غزل
کچھ بھی دنیا میں کہاں دوستو، حسرت سے ملا
عیش تو عیش مجھے رنج بھی محنت سے ملا
آگہی، تجربے، خوش فہمیاں، امید نئی
کیا سے کیا کچھ نہ مجھے ترکِ سکونت سے ملا
کتنا مکروہ لگا قیمتی ملبوس اس کا
ایک نادار سے جو شخص کراہت سے ملا
فکر و تحقیق و طلب اور عمل کو چھوڑیں
وہ دکھائیں کہ خدا جس کو عبادت سے ملا
دسترس میں جو نظر آیا تھا پہلے پہلے
وہ خزانہ مجھے برسوں کی ریاضت سے ملا
دیکھنا چھین بھی سکتا ہوں اسے آپ سے میں
تاجِ سلطانی اگر میری حمایت سے ملا
وہ جو مشکل سے لگا ہاتھ، لگایا دل سے
کھو دیا میں نے بھی جاذب جو سہولت سے ملا
(اکرم جاذب۔ منڈی بہاء الدین)
غزل
ادھوری اس کہانی کو کوئی کیسے سمجھ پائے
ہماری رائگانی کو کوئی کیسے سمجھ پائے
کبھی ہم میکدے میں اور کبھی مسجد میں ملتے ہیں
بھلا ایسی جوانی کو کوئی کیسے سمجھ پائے
یہ سارے آبشاروں اور دریاؤں پہ مرتے ہیں
مگر آنکھوں کے پانی کو کوئی کیسے سمجھ پائے
ہمارا کل اثاثہ ہی فقط آنسو ہیں، یادیں ہیں
محبت کی نشانی کو کوئی کیسے سمجھ پائے
ہمارا مسکرانا تک تمہیں اچھا نہیں لگتا
تمھاری بدگمانی کو کوئی کیسے سمجھ پائے
مکاں اندر سے خالی ہیں، مکیں اندر سے اجڑے ہیں
مگر اس لامکانی کو کوئی کیسے سمجھ پائے
(اکرام افضل۔ مٹھیال، پنجاب)
غزل
جیسے دریا کا بہاؤ قدرتی ہے
تیری جانب یہ جھکاؤ قدرتی ہے
میرے لہجے کی تپش یونہی نہیں ہے
میرے اندر کا الاؤ قدرتی ہے
اپنی مرضی سے کہاں میں ٹوٹتا ہوں
بھائی اشکوں کا کٹاؤ قدرتی ہے
وقت کیوں برباد کرتے ہو مسیحا
بائیں جانب کا یہ گھاؤ قدرتی ہے
یہ مرے اشعار قدرت کی عطا ہیں
میرے مصرعوں میں رچاؤ قدرتی ہے
موت سے بھی ایک دلچسپی ہے میری
زندگی سے بھی لگاؤ قدرتی ہے
خوف نے ہر دل میں ڈیرا کر لیا ہے
پس یہ رشتوں میں تناؤ قدرتی ہے
( یاسررضاآصف۔ پاک پتن)
غزل
انداز جدا رکھنا، اطوار الگ رکھنا
اس عہد کے لوگوں سے کردار الگ رکھنا
دنیائے سخن میں ہم کچھ خاص گنے جائیں
آجائے جو شعروں کا معیار الگ رکھنا
دیکھیں بھی بھلا کیونکر جو لے نہیں پائیں وہ
میلے میں غریبوں کے بازار الگ رکھنا
یاں چہروں پہ چہرے ہیں، مشکل ہوا جاتا ہے
مخلص کو الگ رکھنا، فنکار الگ رکھنا
اس قبر کی مٹی کو آتا ہی نہیں صاحب
رعیت کو الگ رکھنا، سردار الگ رکھنا
کوئی شوقیہ پیتا ہے، کوئی غم کے بھلانے کو
ہر جام کی اے ساقی مقدار الگ رکھنا
جیسا ہو نزاکت ؔجو، ویسے ہی اسے ملنا
ہر ظرف کے حامل سے، گفتار الگ رکھنا
(نزاکت ریاض۔ پنڈ مہری)
غزل
ڈوبنے سے اگر بچا لے گا
بول پیراک دام کیا لے گا
ایسے رفتار کم رکھو گے اگر
پھر لٹیرا تو ہم کو آ لے گا
کنی کترانا ہے تجھے آساں
تو بھی اپنی مراد پا لے گا
اس نے میراث اپنے نام پہ کی
اب مجھے گھر سے بھی نکالے گا
مجھ سے انجام کیا جدا ہو گا
سانپ جو آستیں میں پالے گا
جس نے قرضہ لیا ہے تجھ سے میاں
وہ تجھے آج کل پہ ٹالے گا
تیری باتوں پہ اعتبار کیا
اور کتنا مجھے بنا لے گا
اس کا نظریں چرا کے جانا مجھے
اک نئے وسوسے میں ڈالے گا
جس کا پردہ رکھا تھا میں نے رشیدؔ
مجھ پہ کیچڑ وہی اچھالے گا
(رشید حسرت۔ کوئٹہ)
غزل
اترے نجوم رخ پہ ترے غم کے ساتھ ساتھ
دو آتشیں گلاب ہیں، شبنم کے ساتھ ساتھ
ہنسنے لگے تھے زخم، سو میرے طبیب نے
تھوڑا نمک بھی رکھ دیا،مرہم کے ساتھ ساتھ
میں بھی بکھر چکا ہوں سرِرہ گزارِ زیست
جاناں! تمھارے گیسوئے برہم کے ساتھ ساتھ
کل رات جمع تھے، ترے پیماں کے منتظر
اک رقص کا سماں رہا، ماتم کے ساتھ ساتھ
میں شیر اپنے دیس کا، چانداپنی ماں کا تھا
آنچل لپیٹنامجھے، پرچم کے ساتھ ساتھ
اے کوزہ گر! ابھی تو مجھے چاک سے گرا
چکرا گیا ہوں گردشِ پیہم کے ساتھ ساتھ
رسوائی، ہجر، درد، گریباں کا تار تار
ثاقب ؔکو سب ملا ہے، ترے غم کے ساتھ ساتھ
(اقبال ثاقب۔ ضلع کوہستان، خیبر پختونخوا)
غزل
اسی کے سامنے ٹوٹا جگر رکھتا تو اچھا تھا
میں اپنے واسطے اک چارہ گر رکھتا تو اچھا تھا
جو اس کے نام پہ قربان ہوجاتا مسرّت سے
وطن کی خاک گر ایسا پسر رکھتا تو اچھا تھا
یہ غفلت کے نتائج ہیں،ندامت اور پشیمانی
میں گراپنی خطاوئں پہ نظر رکھتا تو اچھا تھا
کہاوت ہے کہ پھل میٹھا تحمّل کا ہی ہوتا ہے
کہیں میں ساتھ اپنے یہ ثمر رکھتا تو اچھا تھا
محبّت کا تقاضا ہے جنوں کی حد کو پالینا
میں اپنا بھی گریباں چاک گر رکھتا تواچھاتھا
امیرِ شہر سے شکوہ غریبوں کا تو بنتا ہے
وہ ان کی بے بسی کی کچھ خبر رکھتا تو اچھا تھا
الٰہی!عمر تو گزری مگر افسوس ہے دل میں
تری دہلیز پر سجدے میں سر رکھتا تو اچھا تھا
(محبوب الرّحمان محبوب۔سینے،میاندم،سوات)
غزل
پندارِ صنم، زینتِ رخسار ہیں آنکھیں
اے اہلِ نظر! حسن کا معیار ہیں آنکھیں
ہر صورتِ رنگین سے بیزار ہیں آنکھیں
دیرینہ مناظر کی طلب گار ہیں آنکھیں
ڈھونڈوگے تو ہر ایک صفت ان میں ملے گی
بیدار ہیں، ہشیار ہیں، عیار ہیں آنکھیں
آنکھیں ہی بتاتی ہیں ہمیں حال بھی دل کا
پوشیدہ ہر اِک راز کا اظہار ہیں آنکھیں
گو لاکھ حسیں ہوں وہ سخن بار نگاہیں
گر ہوں نہ حیادار تو بے کار ہیں آنکھیں
اب جا کے ہوئی دید کی حسرت مری پوری
اے تند ہوا! تیری قرض دار ہیں آنکھیں
منسوب نہ کر مے سے مری ذات کو زاہد!
میں رند کہاں، بس مری مے خوار ہیں آنکھیں
مشتاق بنی جس کے فقط کن سے یہ دنیا
اس خالقِ فنکار کا شہکار ہیں آنکھیں
(ثقلین مشتاق۔ جمشیدپور، جھارکھنڈ ،انڈیا)
غزل
محبت کے فسانے جو ہمیں آ کر سناتے ہیں
حقیقت میں تڑپ سے وہ ہماری حظ اٹھاتے ہیں
بڑی مشکل سے زخموں کوہم اپنوں سے بچاتے ہیں
یہی ہوتے ہیں اکثر جو نمک ان پر لگاتے ہیں
جنھیں تحفے میں ہم نے تو ہمیشہ پھول بھیجے تھے
گزرگاہ کو ہماری اب، وہ کانٹوں سے سجاتے ہیں
ہمارا ظرف تو دیکھو کہ دشمن بھی چلے جس پر
ہوں اس راہ میں اگرپتھر،انھیں بھی ہم ہٹاتے ہیں
کسی کی یاد سے غافل رہے تو،چین دل پائے
وہ ماضی کے حسین لمحے ہمیں ہر دم ستاتے ہیں
وہ پہلو میں ہمارے ہیں،مگر اک پل نہ نیند آئے
بچھڑ جانے کے سپنے ہیں، کہ جو ہم کو جگاتے ہیں
ادھر آ بے،ارے او،کی نوازش ہم پہ ہوتی ہے
اگر پہلو میں آ بیٹھیں تو فوراً سے اٹھاتے ہیں
اٹھا کر ہم کو مسند سے زمین پر جو بٹھاتے ہیں
ہے کیا اوقات خادم کی اشاروں میں بتاتے ہیں
ہمیشہ سے قیام ان کا رہا ہے چند لمحوں کا
پلک جھپکے سے آتے ہیں پلک جھپکے سے جاتے ہیں
بدل سکتے نہیں دنیا کی ان ریتوں، رواجوں کو
ہمیں معلوم ہے لیکن یہ دل پھربھی جلاتے ہیں
انھیں شایدجنم بھومی کی قدر و منزلت بھولی
نئے ذہنوں میں مغرب کی جو آشائیں جگاتے ہیں
(ندیم دائم۔ ہری پور)
غزل
کس ارادے سے نکل آئے ہیں
غم جو چہرے سے نکل آئے ہیں
تب چراغوں کو جلایا اُس نے
جب اندھیرے سے نکل آئے ہیں
زندگی تیری کفالت کے لیے
ہم بڑھاپے سے نکل آئے ہیں
اب تحفظ بھی کہاں پائیں گے
ہم جو پنجرے سے نکل آئے ہیں
تا کہ دیواریں بھی باتیں کر لیں
ہم بھی کمرے سے نکل آئے ہیں
کیا بتائیں گے وہ شجرہ شافی
جو قبیلے سے نکل آئے ہیں
(بلال شافی۔ جڑانوالہ، فیصل آباد)
غزل
آنکھ میں اشک جب ستارا ہوا
مجھ کو ادراک پھر تمہارا ہوا
آخرت میں بھی کچھ نیا تو نہیں
ہے لباس اپنا ہی اتارا ہوا
زندگی اپنی دسترس میں نہیں
پھرسمندر ہوا کنارا ہوا
پھر پلٹ کے وہیں ہم آگئے ہیں
وقت درپیش ہے گزارا ہوا
تیرے در تک تو آہی جائے گا
کوئی کتنا ہی بے سہارا ہوا
سر کے بل ہم نہیں چلے یوں ہی
تیرے دربار سے اشارا ہوا
(سید تصور حسین تصور۔ ٹیکسلا)
غزل
نہ سکھاؤ ہمیں ہم اپنا دھرم رکھتے ہیں
جس پہ چاہیں اسی پہ دستِ کرم رکھتے ہیں
تیرے کعبے کا لگاتے بھی تو کیسے چکر
کچھ خدا ساز الگ اپنا حرم رکھتے ہیں
ہر کسی کے لیے رویا نہیں جاتا مجھ سے
چند ہی لوگ تو اشکوں کا بھرم رکھتے ہیں
ہاتھ کاٹے ہیں تو کیا سانس تو باقی ہے ابھی
شاہ کے آگے کھڑے ہونے کا دم رکھتے ہیں
ہر کسی کو تو بسایا نہیں کرتے دل میں
بخت والا ہے جسے اپنا صنم رکھتے ہیں
(بلال مشتاق ۔ہری پور)
شعرااپنا کلام ، شہر کے نام اور تصویر کے ساتھ اس پتے پر ارسال کریں، انچارج صفحہ ’’کوچہ سخن ‘‘، روزنامہ ایکسپریس، 5 ایکسپریس وے، کورنگی روڈ ، کراچی
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: کو کوئی کیسے سمجھ پائے سے نکل ا ئے ہیں کے ساتھ ساتھ ہیں ا نکھیں الگ رکھنا رکھتے ہیں قدرتی ہے ا لے گا سے ملا
پڑھیں:
پہلگام کی طرح کیا غزہ پر کسی کپتان کا بیان آئی سی سی پرداشت کرپائے گی؟
ایوارڈ یافتہ بھارتی صحافی روش کمار نے ایشیا کپ میں پاکستان اور بھارت کے درمیان میچ کے دوران مصافحے کے تنازع پر سخت ردعمل دیا ہے۔
اپنے یوٹیوب چینل پر، جس کے 90 لاکھ سے زائد سبسکرائبرز ہیں، گفتگو کرتے ہوئے روش کمار نے کہا کہ پہلے کہا گیا کہ کھیل ہمیشہ اسپورٹس مین اسپرٹ کے تحت ہوتا ہے، لیکن اگر بھارتی کپتان پاکستانی کپتان سے ہاتھ ہی نہیں ملاتے تو یہ کیسی اسپورٹس مین اسپرٹ ہے۔
کوئی شک نہیں @ravish_journo برصغیر کے سب سے بہترین صحافی ہیں سنئیے ان کا بھارتی کھلاڑیوں کا پاکستان سے ہاتھ نہ ملانے پر تبصرہ pic.twitter.com/ZfrpnwKU5u
— Kamran Yousaf (@Kamran_Yousaf) September 15, 2025
انہوں نے کہا کہ میچ کھیلا جا رہا ہے، ٹکٹیں بک رہی ہیں، اس سے آمدنی بھی ہو رہی ہے اور پھر عوام کو یہ کہہ کر بہلایا جا رہا ہے کہ کپتان نے ہاتھ نہیں ملایا۔
’میچ سے قبل پہلگام دہشت گرد حملے میں مارے گئے افراد کی یاد کا حوالہ بھی دیا گیا تھا۔۔۔ایسا لگتا ہے جیسے عوام کو ایک ٹوکن تھما دیا گیا ہو تاکہ وہ اسی کو حب الوطنی سمجھ کر خوش رہیں۔‘
یہ بھی پڑھیں: اسپورٹس مین شپ نظر انداز: بھارتی کھلاڑیوں کا پاکستانی کھلاڑیوں سے ہاتھ ملانے سے گریز
روش کمار نے سوال اٹھایا کہ بھارتی کپتان سوریا کمار یادیو کا بیان کیا بی سی سی آئی یا آئی سی سی کی منظوری کے بغیر دیا جاسکتا تھا، اگر کسی میچ میں پاکستانی یا کوئی اور کپتان غزہ یا فلسطین پر بیان دے تو کیا آئی سی سی اسے برداشت کرپائے گی۔
ان کے بقول سوریا کمار یادیو کا بیان اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ اسپورٹس مین اسپرٹ میں سیاست کس حد تک شامل ہوچکی ہے۔
مزید پڑھیں:’اگر پہلگام کا مسئلہ ہے تو جنگ لڑیں‘، راشد لطیف بھارتی کھلاڑیوں کے رویے پر برس پڑے
روش کمار نے مزید کہا کہ جس طرح بھارتی میڈیا کو ’گودی میڈیا‘ کہا جاتا ہے، ویسا ہی حال اب کرکٹ کا بھی دکھائی دے رہا ہے۔
انہوں نے شنگھائی تعاون تنظیم کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے دہشت گردی سے نمٹنے کے عزم پر بھارت کوئی اعتراض نہ جتا سکا، تو کیا اس پر بھی بھارتی کپتان کوئی بیان دینا پسند کریں گے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اسپورٹس مین اسپرٹ ایشیا کپ بھارت بھارتی کپتان پاکستان پاکستانی کپتان روش کمار سوریا کمار یادیو شنگھائی تعاون تنظیم غزہ فلسطین مصافحے کا تنازع