہ منچ نے اس حکم کو بھارتی آئین میں درج بنیادی حقوق سے منسلک کیا۔ تنظیم کے مطابق یہ فیصلہ آرٹیکل 14 (برابری کا حق)، آرٹیکل 25 (مذہبی آزادی) اور آرٹیکل 300A (جائیداد کا حق) کی عملی تشریح کی نمائندگی کرتا ہے۔ سپریم کورٹ نے واضح کیا ہے کہ بھارت میں کسی مخصوص مذہب پر من مانے پابندیاں عائد نہیں کی جا سکتیں اور نہ ہی حکومت انتظامی طاقت کے ذریعے جائیداد کے حقوق کو محدود کر سکتی ہے۔ مسلم راشٹریہ منچ کا ماننا ہے کہ یہ حکم صرف ایک تکنیکی قانونی معاملہ نہیں بلکہ سماجی انصاف اور آئینی اخلاقیات کی بحالی ہے۔ مسلم راشٹریہ منچ نے کہا کہ اس فیصلے کے بعد اصل چیلنج یہ ہے کہ وقف کی جائیدادوں کا فائدہ صحیح مستحقین تک پہنچے۔