WE News:
2025-11-02@12:10:03 GMT

کراچی کی سڑکوں پر سفر، اب زندگی اور موت کا کھیل کیوں بن گیا؟

اشاعت کی تاریخ: 8th, September 2025 GMT

شہر کراچی کئی دہائیوں سے بنیادی سہولیات سے محروم ہے۔ یہ شہر پاکستان کا معاشی حب ہونے کے باوجود ایسے مسائل میں ڈوبا ہوا ہے جن سے روزانہ کی بنیاد پر عام شہری شدید متاثر ہورہے ہیں۔ بلکہ اگر یوں کہا جائے کہ  قیمتی جانیں گنواں رہے ہیں تو غلط نہ ہوگا۔

جناح سندھ میڈیکل یونیورسٹی کراچی سے رواں برس 26 جولائی کو مستقبل کا ڈاکٹر محتسم محمود اپنی کلاسز لینے کے بعد موٹر سائیکل پر، اردو بازار سے ہوتا ہوا گھر کے لیے روانہ ہوا لیکن راستے ہی میں ایک لوڈڈ ٹینکر جس میں چربی تھی بریک نہ لگنے کی وجہ سے اس نوجوان سے ٹکرا گیا۔ سڑک پر بے انتہا ٹریفک اور سڑک بہتر نہ ہونے کے باعث یہ نوجوان اپنی زندگی کی بازی ہار گیا۔

اس کے اہل خانہ آج بھی اسے یاد کرتے ہیں، کیوں کہ ماں باپ کو اپنی اولاد کے ایسے چلے جانے کا دکھ ہوتا ہے۔ اور معاشرہ ایک ڈاکٹر سے محروم ہوگیا۔ یہ واقعات معمول بن چکے ہیں۔ شاید شہری ایسے واقعات دیکھ دیکھ کر عادی ہو چکے ہیں۔ کچھ دیر کا احتجاج اور پھر نئے حادثے کا انتظار۔ سڑکیں بن نہیں رہیں، جو بن رہی ہیں وہ محدود مدت کے لیے ہوتی ہیں جیسا کہ جہانگیر روڈ کی مثال سب کے سامنے ہے۔

کہیں حدود کا تعین کا مسئلہ تو کہیں اختیارات کا رونا دھونا، سب کچھ پورا تو فنڈز کی کمی کی گردان۔ شہری اس حوالے سے کہتے ہیں کہ کوئی سڑک وفاق کو بنانی ہے، کسی کو کنٹونمنٹ کے ذمہ لگا دیا گیا، کسی کو ٹاؤن، تو کوئی کے ایم سی نے بنانی ہے۔ اتنے سارے ادارے ہیں لیکن نہ کوئی سڑک بن رہی ہے، نہ کوئی گلی بن رہی ہے۔ بیماریاں ہی بیماریاں ہیں اور حادثات ہی حادثات ہیں۔

شہریوں کا کہنا ہے کہ اب انہیں کسی سے کوئی امید ہے نہ ہی توقع۔ ایک شہری کا تو یہ کہنا تھا کہ ہم ان سڑکوں پر سفر کرنے کو چیلنج کی طرح لیتے ہیں۔ صبح گھر سے نکلتے ہیں، دھول مٹی، گٹر کا پانی سب کچھ پہلی نظر میں ہی مل جاتا ہے۔ اس کے بعد علاقے کی چھوٹی سڑکیں ہوں یا بڑی شاہراہیں، ان پر موجود گڑھوں  سے خود کو بچاتے بچاتے، اگر بچ کر گھر لوٹ آئیں تو اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں۔

کراچی میں مسائل کے انبار ہیں۔بہت سی سڑکیں کم و بیش 30 برس سے یا تو بنی نہیں اور اگر بنیں تو محدود مدت کے لیے۔ بات جب بھی ہوتی ہے تو کراچی کی اہم شاہراہوں کی ہوتی ہے۔ جو سڑکیں آبادیوں کے بیچ سے گزرتی ہیں ان کا کوئی پرسان حال نہیں۔ بلکہ اب تو یوں لگتا ہے جیسے یہ جنگلات میں بنے قدرتی واکنگ ٹریکس ہیں، لیکن افسوس ناک صورت حال تو یہ ہے کہ اگر ہم کراچی کی اہم شاہراہوں شارع فیصل یا آئی آئی چندریگر کی بات کریں تو ان سڑکوں پر بھی گڑھے ملیں گے، مین ہولز کے موٹر سائیکل پر ڈھکن ملیں گے جب ان سڑکوں کا یہ حال ہے تو شہر کے باقی مسائل کا اندازہ آپ خود لگا لیں کہ کیا ہوں گے۔

کچھ علاقے ایسے بھی ہیں جہاں اگر کوئی صبح کام پر نکلے، واپس گھر آنے پر شاید اسے گھر والے بھی پہچان نہ پائیں کیوں کہ دھول اڑاتی، کچی سڑکیں، انسان تو انسان یہاں گزرنے والی ہر مخلوق کا نقشہ بدل کر رکھ دے۔

شہر قائد میں آئے روز خبر ملتی ہے کہ فلاں علاقے میں ٹریفک حادثے سے، باپ بیٹی انتقال کر گئے، کام سے گھر لوٹنے والا انتقال کر گیا، کالج یونیورسٹی والا یا والی ٹریفک حادثے کا شکار ہو گئی، وجہ خراب سڑک پر اچانک بریک لگائی، کسی کو گاڑی لگی، کسی کو نہ لگی۔ مارنے والا بچانے کی کوشش کرتا رہا، مرنے والا گڑھے سے خود کو بچانے کی کوشش کرتا رہا لیکن نتیجہ موت کی صورت میں سامنے آیا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: کے لیے کسی کو

پڑھیں:

تلاش

’’ تلاش‘‘ چار حروف پر مشتمل ایک چھوٹا سا لفظ ہے مگر یہ انسان کو بہت تھکاتا ہے اور بعض اوقات خوار کر کے رکھ دیتا ہے۔ ویسے تلاش مختلف اقسام کی ہوتی ہیں لیکن اس کو اگر دو کٹیگریز میں بانٹا جائے تو ایک ’’ ظاہری تلاش‘‘ ہے اور دوسری ’’ باطنی تلاش‘‘۔

غور کیا جائے تو انسان جنت سے نکالا اور زمین پر اُتارا بھی تلاش کے باعث تھا، ابلیس کا بہکانا ہی تو حضرت آدم علیہ السلام اور بی بی حوا کو شجرِ ممنوعہ کے قریب لے گیا تھا پھر جب ربِ کائنات نے دونوں کو دنیا میں الگ الگ مقام پر اُتارا، وہاں تلاش کا دوسرا مرحلہ آیا جس میں حضرت آدم علیہ السلام اور بی بی حوا نے ایک دوسرے کو دو سو سال تک کرہ ارض پر تلاش کیا۔

انسان کی پیدائش سے موت تک تلاش اُس کے وجود سے چمٹی رہتی ہے، میرے مشاہدے کے مطابق انسان کا ہر عمل، حرکت اور اقدام کسی نہ کسی شے کی تلاش سے جُڑا ہوتا ہے، کبھی وہ تلاش دنیاوی نوعیت کی ہوتی ہے اورکبھی روحانی۔

دنیاوی تلاش دنیا کے معاملات سے منسلک ایک ایسا جذبہ انسانی ہے جو حرص و ہوس میں باآسانی تبدیل ہو کر انسان کی شخصیت میں منفی اثرات کو جنم دے سکتا ہے جب کہ روحانی تلاش خلق کو خالق سے ملانے کی سیڑھی ہے جس میں انسان اپنے مشعلِ ایمان کی مدد سے خود کا کھوج لگاتا ہے پھر خود کو پا لینے کے بعد اپنے رب میں ضم ہو جاتا ہے۔

دراصل یہاں بات ساری انسانی ترجیحات کی ہے، اگرکوئی منفی احساسات لیے دوسروں کی زندگیوں میں نظر گاڑھے اُن کے پاس موجود دنیاوی نعمتوں کو چھین کر اپنی زندگی میں لانے کے راستے تلاش کرے گا تو شاید اُسے وقتی کامیابی نصیب ہو جائے مگر دائمی اندھیروں سے اُس کو ہرگز بچایا نہیں جاسکتا ہے۔

مثبت سوچ کے ساتھ سیدھے راستے کا انتخاب انسان پر انعامات برسانے میں دیر ضرور لگاتا ہے لیکن اس تلاش کا حاصل دیرپا سکون و اطمینان کا ضامن ہوتا ہے، طویل انتظار کے بعد ملنے والی بادشاہت ہمیشہ کی فقیری سے قبل کم عرصے کی نوازشات سے لاکھ درجے بہتر ہے۔

جب انسان کو بخوبی معلوم ہوتا ہے کہ اُس کو اصل میں تلاش کس چیزکی ہے تب اُس کا اپنے ہدف کو پانے اور خواب کو حقیقت میں تبدیل کرنے کی غرض سے اختیار کیا جانے والا راستہ اُتنا پیچیدہ اور دشوار نہیں ہوتا جتنا جب انسان کو ٹھیک سے اندازہ ہی نہ ہو کہ وہ آخر تلاش کیا کر رہا ہے یا تلاش کرنا کیا چاہتا ہے، یہ انسانی کیفیت انتہائی اذیت ناک ہوتی ہے اور جو افراد اس سے گزر رہے ہیں یا ماضی میں گزر چکے ہیں، وہ جانتے ہیں کہ یہ کسی طور انگاروں پر ننگے پاؤں چلنے سے کم نہیں ہے۔

ایک انجان منزل کی جانب چلتے ہی چلے جانا، انسان کے جسم اور ذہن دونوں کو بری طرح تھکا دیتا ہے۔سب سے زیادہ انسان کو خوار اُس کی ذات کی تلاش کرتی ہے، اپنی لاپتہ روح کو تلاش کرنے میں کبھی کبھار انسان کو لطف بھی محسوس ہوتا ہے، اس کے پیچھے انسانی طبیعت میں تجسس کا عنصرکار فرما ہوتا ہے۔

کوئی انسان خود سے تب ہی جدا ہوتا ہے جب اُس کی زندگی میں کوئی ایسا حادثہ رونما ہوجائے جو اُس کے جسم کے ساتھ ساتھ روح تک کو جھنجھوڑ کر رکھ دے۔ اس وقت ہم اخلاقی اعتبار سے دنیا کے ایک بد ترین دور سے گزر رہے ہیں، جہاں مفاد پرستی انسانی طبیعت کا اہم جُز بن کر رہ گئی ہے، ہر دوسرا فرد یہاں اپنی جنت حاصل کرنے کے لیے دوسرے کی زندگی جہنم بنا رہا ہے۔

انسان گدھ کا کردار نبھاتے ہوئے جب دوسرے انسان کو جیتے جی مار ڈالے گا تو وہ اضطرابی کیفیت میں مبتلا ہو کر تاریکی کی ہی نظر ہو جائے گا۔ اضطراب کے پاتال سے باہر نکلنے کے لیے روشنی کی تلاش انسان کو اُس کے نئے آپ سے ملواتی ہے جو پہلے سے کہیں زیادہ مضبوط اور مستحکم ہوتا ہے، اس ترو تازگی سے بھرپور انسانی حالت تک صرف وہی لوگ پہنچ پاتے ہیں جن کی تلاش مثبت نوعیت کی ہو اور جو واقعی خود کو خود ترسی کی دیمک سے بچانا چاہتے ہوں۔

خود ترسی دراصل ایک ایسا خطرناک نشہ ہے جو انسان کی روح کو شل کرکے رکھ دیتا ہے، جس کو اس کی عادت پڑ جائے وہ اپنے پوٹینشل کو فراموش کرکے انسانی ہمدردیوں کی تلاش میں خود کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا کر ختم کر لیتا ہے۔

تلاش کبھی نہ ختم ہونے والا ایک ایسا سفر ہے جو انسان کو چین نہیں لینے دیتا، یہ چلتے پھرتے کرنے والا کام ہرگز نہیں ہے، ہر نوعیت اور فطرت کی تلاش انسان کی پوری توجہ مانگتی ہے۔ انسان کی زندگی میں بے شمار ایسے مواقعے آتے ہیں جب اُس کی تلاش سراب بن جاتی ہے۔

انسان جس شے کے پیچھے بھاگتے بھاگتے ہلکان ہوا جاتا تھا قریب پہنچ کر معلوم ہوتا ہے کہ اُس کی تلاش کا حاصل محض ایک دھوکا ہے کیونکہ یہ وہ ہے ہی نہیں جس کا راہ میں پلکیں بچھائے اُس کا وجود منتظر تھا۔

تلاش اگر زندگی میں بہارکی آمد کی نوید سنائے تو ایسی تلاش سر آنکھوں پر لیکن اگر یہ زندگی کے باغیچے میں موجود پھولوں کو کانٹوں میں تبدیل کر دے پھر اس سے دور رہنے میں ہی عافیت ہے۔

متعلقہ مضامین

  • کراچی میں سڑکیں ٹھیک نہیں لیکن بھاری ای چالان کیے جارہے ہیں، حافظ نعیم
  • کراچی کی سڑکوں پر گاڑی چلانے پر چالان نہیں انعام ہونا چاہیے: نبیل ظفر
  • کراچی میں  ٹوٹی سڑکیں، ای چالان ہزاروں میں، حافظ نعیم کی سندھ حکومت پر تنقید
  • یہ کیا ڈرامہ ہے سڑکیں ٹھیک نہیں اور مہنگے ای چالان کئے جارہے ہیں:حافظ نعیم
  • شہر کی سڑکیں یا کھنڈر ،شہریوں نے 60ارب ٹیکس دیا، سفر آج بھی عذاب سے کم نہیں
  • تلاش
  • ڈپریشن یا کچھ اور
  • ای چالان یورپ جیسا اور سڑکیں کھنڈر، کراچی کے شہریوں کی تنقید
  • پیپلزپارٹی نے کراچی کو برباد کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی‘پی ٹی آئی
  • سڑکیں کچے سے بدتر، جرمانے عالمی معیار کے