پارلیمان اور آئین و قانون
اشاعت کی تاریخ: 9th, September 2025 GMT
نظام عدل میں آج کل پھر خطوط اور خطابات کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔جناب جسٹس منصور علی شاہ کا خط تو منظر عام پر آچکا ہے۔جناب جسٹس اطہر من اللہ کی دو دھواں دار تقاریر بھی میڈیا میں آچکی ہیں۔ اسلام آباد ہائی کورٹ میں بھی خطوط لکھے گئے ہیں۔
ان خطوط اور تقاریر پر سب اپنے اپنے نقطہ نظر کے مطابق رائے کا اظہار کر رہے ہیں۔جہاں تک خطوط کا تعلق ہے تو سب خطوط میں چیف جسٹس صاحبان کے حوالے سے قانون اور پرسیجر کی بات کی گئی ہے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج صاحبان نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اور جسٹس منصور علی شاہ نے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے حوالے سے بات کی ہے۔ جب کہ جسٹس اطہر من اللہ کی تقاریر نے تو پورے نظام انصاف کو چارج شیٹ کیا ہے۔
سب سے پہلے خطوط کی بات کرتے ہیں، تقاریر کی بات بعد میں کرتے ہیں۔ میں ان خطوط کو خطوط کم اور پریس ریلیز زیادہ سمجھتا ہوں۔ بظاہر یہ خط نہیں لگتے ہیںبلکہ بیانات زیادہ لگتے ہیں کیونکہ یہ خط جسے لکھے جاتے ہیں، اس تک پہنچنے سے پہلے ہیں‘ میڈیا تک پہنچ جاتے ہیں۔ میری رائے میں ایسے خط لکھے ہی میڈیا کے لیے جاتے ہیںتاکہ بات سب لوگوں تک پہنچ سکے۔ اس لیے مجھے ان خطوط کے مقاصدخاصے وسیع نظر آتے ہیں۔ مجھے ایسا بھی لگتا ہے کہ یہ خطوط عدلیہ کے گندے کپڑے عوام میں دھونے کا ایک طریقہ ہے۔ اپنے ہی چیف جسٹس کے حوالے سے قانونی اور پروسیچرل بحث کو پروان چڑھانا ہے۔
میرے ایک دوست نے مجھ سے پوچھا کہ ایسے خطوط کیوں لکھے کیوں جاتے ہیںاور یہ میڈیا تک کیوں پہنچائے جاتے ہیں حالانکہ اس سارے عمل کا تعلق آئین اور قانون کے پروسیچر اور طریقہ کار سے ہے۔ میں نے اسے سمجھایا کہ یہ سب کوئی عوام کو فوری انصاف دینے کے میکنزم کے حوالے سے نہیں ہے اور نہ ہی زیر التوا مقدمات کو فوری نمٹانے کے طریقہ کار وضع کرنے پر نہیں ہے، اس کا تعلق نظام عدل کی بہتری سے بھی نہیں ہے۔ میر ے اور آپ کے مقدمہ کے جلد فیصلہ کرنے پربھی کوئی اختلاف نہیں ہے۔
یہ نہایت پیچیدہ اختلافات ہیں۔ جن کا تعلق نظام عدل سے کم اور آئینی و قانونی موشگافیوں سے زیادہ ہے۔ چیف جسٹس کی تعیناتی پر اختلاف ہے۔ فلاں کیوں بن گئے فلاں نے بننا تھا‘ اس نقطہ پر اختلاف ہے۔ چھٹیاں حاصل کرنے کے طریقہ کار پر اختلاف ہے۔ ملک سے باہر جانے کے لیے اجازت کے حوالے سے بات ہے۔ حیرانگی کی بات ہے کہ جو ججز سنیارٹی کے اصول کو نظر انداز کر کے سپریم کورٹ پہنچے وہ اب سنیارٹی کے اصول کی بالادستی کی بات کرتے ہیں۔ پرانے اوریجنل فل کورٹ کی نئی اصطلاح سامنے لائی جا رہی ہے۔
جناب جسٹس اطہرمن اللہ کی تقاریر کو لے لیتے ہیں۔ ویسے کہا جاتا ہے کہ جج کو نہیں ان کے فیصلوں کو بولنا چاہیے۔ بہر حال کبھی کبھی بولنا بھی پڑ جاتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ پاکستان کا نظام عدل ٹھیک نہیں چل رہا،اس میں اصلاحات کی ضرورت ہے لیکن اس کے لیے جد وجہد کرنے کی ضرورت ہے۔ کوئیجج اپنے منصب پر رہتے ہوئے یہ جدوجہد نہیں کر سکتا۔ البتہ وکلا ایسی جدوجہد کر سکتے ہیں اور انھیں کرنی بھی چاہیے۔
ججز بحالی کی تحریک سب کو یاد ہے لیکن اس کا مدعا بھی سسٹم کی اصلاح نہیں تھی بلکہ معذول چیف جسٹس اور ان کے ساتھی ججز کی بحالی تھی۔نظام عدل کی خرابی کو دور کرنے کے لیے جزا اور سزا کا تعین کرنا انتہائی ضروری ہے۔جب تک کوئی ادارہ جزا اور سزا کے اصول پر عمل پیرا نہیں ہوتا ‘وہ اپنا کردار درست طریقے سے ادا نہیں کر سکتا۔یقیناً جسٹس اطہر من اللہ صاحب بھی حقائق سے مکمل آگاہ ہیں۔
جنرل مشرف کے دور بھی سب کو یاد ہے‘ اس ڈکٹیٹر شپ میںکون اس کے ساتھ رہا ‘وہ چہرے بھی سب کے سامنے ہیں۔ جب جنرل مشرف کے خلاف آئین توڑنے کا مقدمہ چلانے کے لیے اسپیشل بنچ بنایا گیا تھا تو ایک حکم امتناعی بھی جاری ہوا تھا۔ جو بعدازاں سپریم کورٹ سے خارج ہوا۔بہر حال باتیں بہت ہیں لیکن ساری باتیں کی بھی نہیں جا سکتیں۔البتہ اصلاح احوال ضرور ہونی چاہئیں۔
جسٹس شوکت صدیقی کے معاملے میں کیا ہوا تھا اور ان کے بعض ساتھی ججز کا رویہ کیا تھا‘یہ بھی نظام عدل کی تاریخ کا حصہ رہے گا۔
میں سمجھتا ہوں ججز آئین وقانون کے پابند ہوتے ہیں۔ آئین سازی اور قانون سازی ان کا کام نہیںہوتا۔ آئین میں کوئی آرٹیکل یا شق مبہم ہے یا اس میں کوئی خرابی ہے تواسے درست یا ختم کرنا جوڈیشنری کی ذمے داری نہیں ہے۔ یہ پارلیمان کا کام ہے۔ پارلیمان کے پاس مینڈیٹ ہے کہ وہ آئین میں ترمیم بھی کر سکتی ہے اور آئین میں موجود کسی آرٹیکل کو ختم بھی کر سکتی ہے اور کسی آرٹیکل میں موجود ابہام یا غلطی کو درست بھی کر سکتی ہے۔
پارلیمانی نظام میں نظام عدل کو آزادی سے کام کرنا ہے تو پارلیمان کو بھی آزادی سے کام کرنا ہے۔ نظام عدل کے ذریعے آئین نہیں بدلا جا سکتا۔ اس کے لیے پارلیمانی جمہوریت سیاست کا راستہ بتاتی ہے۔سیاسی پارٹیوں کا کام ہی یہ ہے کہ وہ عوام سے مینڈیٹ لے کر پارلیمان میں آئیں اور وہاں آ کر آئین و قانون میں موجود خامیاں دور کریں ‘نئی قانون سازی کریں اور سارے نظام مملکت میں موجود جو بھی قانونی اور آئینی رکاوٹیں ہیں انھیں دور کرے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: کے حوالے سے اور ا ئین چیف جسٹس جاتے ہیں نہیں ہے کا تعلق کی بات کے لیے
پڑھیں:
انکم ٹیکس مسلط نہیں کرسکتے تو سپرکیسے کرسکتے ہیں : سپریم کورٹ
اسلام آباد (خصوصی رپورٹر) سپریم کورٹ کے جج جسٹس حسن اظہر رضوی نے سپر ٹیکس سے متعلق کیس میں ریمارکس دیئے ہیں کہ جب انکم ٹیکس مسلط نہیں کر سکتے تو سپر ٹیکس کیسے مسلط کر سکتے ہیں۔ جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں پانچ رکنی آئینی بنچ نے درخواستوں پر سماعت کی۔ ایف بی آر کی وکیل نے موقف اختیار کیا کہ مقننہ نے پروویڈنٹ فنڈ والوں کو سپر ٹیکس میں کسی حد تک چھوٹ دی ہے۔ جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دئیے سیکشن 53 ٹیکس میں چھوٹ سے متعلق ہے، فنڈ کسی کی ذاتی جاگیر تو نہیں ہوتا، ٹرسٹ اتھارٹیز سے گزارش کرتا ہے اور پھر ٹیکس متعلقہ کو دیا جاتا ہے۔ جسٹس امین الدین نے ریمارکس دئیے سپر ٹیکس کی ادائیگی کی ذمہ داری تو شیڈول میں دی گئی ہے۔ جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا جب انکم ٹیکس مسلط نہیں کر سکتے تو سپر ٹیکس کیسے مسلط کر سکتے ہیں۔ ایک مثال لے لیں کہ ابھی فنڈ پر 100 روپے ٹیکس لگتا ہے، 25 سال بعد یہ سو روپے بڑھتے بڑھتے 550 روپے ہو جائیں گے۔ مطلب یہ کہ ریٹائرمنٹ کے بعد جو فوائد ملتے ہیں وہ نہیں ملیں گے۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے موقف اپنایا سیکنڈ شیڈول میں پروویڈنٹ فنڈ پر سپر ٹیکس سمیت ہر ٹیکس پر چھوٹ ہوتی ہے۔ جسٹس جمال نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ تو آپکو محترمہ کو راستہ دکھا رہے ہیں۔ وکیل عاصمہ حامد نے موقف اپنایا مقننہ حکومت کے لیے انتہائی اہم سیکٹر ہے، ٹیکس پئیرز اسلام آباد ہائیکورٹ کے فیصلے کا ایک حصہ اور سیکشن فور سی کو اکٹھا کرکے پڑھ رہے ہیں، شوکاز نوٹس اور دونوں کو اکٹھا کر کے پڑھ کر وہ کہہ رہے ہیں کہ وہ سپر ٹیکس دینے کے پابند نہیں ہیں، جس بھی سال میں اضافی ٹیکس کی ضرورت ہو گی وہ ٹیکس ڈیپارٹمنٹ بتائے گا، ایک مخصوص کیپ کے بعد انکم اور سپر ٹیکس کم ہوتا ہے، ختم نہیں ہوتا۔ جسٹس حسن اظہر رضوی نے ریمارکس دئیے آج کل تو ہر ٹیکس پیئر کو نوٹس آ رہے ہیں کہ ایڈوانس ٹیکس ادا کریں۔ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا سپر ٹیکس ایڈوانس میں کیسے ہو سکتا ہے، ایڈوانس ٹیکس کے لیے کیلکولیشن کیسے کریں گے؟ وکیل نے موقف اختیار کیا مالی سال کا منافع موجود ہوتا ہے اس سے کیلکولیشن کی جا سکتی ہے۔ ایف بی آر کے دوسرے وکیل نے کہا کہ میں سپر ٹیکس سے متعلق قانونی اور آئینی نقطوں پر معاونت کروں گا۔