اڈیالہ جیل کے باہر جمعے کا دن عام دکھائی دے رہا تھا، لیکن جو منظر وہاں ابھرے، وہ محض ایک انڈے کی کہانی نہیں تھی۔ یہ منظر پاکستانی سیاست کی تلخ اور مضحکہ خیز حقیقت کا بھیانک عکس تھا۔
عمران خان کی بہن علیمہ خان میڈیا کے کیمروں کے سامنے بات کر رہی تھیں کہ اچانک ان پر انڈہ پھینک دیا گیا۔ پولیس کی فوری کارروائی نے دو خواتین کو قابو کرلیا، تاہم یہ واقعہ یاد دلاتا ہے کہ شاید ملکی سیاست میں احتجاج کا یہ مذموم سلسلہ کبھی ختم نہیں ہوگا۔
پاکستان میں انڈے، جوتے، سیاہی اور دھکم پیل کی روایت کئی دہائیوں پر محیط ہے۔ لیکن یہ رجحان پاکستان تک محدود نہیں۔ دنیا بھر میں سیاستدانوں پر انڈے، جوتے اور تھپڑ والے حملے معمول ہیں۔
طاقتور ترین سمجھے جانے والے امریکی صدر (جارج بش) اور سابق امریکی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن پر بھی جوتا پھینکا گیا۔ آسٹریلوی وزیراعظم اسکاٹ موریسن کو انڈہ مارا گیا۔ تائیوان کے صدر ماینگ کو کئی بار جوتوں کے وار سہنا پڑے۔
ایران کے سابق صدر احمدی نژاد پر جوتے سے حملہ کیا گیا۔ سابق چینی صدر وین جیا باؤ بھی جوتے کا نشانہ بنے۔ نئی دہلی کے وزیراعلیٰ اروند کیجریوال کو تو ایک شخص نے تھپڑ ہی جَڑ دیا تھا۔
اگرچہ سیاسی اختلافات جمہوریت کا حُسن ہیں لیکن وطنِ عزیز میں یہ حُسن گہنا چکا ہے۔ ملی سیاست میں 2018 کا مارچ اس لحاظ سے تاریخی ہے کہ اس کے پاس معتدد واقعات کا منفی ریکارڈ ہے۔
10 مارچ 2018 کو سیالکوٹ میں وزیر خارجہ خواجہ آصف پر سیاہی پھینکی گئی۔ اگلے ہی روز 11 مارچ 2018 کو سابق وزیراعظم نوازشریف پر جامعہ نعیمیہ لاہور میں دوران خطاب جوتا پھینکا گیا۔
13 مارچ 2018 کو پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان گجرات میں جلسے سے خطاب کر رہے تھے کہ کسی نے جوتا اچھال دیا جو ان کے برابر میں کھڑے علیم خان کے سینے پر جا لگا تھا۔
تین روز بعد 16 مارچ 2018 کو تحریک انصاف کی منحرف رکن اسمبلی عائشہ گلالئی پر پی ٹی آئی ورکرز نے بہاولپور میں انڈوں اور ٹماٹروں سے حملہ کیا اور ’گو عائشہ گو‘ کے نعرے بھی لگائے گئے۔
7 مئی 2018 کو سابق وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال پر نارووال میں قاتلانہ حملہ ہوا۔ احسن اقبال اپنے حلقے میں مسیحی برادری کی کارنر میٹنگ سے خطاب کر رہے تھے، گولی دائیں بازو پر لگی جو کہنی کی ہڈی توڑتی ہوئی ان کے پیٹ میں پیوست ہوگئی تھی۔
2011 میں سابق فوجی آمر پرویز مشرف پر لندن میں ایک تقریب کے دوران جوتا پھینکا گیا تھا۔ پرویزمشرف ایک تقریب سے ’خطاب آور‘ تھے، جب حملہ آور کا جوتا انہیں نہ لگ سکا تاہم سیکیورٹی اہلکار حملہ آور کو جا لگے۔
2013 میں سندھ ہائیکورٹ میں پیشی کے موقع پر بھی ایک وکیل نے پرویز مشرف کی جانب جوتا پھینکا تھا، جسے (وکیل) سیکیورٹی اہلکاروں نے اپنی ’تحویل‘ میں لے لیا تھا۔
24 اپریل 2014کو لاہور میں وزیراعلیٰ شہباز شریف پر جوتا پھینکا گیا تھا۔ جنوبی ایشیائی مزدور کانفرنس کے افتتاح پر سندھی ٹی وی چینل ’آواز‘کے صحافی امداد علی نے جوتا پھینکا لیکن شہباز شریف محفوظ رہے۔
6 مارچ 2021 کو ن لیگی رہنما مریم اورنگزیب ڈی چوک میں پریس کانفرنس کر رہی تھیں کہ پی ٹی آئی ورکرز نے وہاں ہلڑ بازی، بدتمیزی اور دھکم پیل کی۔ یہی نہیں احسن اقبال پر جوتے سے حملہ کیا گیا جبکہ سابق وزیراعظم شاہد خاقان اور مصدق ملک کو بھی زدوکوب کیا گیا۔
15 مارچ 2021 کو لاہور میں وزیراعظم عمران خان کے معاون خصوصی شہباز گل پر ن لیگی کارکنوں نے گندے انڈے پھینکے اور سیاہی سے ان کا منہ کالا کردیا۔ شہباز گل نے کہا تھا کہ ان پر سیاہی پھینکنے والوں نے اپنے کالے کرتوتوں کی سیاہی پھینکی ہے۔
26 ستمبر 2022 کو وفاقی وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب لندن میں ایک کافی شاپ میں رکی تھیں کہ پی ٹی آئی کارکنان نے ان کے ساتھ نامناسب رویہ اپنایا، ان پر فقرے کسے گئے اور دشنام طرازی کی گئی۔
24 ستمبر 2007 کو سپریم کورٹ کے احاطہ میں محمد خورشید ایڈووکیٹ نے سینئر وکیل احمد رضا قصوری کے چہرے پر سیاہ رنگ کا اسپرے کردیا تھا۔ خورشید ایڈووکیٹ کو قصوری کا جملہ ناگوار گزرا تھا کہ ’انہوں نے ذوالفقار علی بھٹو کو کیفر کردار تک پہنچایا تھا تو یہ وکلا کیا چیز ہیں‘۔
14 نومبر 2007 کو اسلامی جمعیت طلبا نے جامعہ پنجاب میں عمران خان کے ساتھ غیر مناسب سلوک کیا۔ وہ پرویز مشرف کی جانب سے ہنگامی حالت کے نفاذ کے خلاف احتجاج کے لیے پنجاب یونیورسٹی پہنچے تھے۔ اس دوران عمران خان پر تشدد کیا گیا، انہیں گھسیٹا گیا اور بعد ازاں پولیس کے حوالے کر دیا گیا۔
8 اپریل 2008 کو سندھ اسمبلی میں پیپلز پارٹی کی خاتون ورکر نے سابق وزیراعلیٰ ارباب غلام رحیم کے چہرے پر انتہائی قریب سے جوتا ’جڑ‘ دیا تھا۔ ڈاکٹر شاہد مسعود نے دعویٰ کیا تھا کہ ارباب غلام رحیم کو مارا گیا جوتا 9 لاکھ روپے میں خریدا گیا جبکہ جوتا مارنے والی کو بھی 6 لاکھ روپے نقد دیے گئے تھے۔
8 اپریل 2008 کو ہی سابق وزیر قانون و پارلیمانی امور شیر افگن خان نیازی کے ساتھ لاہور میں وکلا نے بدسلوکی کی تھی۔ ان کے سر پر جوتا مارا گیا، گریبان سے پکڑ کر گھسیٹا اور 4 گھنٹے تک محبوس رکھا گیا تھا۔
3 نومبر 2022 کو لانگ مارچ کے دوران وزیرآباد میں چیئرمین پی ٹی آئی کے کنٹینر پر فائرنگ کا واقعہ پیش آیا، جس کے نتیجے میں ایک کارکن جاں بحق جبکہ عمران خان اور فیصل جاوید سمیت 13 افراد زخمی ہوئے تھے۔ ملزم کا کہنا تھا کہ عمران خان لوگوں کو گمراہ کر رہے ہیں۔
21 مئی 2024 کو ستارہ مارکیٹ اسلام آباد میں پاکستان تحریک انصاف کے مرکزی سیکریٹری اطلاعات رؤف حسن پر خواجہ سراؤں نے تیز دھار بلیڈ سے حملہ کیا اور موقع سے فرار ہوگئے تھے۔ بقول رانا ثنااللہ اگر بات خواجہ سراؤں تک آ گئی ہے تو پھر صُلح کرلینی چاہیے۔
5 ستمبر 2025 کو راولپنڈی میں پیش آئے انڈہ گردی کے واقعہ پر سینئر سیاستدان خواجہ سعد رفیق کی آوازِ دروں نے بروقت اور انتہائی شاندار ردِ عمل دیا کہ محترمہ علیمہ خان صاحبہ کو انڈہ مارنا شرمناک، گھٹیا پن اور بازاری حرکت کے سوا کچھ نہیں۔ یہ عمل ہر لحاظ سے قابلِ مذمت ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ محترم میاں نواز شریف پر جوتا اچھالنا اور خواجہ آصف پر سیاھی پھینکنا بھی اسی فاشسٹ سوچ کا نتیجہ تھے۔ بسترِ مرگ پر پڑیں بیگم کلثوم نواز کے اسپتال کے سامنے ہڑبونگ مچانا اور مریم اورنگ زیب پر مسجد نبوی میں حملہ بھی اسی غلیظ مائنڈ سیٹ کا شاخسانہ تھا۔
خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ احسن اقبال پر گولی چلانا قابلِ مذمت مذہبی انتہا پسندی تھی، افسوس! زہر کے بیج بو کر تریاق کا پھل نہیں کاٹا جا سکتا۔۔ ہر سطح پر اس طرزِ عمل کی حوصلہ شکنی، مذمت اور اس کے خلاف مزاحمت لازم ہے۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: اڈیالہ جیل انڈہ جوتا سیاہی علیمہ خان سے حملہ کیا احسن اقبال مارچ 2018 کو لاہور میں پی ٹی ا ئی کیا گیا کے ساتھ تھا کہ
پڑھیں:
پی ٹی آ ئی کی پرانی قیادت ’’ریلیز عمران خان‘‘ تحریک چلانے کیلیے تیار،حکومتی وسیاسی قیادت سے ملاقاتوں کا فیصلہ
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251102-01-26
لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک /صباح نیوز) پی ٹی آئی کی پرانی قیادت ’’ریلیز عمران خان‘‘ تحریک چلانے کے لیے تیار ہوگئی‘ حکومتی و سیاسی قیادت سے ملاقات کا فیصلہ کیا گیا۔ تفصیلات کے مطابق پارٹی ذرائع کا کہنا تھا کہ تحریک انصاف کی پرانی قیادت ’ ریلیز عمران خان‘ تحریک چلانے کے لیے تیار ہے، تحریک میں فواد چودھری، عمران اسماعیل، علی زیدی، محمود مولوی، سبطین خان اور دیگر رہنما موجود ہوں گے۔ تحریک انصاف کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی کو میڈیکل چیک اپ کے لیے پاکستان کڈنی اینڈ لیور انسٹیٹیوٹ (پی کے ایل آئی) اسپتال لاہور لایا گیا، جہاں پی ٹی آئی کے سابق رہنماؤں فواد چودھری، مولوی محمود اور عمران اسماعیل نے اُن سے ملاقات کی۔ذرائع نے بتایا کہ سابق قیادت نے بانی پی ٹی آئی کی رہائی کے لیے اہم فیصلے کیے، انہوں نے اسٹیبلشمنٹ سے رابطوں اور مسلم لیگ ن کی اعلیٰ قیادت سے بھی ملاقات کا فیصلہ کیا۔ اِسی طرح ملک میں سیاسی درجہ حرارت نیچے لانے کا فیصلہ کیا گیا، عمران خان سے ملاقات بھی کی جائے گی، پی ٹی آئی کی سابق قیادت شاہ محمود قریشی کی رہائی کے لیے بھی سرگرم ہے۔ ذرائع کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کی سابقہ قیادت نے شاہ محمود قریشی کو بات چیت کے ذریعے معاملات کو حل کرنے اور سیاسی درجہ حرارت نیچے لانے کے لیے قائل کرنے کی کوشش کی، شاہ محمود قریشی کو تمام تر معاملات کو حل اور درست کرنے کے کردار ادا کرنے پر گفتگو ہوئی۔پارٹی ذرائع نے بتایا کہ سابق قیادت کا مؤقف ہے کہ پی ٹی آئی کی موجودہ قیادت عمران خان کو باہر نہیں نکال سکتی‘ سابق سینیٹر اعجاز چودھری، سابق صوبائی وزیر میاں محمود الرشید اور سابق گورنر پنجاب عمر سرفراز چیمہ سے بھی ملاقات کی گئی‘ ملاقات کے دوران موجودہ سیاسی صورتحال پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا۔ فواد چودھری کی سربراہی میں 3 رکنی وفد مولانا فضل الرحمن سے بھی ملاقات کرے گا۔ فواد چودھری نے کہا کہ پی ٹی آئی سے شاہ محمود قریشی، اعجاز چودھری اور دیگر رہنماوں سے ملاقاتیں ہوئیں ہیں، پی ٹی آئی کی قیادت نے سیاسی قیدیوں کو باہر لانے کی کوشش کی تائید کی ہے۔ ’ایکس‘ پر جاری بیان میں میں سابق پی ٹی آئی رہنما نے کہا کہ حکومت کو ایک قدم بڑھانا اور پی ٹی آئی نے ایک قدم پیچھے ہٹنا ہے تاکہ ان دونوں کو جگہ مل سکے، پاکستان نے جو موجودہ بین الاقوامی کامیابیاں حاصل کیں، سیاسی درجہ حرارت زیادہ ہونے کی وجہ سے اس کا فائدہ حاصل نہیں ہو سکا۔لہٰذا جب تک یہ درجہ حرارت کم نہیں ہوتا، اس وقت تک پاکستان میں معاشی ترقی اور سیاسی استحکام نہیں آسکتا‘ اس وقت ہماری کوشش ہے کہ ایک ایسا ماحول بنایا جاسکے، جس میں کم از کم بات چیت کا راستہ کھولا جا سکے، پی ٹی آئی کے سینئر رہنما شاہ محمود قریشی، اعجاز چودھری اور باقی دوستوں کے سامنے دوران ملاقات اپنا یہی نقطہ نظر رکھا اور ہمیں خوشی ہے کہ وہ بھی اسی نقطہ نظرکے حامی ہیں۔ فواد چودھری نے مزید کہا کہ مجھے امید ہے اس کے لیے اقدامات ہوں گے، سیاسی ماحول کیسے بہتر ہوگا، وہ ایسے ہی بہتر ہو سکتا ہے کہ سیاسی قیدیوں کو ریلیف ملے، شاہ محمود قریشی کی ضمانتیں بغیر کسی وجہ کے نہیں ہو رہیں، اعجاز چودھری، یاسمین راشد، عمر چیمہ، محمود رشید، سیاسی ورکرز اور خواتین کا حق ہے کہ انہیں ضمانت ملے۔پی ٹی آئی کے سابق رہنما کا آخر میں کہنا تھا کہ (ن) لیگ کے اہم وزرا سے بات ہوئی ، وہ بھی مفاہمت کے حامی ہیں‘، ہم نے جو کوشش شروع کی ہے اگلے دو تین ہفتوں میں نتائج سامنے آنا شروع ہوں گے، یہ سارے معاملات ہوں گے تو سیاسی فضا بہتر ہوگی، عمران خان اور بشریٰ بی بی کی رہائی ممکن بنانا ہمارا بنیادی کام ہے، فوری طور پر عمران اسمٰعیل، محمود مولوی اور میں باہر نکلے ہیں، آئندہ ملاقاتوں میں آپ کو پی ٹی آئی کی مزید سینئر لیڈر شپ نظر آئی گی اور یہ ماحول مزید بہتر ہو گا۔