Daily Sub News:
2025-11-02@06:06:08 GMT

قدرتی آزمائشیں اور رسولِ اکرم ﷺ کی تعلیمات

اشاعت کی تاریخ: 4th, September 2025 GMT

قدرتی آزمائشیں اور رسولِ اکرم ﷺ کی تعلیمات

قدرتی آزمائشیں اور رسولِ اکرم ﷺ کی تعلیمات WhatsAppFacebookTwitter 0 4 September, 2025 سب نیوز


تحریر: محمد محسن اقبال


رسولِ اکرم حضرت محمد مصطفی ﷺ کی حیاتِ مبارکہ صرف واقعات کا ایک تاریخی ریکارڈ نہیں، بلکہ ہر دور کی انسانیت کے لیے ایک لافانی خزانہ? ہدایت ہے۔ آپ ﷺ کی زندگی وحیِ الٰہی کی براہِ راست روشنی میں بسر ہوئی، جس نے نہ صرف روحانی معاملات بلکہ زندگی کی عملی حقیقتوں کا بھی رہنما جواب فراہم کیا۔ انہی حقیقتوں میں قدرتی آفات بھی شامل تھیں—

زلزلے، طوفان، سیلاب، قحط اور آسمانی نشانیاں—جنہوں نے لوگوں کی زندگیوں کو ہلا ڈالا۔ ان مواقع پر رسول اللہ ﷺ اور آپ کے برگزیدہ صحابہؓ کے طرزِ عمل نے ایسا نمونہ قائم کیا جو صدیوں بعد بھی انسانیت کے لیے رہنمائی فراہم کرتا ہے۔
قرآنِ حکیم خود اس حقیقت کو بیان کرتا ہے کہ مصیبتیں انسان کے لیے آزمائش بھی ہیں اور یاد دہانی بھی۔

ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
” اور ہم ضرور تمہیں آزمائیں گے کچھ خوف اور بھوک سے، اور مالوں، جانوں اور پھلوں کے نقصان سے، اور خوشخبری ہے صبر کرنے والوں کے لیے۔ وہ کہ جب ان پر مصیبت آتی ہے تو کہتے ہیں: بے شک ہم اللہ کے ہیں اور بے شک ہم اسی کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جن پر ان کے رب کی طرف سے درود اور رحمت ہے، اور یہی ہدایت یافتہ ہیں۔” (البقرہ: 155–157)
یہی آیت اس بنیاد کو واضح کرتی ہے کہ رسول اکرم ﷺ کی رہنمائی میں ابتدائی مسلم معاشرہ قدرتی آفات کے جھٹکوں کو کیسے جھیلتا تھا—صبر، ذکر اور اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کے ساتھ۔


رسول اکرم ﷺ کے دورِ مبارک میں جب کوئی غیر معمولی قدرتی واقعہ پیش آتا تو ردِعمل کبھی خوف یا مایوسی کا نہ ہوتا، بلکہ رجوع الی اللہ کا ہوتا۔ مدینہ میں جب زلزلہ آیا تو نبی اکرم ﷺ نے لوگوں کو فوراً ذکر، توبہ اور دعا کی تلقین فرمائی۔ آپ ﷺ فرمایا کرتے تھے: ”جب تم ایسی چیزیں دیکھو تو اللہ کا ذکر کرو، دعا کرو اور اس سے مغفرت طلب کرو۔” (صحیح مسلم) یوں عام زندگی کا معمول ان لمحات میں غیر معمولی عبادت میں بدل جاتا۔


جب تیز ہوائیں چلتی تھیں اور آسمان سیاہ ہو جاتا تھا، لوگوں کے دلوں میں خوف بیٹھ جاتا، مگر آپ ﷺ کا رویہ اللہ پر اعتماد اور بندگی کی علامت ہوتا۔ حضرت عائشہؓ بیان فرماتی ہیں: ”جب کبھی تیز ہوا چلتی تو رسول اللہ ﷺ کے چہرے پر تشویش ظاہر ہو جاتی۔ آپ کبھی گھر کے اندر جاتے اور کبھی باہر آتے۔ اگر بادل دیکھتے تو چہرے کا رنگ بدل جاتا۔ میں نے ایک بار پوچھا تو آپ ﷺ نے فرمایا: اے عائشہ! مجھے کیا معلوم کہ یہ عذاب نہ ہو۔ پچھلی قومیں ہوا کے ذریعے ہلاک کی گئیں۔ جب میں بادل دیکھتا ہوں تو مجھے خوف ہوتا ہے کہ کہیں یہ عذاب نہ ہو، جب کہ لوگ اسے دیکھ کر بارش کی امید کرتے خوش ہوتے ہیں۔” (صحیح بخاری، صحیح مسلم) اس طرزِ عمل نے امت کو یہ سکھایا کہ فطری مظاہر محض بے مقصد نہیں بلکہ سبق آموز ہیں اور دلوں کو اللہ کی عظمت و رحمت کی طرف موڑنے کا ذریعہ ہیں۔
سورج یا چاند گرہن کے مواقع پر نبی اکرم ﷺ نے ایک مخصوص نماز قائم کی—صلوٰۃ الکسوف یا صلوٰۃ الخسوف۔

ایک موقع پر آپ ﷺ نے صحابہ کو مسجد میں جمع کیا اور طویل قیام، قرائت، رکوع اور سجدوں کے ساتھ نماز پڑھائی۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”سورج اور چاند اللہ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں۔ یہ نہ کسی کی موت سے گرہن ہوتے ہیں اور نہ کسی کی زندگی سے۔ جب تم انہیں دیکھو تو کھڑے ہو جاؤ اور نماز پڑھو۔” (صحیح بخاری) اس عمل نے لوگوں کو یہ سکھایا کہ یہ مظاہر محض وہم یا شگون نہیں، بلکہ اللہ کی قدرت کی نشانیاں ہیں جو بندے کو عبادت اور غور و فکر کی طرف بلاتی ہیں۔
جزیرہ نما عرب میں قحط اور بارش کی کمی عام تھی۔

ایسے مواقع پر رسول اللہ ﷺ صلوٰۃ الاستسقاء پڑھواتے۔ آپ ﷺ کھلے میدان میں جاتے، عاجزی سے دعا کرتے، ہاتھ آسمان کی طرف بلند فرماتے اور اپنی چادر کو الٹ دیتے تاکہ رحمت کے نزول کی امید ظاہر ہو۔ قرآن کہتا ہے: ”اور وہی ہے جو بارش نازل کرتا ہے اس کے بعد کہ وہ لوگ مایوس ہو چکے ہوتے ہیں، اور وہ اپنی رحمت کو پھیلا دیتا ہے۔” (الشورٰی: 28) یوں قحط کے زمانے میں اجتماعی توبہ، دعا اور اللہ پر بھروسہ ہی معمول بن جاتا۔


سیلاب اور بارش کے دنوں میں بھی آپ ﷺ نے امت کو دعاؤں کا طریقہ سکھایا۔ بارش برسنے پر آپ ﷺ دعا کرتے: ”اے اللہ! اسے ہمارے لیے نفع بخش بنا۔” (صحیح بخاری) اور جب بارش زیادہ ہو جاتی تو یوں دعا فرماتے: ”اے اللہ! ہمارے ارد گرد برسائیے، ہم پر نہیں؛ پہاڑوں پر، وادیوں میں اور درختوں کی جڑوں پر۔” (صحیح بخاری) یہ سادہ مگر پرمعنی دعائیں ظاہر کرتی ہیں کہ آپ ﷺ کا معمول ہمیشہ اعتدال پر مبنی تھا—اللہ کی رحمت کا خیرمقدم بھی اور نقصان سے پناہ کی دعا بھی۔


صحابہ کرامؓ نے بھی اسی اسوہ? نبوی کو خلوص سے اپنایا۔ وہ قدرتی آفات کو اندھی طاقت نہیں سمجھتے تھے بلکہ عبرت انگیز نشانیاں مانتے تھے جو صبر، دعا اور اعمال کی اصلاح کی طرف بلاتی ہیں۔ ان کے معمولات ایسے مواقع پر نماز، صدقہ اور اجتماعی اتحاد سے بھرے ہوتے۔ ان کے نزدیک مصیبت محض تکلیف نہ تھی بلکہ روحانی بیداری کا موقع بھی تھی۔


حقیقت یہ ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے مومن کو یہ تعلیم دی کہ دکھ اور تکلیف بھی خیر سے خالی نہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”مومن کا معاملہ بڑا عجیب ہے۔ اس کے ہر حال میں خیر ہے، اور یہ صرف مومن ہی کے لیے ہے۔ اگر اسے خوشی ملے تو شکر کرتا ہے، یہ اس کے لیے بہتر ہے؛ اور اگر اسے نقصان پہنچے تو صبر کرتا ہے، یہ بھی اس کے لیے بہتر ہے۔” (صحیح مسلم) یہی وہ ایمان کا معمول تھا جو آفات میں بھی متزلزل نہ ہوتا بلکہ اللہ کی قضا پر بھروسے سے روشن رہتا۔


یوں نبی اکرم ﷺ کے دور میں قدرتی آفات کے وقت مسلمانوں کے معمولات نہ بے ترتیبی پر مبنی تھے نہ مایوسی پر، بلکہ اللہ کی یاد، صبر اور امید کی لَے سے ہم آہنگ تھے۔ یہ وہ معمولات تھے جو خوف کو ایمان میں بدل دیتے، مصیبت کو قربِ الٰہی کا ذریعہ بنا دیتے، اور دنیاوی حادثات کو اس ابدی حقیقت کی یاد دہانی بنا دیتے کہ اصل پناہ صرف اللہ تعالیٰ کی رحمت میں ہے۔

روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔

WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرگھر، فصلیں، دکانیں، بازار سب پانی کی نذر، گجرات میں 506 ملی میٹر بارش نے تباہی مچا دی ایس سی او تھیانجن سمٹ 2025 حضرت محمد ﷺ: تمام انسانیت کے لیے چراغِ ہدایت انقلاب اور پاکستان سیلاب: آنسو، سوال اور امید بغیر ڈیم کا دفاع سہ فریقی سفارتکاری: جنوبی ایشیا کی اسٹریٹجک بساط کی نئی تشکیل TikTokTikTokMail-1MailTwitterTwitterFacebookFacebookYouTubeYouTubeInstagramInstagram

Copyright © 2025, All Rights Reserved

رابطہ کریں ہماری ٹیم.

ذریعہ: Daily Sub News

کلیدی لفظ: قدرتی ا اکرم ﷺ

پڑھیں:

پاکستان۔ بنگلا دیش تعلقات میں نئی روح

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

 

251102-09-4

 

محمد مطاہر خان

پاکستان اور بنگلا دیش کے تعلقات کی تاریخ پیچیدہ مگر امکانات سے بھرپور ہے۔ 1971ء کے بعد دونوں ممالک کے مابین کئی ادوار میں سرد مہری دیکھی گئی، تاہم گزشتہ دو دہائیوں کے دوران رفتہ رفتہ رابطوں کی بحالی اور اقتصادی تعاون کے امکانات نے ایک نئی راہ ہموار کی۔ اب، اکتوبر 2025ء میں ڈھاکا میں منعقد ہونے والا نواں جوائنٹ اکنامک کمیشن (JEC) اجلاس دونوں ممالک کے تعلقات میں ایک فیصلہ کن موڑ کی حیثیت رکھتا ہے ایک ایسا موقع جب ماضی کی تلخ یادوں کے باوجود مستقبل کی سمت تعاون، ترقی اور باہمی اعتماد پر مبنی ایک نئے باب کا آغاز کیا جا رہا ہے۔

1974ء میں دونوں ممالک کے درمیان سفارتی تعلقات کی بحالی کے بعد کئی ادوار میں تجارتی روابط کو وسعت دینے کی کوششیں ہوئیں، مگر سیاسی اختلافات، علاقائی ترجیحات اور عالمی طاقتوں کے اثرات نے اکثر ان کوششوں کو محدود کر دیا۔ تاہم گزشتہ چند برسوں میں جنوبی ایشیا میں اقتصادی انضمام کی بڑھتی ہوئی ضرورت اور خطے میں چین و بھارت کے اثر رسوخ کے تناظر میں پاکستان اور بنگلا دیش نے اپنے مفادات کو ازسرِ نو متعین کرنا شروع کیا۔ اسی تاریخی تسلسل میں حالیہ JEC اجلاس غیر معمولی اہمیت رکھتا ہے۔ اجلاس کی مشترکہ صدارت پاکستان کے وفاقی وزیرِ پٹرولیم علی پرویز ملک اور بنگلا دیش کے مشیرِ خزانہ ڈاکٹر صالح الدین احمد نے کی، جو کہ نہ صرف دونوں ممالک کے اقتصادی وژن کی ہم آہنگی کی علامت ہے بلکہ دو دہائیوں کی سفارتی خاموشی کے بعد ایک مضبوط عملی پیش رفت بھی۔

اجلاس کے اعلامیہ کے مطابق، پاکستان نے بنگلا دیش کو کراچی پورٹ ٹرسٹ (KPT) کے استعمال کی پیشکش کی ہے۔ یہ پیشکش محض تجارتی سہولت نہیں بلکہ ایک علاقائی اسٹرٹیجک اقدام ہے۔ کراچی پورٹ، جو بحرِ عرب کے ذریعے دنیا کے بڑے تجارتی راستوں سے منسلک ہے، بنگلا دیش کو چین، وسطی ایشیا، اور مشرقِ وسطیٰ کے ممالک کے ساتھ اپنی برآمدات و درآمدات کے نئے دروازے کھولنے میں مدد دے گا۔ اس پیشکش سے جنوبی ایشیا کے خطے میں ’’ریجنل کوآپریشن فار اکنامک ڈویلپمنٹ‘‘ کے تصور کو نئی زندگی مل سکتی ہے۔ ماضی میں SAARC جیسے فورمز کے غیر فعال ہونے کے باوجود، اگر پاکستان اور بنگلا دیش کے درمیان یہ تجارتی راہداری فعال ہو جائے تو یہ نہ صرف دونوں ممالک بلکہ پورے خطے کے لیے ایک گیم چینجر ثابت ہو سکتی ہے۔ اجلاس میں دونوں ممالک کی قومی شپنگ کارپوریشنز کے درمیان تعاون بڑھانے پر بھی زور دیا گیا۔ سمندری تجارت کسی بھی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی سمجھی جاتی ہے، اور اس شعبے میں تعاون سے نہ صرف لاجسٹکس کے اخراجات کم ہوں گے بلکہ باہمی سرمایہ کاری اور بندرگاہی انفرا اسٹرکچر کی ترقی کے مواقع بھی پیدا ہوں گے۔

پاکستان کی شپنگ انڈسٹری کے پاس طویل ساحلی پٹی اور جدید بندرگاہوں کا تجربہ ہے، جبکہ بنگلا دیش کی شپنگ انڈسٹری نے گزشتہ چند برسوں میں تیز رفتار ترقی کی ہے۔ اس شراکت داری سے دونوں ممالک اپنی مرچنٹ نیوی، شپ یارڈز، اور میری ٹائم ٹریننگ انسٹیٹیوٹس کو بین الاقوامی معیار پر لا سکتے ہیں۔ پاکستان کی پاکستان حلال اتھارٹی اور بنگلا دیش کی اسٹینڈرڈز اینڈ ٹیسٹنگ انسٹی ٹیوٹ (BSTI) کے درمیان حلال تجارت کے فروغ سے متعلق ایک مفاہمتی یادداشت (MoU) پر دستخط کیے گئے۔ یہ قدم عالمِ اسلام میں بڑھتی ہوئی حلال اکنامی کا عملی اظہار ہے، جس کی عالمی مالیت 3 ٹریلین ڈالر سے تجاوز کر چکی ہے۔ پاکستان کی حلال مصنوعات کی صنعت پہلے ہی مشرقِ وسطیٰ اور جنوب مشرقی ایشیا میں مقام بنا چکی ہے، اور بنگلا دیش کے ساتھ اشتراک سے یہ منڈی مزید وسعت اختیار کرے گی۔ اجلاس کا سب سے اہم پہلو ’’پاکستان۔ بنگلا دیش نالج کوریڈور‘‘ کا قیام ہے۔ اس منصوبے کے تحت پاکستان نے بنگلا دیشی طلبہ کے لیے 500 مکمل فنڈڈ اسکالرشپس دینے کی پیشکش کی ہے۔ یہ اقدام دونوں ممالک کے درمیان علمی، تحقیقی اور سائنسی تعاون کے ایک نئے باب کا آغاز کرے گا۔ پاکستان کی جامعات خصوصاً قائداعظم یونیورسٹی، پنجاب یونیورسٹی، اور نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی (NUST) تحقیق و سائنس میں ممتاز مقام رکھتی ہیں، جبکہ بنگلا دیش نے حالیہ برسوں میں آئی ٹی، بایو ٹیکنالوجی اور رینیوایبل انرجی کے شعبوں میں نمایاں ترقی کی ہے۔ نالج کوریڈور کے ذریعے دونوں ممالک کے طلبہ اور محققین ایک دوسرے کے علمی وسائل سے استفادہ کر سکیں گے، جو خطے میں ’’علمی سفارت کاری‘‘ (Academic Diplomacy) کی بنیاد رکھے گا۔

وفاقی وزیر علی پرویز ملک نے اجلاس میں اپنے خطاب میں کہا کہ ’’پاکستان اور بنگلا دیش کے تعلقات باہمی احترام اور دوستی پر مبنی ہیں، اور وقت آ گیا ہے کہ ہم اپنے عوام کے لیے ترقی و خوشحالی کے نئے دروازے کھولیں‘‘۔ یہ بیان نہ صرف سفارتی آداب کا مظہر ہے بلکہ پاکستان کے ’’اقتصادی سفارت کاری‘‘ کے نئے وژن کی عکاسی بھی کرتا ہے۔ بنکاک سے استنبول تک، اور وسطی ایشیا سے مشرقی افریقا تک دنیا تیزی سے علاقائی بلاکس کی طرف جا رہی ہے۔ ایسے میں پاکستان اور بنگلا دیش کا تعاون نہ صرف جنوبی ایشیائی معیشت کو مستحکم کر سکتا ہے۔

بلکہ اسلامی دنیا کے لیے ایک مثبت مثال بھی قائم کر سکتا ہے کہ کس طرح تاریخی اختلافات کو پسِ پشت ڈال کر باہمی مفاد کے لیے مشترکہ اقدامات کیے جا سکتے ہیں۔ یہ کہنا بجا ہو گا کہ ڈھاکا میں منعقدہ JEC اجلاس محض ایک رسمی ملاقات نہیں بلکہ دو دہائیوں کے تعطل کے بعد ایک نئی اقتصادی شروعات ہے۔ کراچی پورٹ ٹرسٹ، حلال ٹریڈ، شپنگ اشتراک اور نالج کوریڈور جیسے منصوبے صرف کاغذی وعدے نہیں بلکہ جنوبی ایشیا کے بدلتے ہوئے جغرافیائی و اقتصادی منظرنامے کی پیش گوئی کرتے ہیں۔

اگر دونوں ممالک اس تعاون کو سنجیدگی اور تسلسل کے ساتھ آگے بڑھائیں تو آنے والے برسوں میں پاکستان اور بنگلا دیش نہ صرف اقتصادی بلکہ علمی و ثقافتی شراکت دار بن سکتے ہیں۔ یہ وہ موقع ہے جب اسلام آباد اور ڈھاکا دونوں کو ماضی کے سائے سے نکل کر ایک روشن اور باہمی ترقی پر مبنی مستقبل کی طرف قدم بڑھانا چاہیے۔ عالمی برادری، بالخصوص او آئی سی، کو بنگلا دیش اور پاکستان کے اس مثبت رجحان کو سراہنا چاہیے کیونکہ یہ نہ صرف جنوبی ایشیا میں امن و استحکام کے فروغ کا باعث بنے گا بلکہ اسلامی ممالک کے مابین عملی اتحاد کے خواب کو بھی حقیقت کا روپ دے سکتا ہے۔

محمد مطاہر خان سنگھانوی

متعلقہ مضامین

  • فضائی آلودگی کا وبال، لاہور دنیا کے آلودہ شہروں میں پھر سرفہرست
  • پاکستان۔ بنگلا دیش تعلقات میں نئی روح
  • قال اللہ تعالیٰ  و  قال رسول اللہ ﷺ
  • پی ٹی آئی میں حتمی فیصلہ عمران خان کا، چھوڑ کر جانے والے غیر متعلقہ ہیں: شیخ وقاص اکرم
  • قدرتی آفات کا سب سے زیادہ ااثر خواتین پر پڑتاہے، ڈاکٹر شاہزرا منصب
  • خوش الحانی
  • پی ٹی آئی کے سیکرٹری جنرل سلمان اکرم راجا اور مشال یوسفزئی کے درمیان اختلافات سامنے آگئے
  • سلمان اکرم راجا کی پارٹی عہدوں اور وزیراعلیٰ کے پی کی تبدیلی سے متعلق وضاحت سامنے آگئی
  • آپ کے ارد گرد مخصوص ٹولہ مجھ سے خوفزدہ کیوں ہے؟ مشال یوسفزئی کا سلمان اکرم راجہ سے سوال
  • سلمان اکرم کی پارٹی عہدوں اور وزیر اعلیٰ کے پی کی تبدیلی پر وضاحت