Jasarat News:
2025-11-02@01:46:17 GMT

ٹونی بلیر بیت المقدس کا محافظ؟

اشاعت کی تاریخ: 1st, November 2025 GMT

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251102-09-5

 

عارف بہار

علامہ اقبال نے ’’پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے‘‘ کا مصرع مخصوص واقعات کے مشاہدے اور تسلسل میں کہا تھا مگر پاکستان میں حکمران طبقات جس طرح اس مصرعے کو فلسطینیوں کے آنے والے ماہ وسال کے ساتھ جوڑ رہے ہیں سراسر مغالطہ آرائی اور فرضی بیانیہ سازی ہے۔ یہ پاکستانیوں کو بہلانے کا ایک سامان اور گمان ہے۔ فلسطین کی آزاد اور متوازی ریاست کے تصور کا پروانہ امریکا نے اسی وقت پھاڑ کر پھینک دیا تھا جب موجودہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکا کا سفارت خانہ تل ابیب سے بیت المقدس منتقل کیا تھا۔ اس وقت تک ایک آس اور امید موجود تھی کہ مستقبل کی آزاد فلسطینی ریاست کا دارالحکومت بیت المقدس یعنی مغربی یروشلم ہوگا۔ اسی لیے یروشلم کو تنازع فلسطین کے بین الاقوامی پروسیس کے تحت اسرائیل کا دارالحکومت بنائے جانے سے روکا گیا تھا۔ امریکا نے اپنا سفارت خانہ تل ابیب سے بیت المقدس منتقل کرکے اس تصور کو اپنے تئیں ختم کر دیا تھا۔ اب ٹرمپ تازہ دم ہو کر واپس لوٹے ہیں تو وہ اپنے نامکمل ایجنڈے کی تکمیل کی طرف تیز رفتار پیش کرتے نظر آرہے ہیں۔

نوے کی دہائی کے اوائل میں اوسلو معاہدہ بہت دھوم دھام کے ساتھ ہوا تھا۔ اسے فلسطین کے مسئلے کا حل یا طویل المیعاد حل کی جانب اہم پیش رفت کہا جارہا تھا۔ اوسلو معاہدے کو مشرق وسطیٰ کے تمام دکھوں کا علاج اور زخموں کا مرہم بنا کر پیش کیا جا رہاتھا مگر یاسر عرفات بہت بوجھل قدموں سے اوسلو کی طرف قدم بڑھارہے تھے۔ انہیں یہ اندازہ تھا کہ انہیں دنیا بھر کی آزادی کی تحریکوں کے ایک ممتاز قائد کے مقام سے اُتار کر ایک بلدیہ نما اتھارٹی کی سربراہی کے انچارج کی حیثیت دی جا رہی ہے۔ جس کا اصل کام حماس کو روکنا ہوگا۔ اسرائیل کی فوج اور پولیس کا درد سر یاسر عرفات کی فلسطینی اتھارٹی کے سر منتقل کیا گیا تھا۔ یاسر عرفات نے اس رول سے ہر ممکن طور پر خود کو بچائے رکھا اور یہی وجہ ہے کہ ایک بار ان کا ہیڈ کوارٹر راملہ اسرائیلی فوج کے ہاتھوں کھنڈرات کا ڈھیر بن گیا۔ یاسر عرفات فلسطینی اتھارٹی کے حکمران سے زیادہ راملہ کے کمپائونڈ کے قیدی بن چکے تھے۔ یوں اوسلو معاہدہ بھی ناکامی کا اشتہار بن گیا۔

دہائیوں بعد غزہ ملبے کا ڈھیر بن چکا ہے اور اس ملبے پر ایک نئی دنیا تعمیر کرنے کی تیاریاں ہو رہی ہیں۔ ایک ایسی دنیا جہاں سے اسرائیل کے لیے ہمیشہ سے ٹھنڈی ہوا کے جھونکے ہی چلتے رہیں اور بھلے سے فلسطینی لْو کے تھپیڑوں کی زد میں جھلستے رہیں۔ اب غزہ کو کنٹرول کرنے کے لیے ایک نئے کردار کی تلاش ہے یہ کردار وہ کام کرے گا جسے یاسر عرفات نے ادا کرنے سے خاموش انکار کرکے اس کی قیمت بھی چکائی تھی۔ اب دنیا کو ’’حماس فری غزہ‘‘ کا خاکہ دکھایا جا رہا ہے جس میں رنگ بھرنا ان ملکوں کی ذمے داری ٹھیری ہے جن کا مقصد ومدعا اسرائیل کو جڑ سے اکھاڑنا تھا۔ کئی ملکوں پر مشتمل اسٹیبلائزیشن فورس کے قیام کی تیاریاں ہیں جس کی قیادت برطانیہ کے سابق مشہور زمانہ وزیر اعظم ٹونی بلیر کررہے ہیں۔ ٹونی بلیر وہی ذات ِ شریف ہیں جنہوں نے عراق میں کیمیائی ہتھیاروں کی امریکی افسانہ طرازی کی ڈرامائی تشکیل میں اہم کردار ادا کیا تھا اور یوں انہوں نے عراق میں ابوغریب جیسی داستانیں رقم کرنے میں عالمی سہولت کار کا کردار ادا کیا۔ لندن کی سڑکوں پر لاکھوں افراد کے جلوس میں برطانیہ کے سفید فام صاحبان ِ ضمیر بلیر کے صدر بش کے ساتھ تعلق کو کس نام سے یاد کرتے تھے یہ بھی تاریخ کا حصہ ہے۔ انہی ٹونی بلیر کی قیادت میں انٹرنیشنل اسٹیبلائزیشن فورس کے بہت سے کاموں میں ایک اہم کام حماس کو غیر مسلح کرنا بتایا جا رہا ہے۔ گویاکہ اسرائیل کا تحفظ اب اسرائیل کی تنہا ذمے داری نہیں رہی بلکہ اب مسلمان اور غیر مسلم سبھی ملک اس کام میں شریک ہو گئے ہیں۔ وہ محافظین بھی صرف وہی ہوں گے جو اسرائیل کے این او سی کے بعد مقرر ہوں گے۔ اسرائیل جن ملکوں پر اعتماد کا اظہار کرے گا وہی اسٹیبلائزیشن فورس کا حصہ ہوں گے اب دیکھتے ہیں کہ یہ رتبہ ٔ بلند مسلم دنیا میں کس کے حصے میں آتا ہے؟

اس فورس کی تشکیل کی بنیاد بننے والے معاہدے پر اقوام متحدہ میں انسانی حقوق کی خصوصی نمائندہ برائے مقبوضہ فلسطین فرانسسکا البانیز کا کہنا ہے کہ غزہ امن منصوبہ ان کی زندگی کی بدترین توہین ہے یہ منصوبہ قانونی حیثیت رکھتا ہے نہ اخلاقی جواز۔ فرانسسکا البانیز نے برطانوی اخبار آئی پیز کے ساتھ بات چیت میں کہا کہ انہیں اس موجودہ سیاسی عمل پر کوئی اعتماد نہیں۔ بین الاقوامی قانون کی پامالی پر کوئی معاہدہ قائم نہیں کیا جا سکتا۔ مجھے ان لوگوں پر بھی اعتماد نہیں جو اس عمل کی قیادت کر رہے ہیں۔ اسرائیل ہمیشہ سے غزہ کو فلسطینیوں سے خالی کرنا چاہتا تھا موجودہ معاہدے کو جنگ بندی کہنا گمراہ کن ہے کیونکہ غزہ میں جو ہور ہا ہے وہ دو ریاستوں یا دوفوجوں کے درمیان جنگ نہیں بلکہ ایک قابض طاقت کی طرف سے مظلوم اور محصور عوام پر مسلسل جارحیت ہے۔ یہ سب نوآبادیاتی نظام کا تسلسل ہے جو جبر نسل پرستی اور استحصال پر قائم ہے۔ ایک عالمی نمائندے کے اس تبصرے کے بعد اسٹیبلائزیشن فورس کو محافظ بیت المقدس، سعادت، شرف جیسی اصطلاحات کا جامہ پہنانا خودفریبی کے سوا کچھ نہیں ہو سکتا اور خود کو اور خلق کو فریب تو دیا جاسکتا ہے مگر خدا تو ہر حرکت ارادے اور نیت سے باخبر ہے۔

عارف بہار.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: اسٹیبلائزیشن فورس بیت المقدس یاسر عرفات ٹونی بلیر کے ساتھ

پڑھیں:

اسرائیلی برتری کی خاطر غزہ میں کنٹرول شدہ تناو پر مبنی امریکی پالیسی

اسلام ٹائمز: اس صورتحال سے ایک گہری تبدیلی بھی واضح ہو جاتی ہے اور وہ اسٹریٹجک فیصلہ کا مرکز تل ابیب سے باہر منتقل ہو جانے پر مبنی ہے۔ بیرونی موثر فوجی نظارت کے باعث اسرائیلی فوج فوجی صلاحیتیں رکھنے کے باوجود نہ تو حملے اور نہ ہی جوابی کاروائی میں خودمختار نہیں ہے۔ اسرائیل کے جنوب خاص طور پر کریات گات آپریشن روم میں امریکہ موجود ہے اور وہاں ایک قسم کا ہیڈکوارٹر اور کنٹرول روم بنا ہوا ہے۔ وہیں یہ طے کیا جاتا ہے کہ اسرائیل کب، کہاں اور کس شدت سے فوجی جارحیت انجام دے گا۔ اس بارے میں اسرائیلی کابینہ کے پاس کوئی اختیار نہیں ہے بلکہ وہ ہر قسم کے سیاسی اقدام سے پہلے امریکہ کی جانب سے سبز جھنڈی دکھائے جانے کا انتظار کرتی ہے۔ امریکہ نے عملی طور پر اسرائیل کے تمام فیصلوں پر کڑی نگرانی رکھی ہوئی ہے۔ تحریر: یحیی دبوق (کالم نگار لبنانی اخبار الاخبار)
 
اگرچہ اسرائیل کی جانب سے تناو کی شدت میں حالیہ اضافہ غزہ میں جنگ بندی متزلزل ہونے کی علامت ہے لیکن متضاد طور پر غزہ کے جنوبی شہر رفح میں فائرنگ کے تبادلے پر مبنی واقعے سے غلط فائدہ اٹھا کر تناو کی شدت میں ایسے کنٹرول شدہ اضافے کی کوشش ہے جو امریکہ کی براہ راست نگرانی میں انجام پا رہی ہے۔ غزہ میں جنگ بندی محض ایک متزلزل جنگ بندی ہی نہیں ہے بلکہ وہ دراصل مدمقابل فریقوں خاص طور پر حماس کی طاقت آزمانے کا ایک میدان ہے تاکہ اسے جنگ کے ان نئے قوانین سے مطابقت دی جا سکے جو امریکہ کی جانب سے وضع کیے گئے ہیں۔ امریکی نائب صدر جے ڈی وینس کا بیان بھی اسی پیرائے میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ اس نے جنگ بندی کے "تسلسل" پر زور دیتے ہوئے پیشن گوئی کی ہے کہ اسرائیل جنگ بندی کی ہر قسم کی خلاف ورزی کا جواب دے گا۔
 
امریکی نائب صدر نے اپنے اس بیان کے ذریعے نہ صرف امریکہ کی جانب سے اسرائیل کی حمایت کا اظہار کیا ہے بلکہ ایک اسٹریٹجک نقطہ نظر بھی بیان کیا ہے جس کے مطابق جنگ کے بعد والا مرحلہ درحقیقت اسرائیل کی سیکورٹی کے حق میں نئے قوانین وضع کرنے کا ایک میدان ہے اور مقصد میدان جنگ میں طاقت کا توازن برقرار کرنا نہیں ہے۔ یہ حکمت عملی واضح طور پر زمینی حقائق میں دکھائی دے رہی ہے۔ آج اسرائیل نے غزہ کے ایسے علاقوں میں بھی اپنی فوجی موجودگی بڑھا دی ہے جہاں سے اسے جنگ بندی معاہدے کی روشنی میں فوجی انخلاء انجام دینا تھا۔ اس اقدام کو امریکہ کی اس سیاسی حمایت پر مبنی چھتری سے علیحدہ کر کے سمجھنا مشکل ہے جو اس نے اسرائیل کے لیے کھول رکھی ہے۔ یوں امریکہ نے عملی طور پر اسرائیل کو جنگ بندی کی "پابندی" کا من گھڑت معنی کرنے کی کھلی اجازت دے رکھی ہے۔
 
لہذا ہم دیکھتے ہیں کہ اسرائیل کی ہر فوجی سرگرمی کو "جائز دفاع" کا نام دے دیا جاتا ہے چاہے وہ غزہ کی پٹی میں اعلان شدہ حدود کی خلاف ورزی پر ہی کیوں نہ مشتمل ہو۔ ساتھ ہی یہ دعوی بھی کیا جاتا ہے کہ جنگ بندی کی خلاف ورزی حماس نے کی ہے۔ اس کا نتیجہ حماس اور فلسطینیوں پر ایک نابرابر صورتحال مسلط کر دینے کی صورت میں نکلتا ہے۔ یعنی ایک طرف حماس سے جنگ بندی معاہدے کی ہر شق کی پابندی کا مطالبہ کیا جاتا ہے جبکہ دوسری طرف اسرائیلی فوج کو امریکہ کی کھلی یا ڈھکے چھپے حمایت سے ان شقوں کی اپنی مرضی سے تشریح کرنے کا اختیار دے دیا جاتا ہے تاکہ وہ جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزی کے الزام سے بھی بچ جائے اور غزہ میں اپنے فوجی آپریشن کی وسعت بھی بڑھاتی چلی جائے۔
 
اس صورتحال سے ایک گہری تبدیلی بھی واضح ہو جاتی ہے اور وہ اسٹریٹجک فیصلہ کا مرکز تل ابیب سے باہر منتقل ہو جانے پر مبنی ہے۔ بیرونی موثر فوجی نظارت کے باعث اسرائیلی فوج فوجی صلاحیتیں رکھنے کے باوجود نہ تو حملے اور نہ ہی جوابی کاروائی میں خودمختار نہیں ہے۔ اسرائیل کے جنوب خاص طور پر کریات گات آپریشن روم میں امریکہ موجود ہے اور وہاں ایک قسم کا ہیڈکوارٹر اور کنٹرول روم بنا ہوا ہے۔ وہیں یہ طے کیا جاتا ہے کہ اسرائیل کب، کہاں اور کس شدت سے فوجی جارحیت انجام دے گا۔ اس بارے میں اسرائیلی کابینہ کے پاس کوئی اختیار نہیں ہے بلکہ وہ ہر قسم کے سیاسی اقدام سے پہلے امریکہ کی جانب سے سبز جھنڈی دکھائے جانے کا انتظار کرتی ہے۔ امریکہ نے عملی طور پر اسرائیل کے تمام فیصلوں پر کڑی نگرانی رکھی ہوئی ہے۔
 
اسرائیل کے حساس اداروں سے عبرانی ذرائع ابلاغ تک لیک ہونے والی معلومات سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسرائیل کے سیکورٹی ادارے مختلف قسم کے حربوں سے اپنے فیصلوں میں خودمختاری دوبارہ حاصل کرنے کے لیے سرگرم عمل ہو چکے ہیں۔ دوسری طرف اگرچہ اسرائیل میں امریکی مداخلت پر ناراضگی پائی جاتی ہے لیکن امریکہ کی کوشش ہے کہ وہ اپنے اہداف کو تل ابیب سے دشمنی نہیں بلکہ اس کے مفادات کے تحفظ کے طور پر پیش کرے۔ امریکہ نے اسرائیل کو یقین دہانی کروا رکھی ہے کہ اس کے تمام فیصلے "ایک ریاست کے طور پر اسرائیل" کے حق میں اور ان میں محض افراد کے مفادات کو مدنظر قرار نہیں دیا جاتا۔ یہ صورتحال درحقیقت اس بات کا نتیجہ ہے کہ اسرائیل امریکہ اور مغربی ممالک کی بھرپور مدد اور حمایت کے باوجود غزہ کے خلاف جنگ میں فیصلہ کن کامیابی حاصل نہیں کر پایا ہے۔
 
امریکہ اسرائیل کو اپنی مکمل اطاعت پر مجبور نہیں کر سکتا بلکہ آخرکار اسے "مشروط" طور پر سیکورٹی امور میں آزادی دینے پر مجبور ہو جائے گا۔ اس کے نتیجے میں ہم آنے والے دنوں میں بھی اسرائیل کی جانب سے جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزیوں کا مشاہدہ کریں گے۔ ایسی صورتحال میں حماس نہ صرف مشکل انتخاب سے روبرو ہو گی بلکہ عین ممکن ہے اسے بیرونی دباو کے نتیجے میں حقیقی شراکت داری سے بھی محروم ہونا پڑے۔ یوں رفح میں فائرنگ کا تبادلہ اور اس پر اسرائیل کا ردعمل ایک طے شدہ حکمت عملی کا شاخسانہ تھا جس کا مقصد جنگ کے نئے قوانین مسلط کرنا ہے۔ ایسے قوانین جن کا واضح اعلان نہیں کیا جاتا لیکن میدان جنگ میں لاگو کیے جاتے ہیں۔ ایسا مرحلہ جس کا مستقبل واضح نہیں ہے اور وہ فوجی یا سیاسی راہ حل کے بغیر طول پکڑ سکتا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • ایک ظالم اور غاصب قوم کی خوش فہمی
  • علاقائی عدم استحکام کی وجہ اسرائیل ہے ایران نہیں, عمان
  • حزب الله کو غیرمسلح کرنے کیلئے لبنان کے پاس زیادہ وقت نہیں، امریکی ایلچی
  • لبنان میں کون کامیاب؟ اسرائیل یا حزب اللہ
  • اسرائیل کی جارحیت کا اصل حامی امریکہ ہے، شیخ نعیم قاسم
  • بھارتی پراپیگنڈہ بے بنیاد، اسرائیل کو تسلیم کیا نہ فوجی تعاون زیر غور ہے: پاکستان
  • اجازت نہیں دیں گے کہ کوئی مجرم ہمیں دھمکائے، انصار اللّہ
  • پاکستانی فوج اور غزہ
  • اسرائیلی برتری کی خاطر غزہ میں کنٹرول شدہ تناو پر مبنی امریکی پالیسی