بہت سے لوگوں کو یاد ہوگا کہ ایک زمانے میں اچانک ایک تحریر نمودار ہوجاتی تھی یا کوئی ایک کاغذ ہاتھ میں تھما کر فوراً چلتا بنتا تھا، جس میں لکھا ہوتا کہ سارے لوگ گمراہ ہوکر حرص دنیا میں پھنس گئے ہیں اور دین سے دور ہوگئے، تفصیلات میں شاید کوئی فرق ہو لیکن مجموعی مضمون یہی ہوتا تھا یعنی کسی شخص کے خواب کا ذکر ہوتا تھا، ساتھ ہی یہ بھی لکھا ہوتا کہ جو شخص یہ نوشتہ پڑھ لے اور اس کی چالیس کاپیاں بناکر دوسرے مسلمانوں میں تقسیم نہ کرے، وہ گناہ اور لعنت کا مستوجب ہوگا۔ ان ہی دنوں پی ٹی وی پر ایک پروگرام چلا کرتا تھا جس میں مستند علماء کرام قارئین کے سوالوں کا دین کی روشنی میں جواب دیا کرتے تھے جو خطوط کے ذریعے پوچھے جاتے تھے۔
ایسے ہی ایک پروگرام میں ان پرچیوں وغیرہ کے بارے میں پوچھا گیا تھا، پروگرام میں شریک کراچی کے ایک صاحب نے اس کا جواب تفصیل سے دیتے ہوئے کہا تھا کہ یہ سارا کھیل یہودیوں کا رچایا ہوا ہے، بہرحال عام لوگ اس قسم کی تحریر ملنے پر انتہائی پریشان ہوجاتے اور وہی تحریر آگے تقسیم کرنا شروع کردیتے تھے، شاید اب بھی ایسا ہوتا ہو لیکن مجھے معلوم نہیں ہے۔ اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ مسلمانوں کو احساس گناہ میں گرفتار کردیا جائے اور انھیں تہمات میں الجھا دیا جائے تاکہ مسلمان نہ جدید علوم حاصل کرسکیں نہ کچھ سیکھ سکیں نہ بنا سکیں، نہ ایجاد کرسکیں اور بدستور ترقی یافتہ ممالک کی منڈی بنے رہیں۔
اب شاید ایسی تحریریں نہیں آتیں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ کام رک گیا ہوگا، اس زمانے میں یہ میڈیا نہیں تھا، اسی لیے کام ان نوشتوں کے ذریعے چلایا جارہا تھا۔لیکن آج میڈیا اتنا ہمہ جہت ہے کہ وہی کام کچھ اور شکلوں میں سوشل میڈیا پر چل رہا ہے۔یہ تو میں پہلے کہیں بتاچکا ہوں کہ اس وقت ساری دنیا کے میڈیا کا غالب حصہ مغرب کے پاس ہے۔کوئی بھی قابل ذکر اشاعتی ادارہ ،ٹی وی چینل،ریڈیو اور انٹرنیٹ کا شعبہ ایسا نہیں جس کا کنٹرول مغرب والوں کے پاس نہ ہو۔ یوں کہیے کہ انفرمیشن ٹیکنالوجی کے آکسیجن پائپ پر انھی کا پیر رکھا ہوا ہے ۔گویا اب کاغذی نوشتے کی ضرورت نہیں رہی۔ تفصیل میں جانے سے معذرت خواہ ہوں کیونکہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ سب کچھ واضح ہے۔
ہمہ کارم زخود کامی بہ بدنامی کشید آری
نہاں کی امند آن رازے کہ آن سازند محفل ہا
یعنی اس میں ’’چھپا ہوا‘‘ کیا ہے جو بتایا جائے، اندازہ اس سے لگایا جائے کہ پاکستان میں اب تک جو کچھ بنتا تھا اور بہت آسانی سے بنایا جاتا تھا، اب وہ بھی نہیں بن رہا ہے ،کچھ چھوٹی انڈسٹریاں اگر تھیں بھی تو اب نہیں رہی ہیں کیونکہ w.
یہ عالمی ساہوکار چونکہ مال دار ہوتے ہیں، اس لیے دنیا کے جتنے دماغ اور تھنک ٹینک بھی ہیں، ان کی زنبیل میں ہوتے ہیں۔جو ان کی منشا ء کے مطابق ایسے جال اور دام ہمرنگ زمیں پھیلاتے رہتے ہیں کہ کسی’’پرندے‘‘ کا بچ جانا ناممکن ہوجاتا ہے۔چنانچہ اس وقت مسلمان ممالک بزعم خویش بڑے بڑے پرندے محوپرواز ہیں، ان کو احساس تک نہیں ہے کہ ہم کسی دوسری’’ہوا‘‘ میں اُڑ رہے ہیں، ان کو غلط فہمی ہے کہ ہم خود اپنے’’پروں‘‘ پر اڑ رہے ہیں حالانکہ ان کے’’پر‘‘ ہوا کے اسیر ہیں۔’’پر‘‘بیشک ان کے ہیں لیکن ’’ہوا‘‘ کسی اور کی ہے۔
اپنی مرضی کے کہاں اپنے سفر کے ہم ہیں
رخ ہواؤں کا جدھر کا ہے ادھر کے ہم ہیں
پہلے ہر چیز تھی اپنی مگر اب لگتا ہے
اپنے گھر میں کسی دوسرے گھر کے ہم ہیں
ایک محفل میں کوئی’’ تلقین شاہ‘‘ حاضرین محفل کو تلقین فرما رہے تھے کہ یہ دنیا سراسر عبث ہے، آخرت کی فکر کرنا چاہیے، میرے ساتھ آئیں تاکہ آپ کو زندگی کا صحیح راستہ دکھاؤں ۔ان دنوں گندم کی کٹائی کا موسم تھا، کٹائی کے لیے آدمی نہیں مل رہے تھے اور گندم کی فصل کھیتوں میں کھڑی خراب ہو رہی تھی۔تلیقن شاہ کی تلقین ختم ہوئی تو میں نے ان سے کہا کہ کیوں نہ ایسا کریں کہ ہم تم مل کر پہلے گندم کی کٹائی کریں، اس کے بعد دنیا داری چھوڑ کر کہیں جنگلوں میں نکل چلیں گے۔ بولے، کٹائی کا وسیلہ بھی بن جائے گا۔عرض کیا، یہ عیجب بات نہیں کہ اپنی فصل محنت سے کاٹ لیں اور سنبھال لیں۔۔۔۔ ایک پشتو شعر کا ترجمہ ہے
ہر ہر قدم احتیاط سے رکھنا کہ صیاد نے
ہر درخت کے نیچے دام بچھایا ہوا ہے
ذریعہ: Express News
پڑھیں:
روس میں فیکٹری ملازم کو تمام ملازمین کی تنخواہیں غلطی سے وصول، واپس کرنے سے انکار
روس میں ایک فیکٹری ملازم کو غلطی سے تمام ملازمین کی تنخواہ ایک ساتھ وصول ہوگئی۔ تاہم جب کمپنی نے اس سے واپسی کا مطالبہ کیا تو اس نے انکار کردیا۔
رپورٹس کے مطابق یہ واقعہ خانٹی مانسیسک میں پیش آیا جہاں ایک فیکٹری نے اپنے ورکر ولادیمیر ریچاگوف پر 7 ملین روبلز (87,000 ڈالرز) واپس کرنے سے انکار پر مقدمہ دائر کیا ہے۔ یہ رقم سافٹ ویئر کی خرابی کی وجہ سے غلطی سے ملازم کو وصول ہوگئی تھی۔
اس سال کے آغاز میں جب اسے اپنی بینکنگ ایپ سے رقم کی اطلاع موصول ہوئی تو ولادیمیر ریچاگوف کو اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آیا۔ اس نے 7,112,254 روبل (87,000 ڈالرز) کی رقم کو بونس سمجھا۔
ملازم کے ساتھیوں کے درمیان اگرچہ یہ افواہیں پھیلی ہوئی تھیں کہ ان کی فیکٹری ان کے لیے ایک نفع بخش سال کے بعد 13ویں تنخواہ تیار کر رہی ہے، لیکن اس نے کبھی بھی اس طرح کی توقع نہیں کی تھی۔
لیکن یہ کروڑ پتی بننے کی اس کی خوشی کچھ ہی دیر کے لیے رہی کیونکہ اسے جلد ہی محکمہ اکاؤنٹنگ سے فون کالز موصول ہونے لگیں کہ اسے غلطی سے 7 ملین روبل منتقل کر دیے گئے ہیں اور اسے واپس کرنا پڑے گا۔
لیکن آن لائن کچھ تحقیق کرنے کے بعد ولادیمیر نے ایک تکنیکی error کی نشاندہی کی بنا پر رقم واپس کرنے سے انکار کردیا اور اب کیس سپریم کورٹ میں داخل کرادیا گیا ہے جہاں اس کا حتمی فیصلہ ہوگا۔