Jasarat News:
2025-11-02@10:11:18 GMT

ٹونی بلیر بیت المقدس کا محافظ؟

اشاعت کی تاریخ: 1st, November 2025 GMT

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

علامہ اقبال نے ’’پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے‘‘ کا مصرع مخصوص واقعات کے مشاہدے اور تسلسل میں کہا تھا مگر پاکستان میں حکمران طبقات جس طرح اس مصرعے کو فلسطینیوں کے آنے والے ماہ وسال کے ساتھ جوڑ رہے ہیں سراسر مغالطہ آرائی اور فرضی بیانیہ سازی ہے۔ یہ پاکستانیوں کو بہلانے کا ایک سامان اور گمان ہے۔ فلسطین کی آزاد اور متوازی ریاست کے تصور کا پروانہ امریکا نے اسی وقت پھاڑ کر پھینک دیا تھا جب موجودہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکا کا سفارت خانہ تل ابیب سے بیت المقدس منتقل کیا تھا۔ اس وقت تک ایک آس اور امید موجود تھی کہ مستقبل کی آزاد فلسطینی ریاست کا دارالحکومت بیت المقدس یعنی مغربی یروشلم ہوگا۔ اسی لیے یروشلم کو تنازع فلسطین کے بین الاقوامی پروسیس کے تحت اسرائیل کا دارالحکومت بنائے جانے سے روکا گیا تھا۔ امریکا نے اپنا سفارت خانہ تل ابیب سے بیت المقدس منتقل کرکے اس تصور کو اپنے تئیں ختم کر دیا تھا۔ اب ٹرمپ تازہ دم ہو کر واپس لوٹے ہیں تو وہ اپنے نامکمل ایجنڈے کی تکمیل کی طرف تیز رفتار پیش کرتے نظر آرہے ہیں۔

نوے کی دہائی کے اوائل میں اوسلو معاہدہ بہت دھوم دھام کے ساتھ ہوا تھا۔ اسے فلسطین کے مسئلے کا حل یا طویل المیعاد حل کی جانب اہم پیش رفت کہا جارہا تھا۔ اوسلو معاہدے کو مشرق وسطیٰ کے تمام دکھوں کا علاج اور زخموں کا مرہم بنا کر پیش کیا جا رہاتھا مگر یاسر عرفات بہت بوجھل قدموں سے اوسلو کی طرف قدم بڑھارہے تھے۔ انہیں یہ اندازہ تھا کہ انہیں دنیا بھر کی آزادی کی تحریکوں کے ایک ممتاز قائد کے مقام سے اُتار کر ایک بلدیہ نما اتھارٹی کی سربراہی کے انچارج کی حیثیت دی جا رہی ہے۔ جس کا اصل کام حماس کو روکنا ہوگا۔ اسرائیل کی فوج اور پولیس کا درد سر یاسر عرفات کی فلسطینی اتھارٹی کے سر منتقل کیا گیا تھا۔ یاسر عرفات نے اس رول سے ہر ممکن طور پر خود کو بچائے رکھا اور یہی وجہ ہے کہ ایک بار ان کا ہیڈ کوارٹر راملہ اسرائیلی فوج کے ہاتھوں کھنڈرات کا ڈھیر بن گیا۔ یاسر عرفات فلسطینی اتھارٹی کے حکمران سے زیادہ راملہ کے کمپائونڈ کے قیدی بن چکے تھے۔ یوں اوسلو معاہدہ بھی ناکامی کا اشتہار بن گیا۔

دہائیوں بعد غزہ ملبے کا ڈھیر بن چکا ہے اور اس ملبے پر ایک نئی دنیا تعمیر کرنے کی تیاریاں ہو رہی ہیں۔ ایک ایسی دنیا جہاں سے اسرائیل کے لیے ہمیشہ سے ٹھنڈی ہوا کے جھونکے ہی چلتے رہیں اور بھلے سے فلسطینی لْو کے تھپیڑوں کی زد میں جھلستے رہیں۔ اب غزہ کو کنٹرول کرنے کے لیے ایک نئے کردار کی تلاش ہے یہ کردار وہ کام کرے گا جسے یاسر عرفات نے ادا کرنے سے خاموش انکار کرکے اس کی قیمت بھی چکائی تھی۔ اب دنیا کو ’’حماس فری غزہ‘‘ کا خاکہ دکھایا جا رہا ہے جس میں رنگ بھرنا ان ملکوں کی ذمے داری ٹھیری ہے جن کا مقصد ومدعا اسرائیل کو جڑ سے اکھاڑنا تھا۔ کئی ملکوں پر مشتمل اسٹیبلائزیشن فورس کے قیام کی تیاریاں ہیں جس کی قیادت برطانیہ کے سابق مشہور زمانہ وزیر اعظم ٹونی بلیر کررہے ہیں۔ ٹونی بلیر وہی ذات ِ شریف ہیں جنہوں نے عراق میں کیمیائی ہتھیاروں کی امریکی افسانہ طرازی کی ڈرامائی تشکیل میں اہم کردار ادا کیا تھا اور یوں انہوں نے عراق میں ابوغریب جیسی داستانیں رقم کرنے میں عالمی سہولت کار کا کردار ادا کیا۔ لندن کی سڑکوں پر لاکھوں افراد کے جلوس میں برطانیہ کے سفید فام صاحبان ِ ضمیر بلیر کے صدر بش کے ساتھ تعلق کو کس نام سے یاد کرتے تھے یہ بھی تاریخ کا حصہ ہے۔ انہی ٹونی بلیر کی قیادت میں انٹرنیشنل اسٹیبلائزیشن فورس کے بہت سے کاموں میں ایک اہم کام حماس کو غیر مسلح کرنا بتایا جا رہا ہے۔ گویاکہ اسرائیل کا تحفظ اب اسرائیل کی تنہا ذمے داری نہیں رہی بلکہ اب مسلمان اور غیر مسلم سبھی ملک اس کام میں شریک ہو گئے ہیں۔ وہ محافظین بھی صرف وہی ہوں گے جو اسرائیل کے این او سی کے بعد مقرر ہوں گے۔ اسرائیل جن ملکوں پر اعتماد کا اظہار کرے گا وہی اسٹیبلائزیشن فورس کا حصہ ہوں گے اب دیکھتے ہیں کہ یہ رتبہ ٔ بلند مسلم دنیا میں کس کے حصے میں آتا ہے؟

اس فورس کی تشکیل کی بنیاد بننے والے معاہدے پر اقوام متحدہ میں انسانی حقوق کی خصوصی نمائندہ برائے مقبوضہ فلسطین فرانسسکا البانیز کا کہنا ہے کہ غزہ امن منصوبہ ان کی زندگی کی بدترین توہین ہے یہ منصوبہ قانونی حیثیت رکھتا ہے نہ اخلاقی جواز۔ فرانسسکا البانیز نے برطانوی اخبار آئی پیز کے ساتھ بات چیت میں کہا کہ انہیں اس موجودہ سیاسی عمل پر کوئی اعتماد نہیں۔ بین الاقوامی قانون کی پامالی پر کوئی معاہدہ قائم نہیں کیا جا سکتا۔ مجھے ان لوگوں پر بھی اعتماد نہیں جو اس عمل کی قیادت کر رہے ہیں۔ اسرائیل ہمیشہ سے غزہ کو فلسطینیوں سے خالی کرنا چاہتا تھا موجودہ معاہدے کو جنگ بندی کہنا گمراہ کن ہے کیونکہ غزہ میں جو ہور ہا ہے وہ دو ریاستوں یا دوفوجوں کے درمیان جنگ نہیں بلکہ ایک قابض طاقت کی طرف سے مظلوم اور محصور عوام پر مسلسل جارحیت ہے۔ یہ سب نوآبادیاتی نظام کا تسلسل ہے جو جبر نسل پرستی اور استحصال پر قائم ہے۔ ایک عالمی نمائندے کے اس تبصرے کے بعد اسٹیبلائزیشن فورس کو محافظ بیت المقدس، سعادت، شرف جیسی اصطلاحات کا جامہ پہنانا خودفریبی کے سوا کچھ نہیں ہو سکتا اور خود کو اور خلق کو فریب تو دیا جاسکتا ہے مگر خدا تو ہر حرکت ارادے اور نیت سے باخبر ہے۔

عارف بہار.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: اسٹیبلائزیشن فورس بیت المقدس یاسر عرفات ٹونی بلیر کے ساتھ

پڑھیں:

حماس کی جانب سے واپس کیے گئے اجسام یرغمالیوں کے نہیں،اسرائیل کا دعویٰ

 اسرائیلی حکام نے کہا ہے کہ حماس کی جانب سے واپس کیے گئے تین افراد کے اجسام کسی بھی لاپتہ اسرائیلی یرغمالی سے مطابقت نہیں رکھتے۔ غیر ملکی خبر رساں ادارے یو پی آئی کے مطابق یہ باقیات جمعے کی شب بین الاقوامی ریڈ کراس کے ذریعے غزہ سے اسرائیل منتقل کی گئیں، جس کے بعد تل ابیب میں فرانزک ٹیسٹ کیے گئے۔

اسرائیلی حکام کا کہنا ہے کہ یہ اجسام ان 11 یرغمالیوں میں سے کسی کے نہیں جنہیں اب بھی غزہ میں قید رکھا گیا ہے۔

القصام بریگیڈز نے اپنے بیان میں کہا کہ “دشمن نے نمونے وصول کرنے سے انکار کیا اور مکمل لاشوں کے حوالے کا مطالبہ کیا۔” گروپ کے مطابق وہ اسرائیلی زیرِ قبضہ علاقے، جسے “یلّو لائن” کہا جاتا ہے، میں موجود یرغمالیوں کی لاشوں کی تلاش جاری رکھے ہوئے ہیں اور ریڈ کراس سے اس سلسلے میں مزید سہولیات فراہم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

انٹرنیشنل کمیٹی آف ریڈ کراس (ICRC) نے واضح کیا ہے کہ وہ لاشوں کی تلاش میں حصہ نہیں لیتی بلکہ بین الاقوامی انسانی قانون کے مطابق فریقین ہی مردہ افراد کی تلاش، جمع آوری اور واپسی کے ذمہ دار ہیں۔

سیزفائر معاہدے کے بعد سے حماس اب تک 17 یرغمالیوں کی لاشیں واپس کر چکی ہے۔ معاہدے کے تحت تمام ہلاک شدہ یرغمالیوں کی واپسی 72 گھنٹوں کے اندر ہونی تھی، تاہم اب تک صرف چار لاشیں واپس کی گئی ہیں، جب کہ بیس زندہ یرغمالیوں کو رہائی دی جا چکی ہے۔

دوسری جانب اسرائیل نے جمعے کے روز جنگ بندی کے معاہدے کے تحت 30 فلسطینی قیدیوں کی لاشیں واپس کر دیں۔

 

(ذرائع: یو پی آئی، ٹائمز آف اسرائیل، فوکس نیوز، جیرُوسلم پوسٹ)

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

متعلقہ مضامین

  • غزہ و لبنان، جنگ تو جاری ہے
  • اسرائیل کے بارے میں امریکیوں کے خیالات
  • غزہ سے موصول لاشیں قیدیوں کی نہیں ہیں، اسرائیل کا دعویٰ اور غزہ پر تازہ حملے
  • حماس کی جانب سے واپس کیے گئے اجسام یرغمالیوں کے نہیں،اسرائیل کا دعویٰ
  • ایک ظالم اور غاصب قوم کی خوش فہمی
  • لبنان میں کون کامیاب؟ اسرائیل یا حزب اللہ
  • نوکری سے نکالنے پر ملازم نے بریانی سینٹر کے مالک پر فائرنگ کردی
  • اسرائیل کی جارحیت کا اصل حامی امریکہ ہے، شیخ نعیم قاسم
  • پاکستانی فوج اور غزہ