سائنس دانوں کی حیران کن دریافت: نظروں سے اوجھل نئی طاقتور اینٹی بائیوٹک ڈھونڈ لی
اشاعت کی تاریخ: 1st, November 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
ویانا: سائنس دانوں نے ایک حیران کن دریافت کی ہے، ایک نیا اینٹی بائیوٹک جو پچاس سال سے موجود تھا لیکن ہر کسی کی نظروں سے اوجھل تھا۔
یہ نیا مرکب ”پری میتھلینومائسن سی لیکٹون“ (Pre-methylenomycin C lactone) کہلاتا ہے۔ ماہرین نے بتایا کہ یہ مشہور اینٹی بایوٹک ”میتھلینومائسن اے“ بننے کے عمل کے دوران قدرتی طور پر بنتا ہے، مگر اب تک اسے نظرانداز کیا جاتا رہا۔
یہ تحقیق یونیورسٹی آف واراِک اور موناش یونیورسٹی کے سائنس دانوں نے مشترکہ طور پر کی اور اسے جرنل آف دی امریکن کیمیکل سوسائٹی (جے اےسی ایس) میں شائع کیا گیا ہے۔
یونیورسٹی آف واراِک اور موناش یونیورسٹی سے وابستہ پروفیسر گریگ چالس کے مطابق، ’میتھلینومائسن اے کو 50 سال قبل دریافت کیا گیا تھا۔ اگرچہ اسے کئی بار مصنوعی طور پر تیار کیا گیا، لیکن کسی نے اس کے درمیانی کیمیائی مراحل کو جانچنے کی زحمت نہیں کی۔ حیرت انگیز طور پر ہم نے دو ایسے درمیانی مرکبات شناخت کیے، جو اصل اینٹی بایوٹک سے کہیں زیادہ طاقتور ہیں۔ یہ واقعی حیرت انگیز دریافت ہے۔‘
اس تحقیق کی شریک مصنفہ اور یونیورسٹی آف واراِک کی اسسٹنٹ پروفیسر،ڈاکٹر لونا الخلف نے کہا، ’سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ نیا اینٹی بایوٹک اسی بیکٹیریا میں پایا گیا ہے جسے سائنس دان 1950 کی دہائی سے بطور ماڈل جاندار استعمال کرتے آرہے ہیں۔ اس جانی پہچانی مخلوق میں ایک بالکل نیا طاقتور مرکب ملنا کسی معجزے سے کم نہیں۔‘
تحقیق سے پتا چلا ہے کہ شروع میں S.
ماہرین کے مطابق، یہ دریافت نہ صرف نئے اینٹی بایوٹکس کی تلاش میں ایک اہم پیش رفت ہے بلکہ اس بات کی یاد دہانی بھی کراتی ہے کہ پرانے تحقیقی راستوں اور نظرانداز شدہ مرکبات کا دوبارہ جائزہ لینا نئی دواؤں کے لیے نیا دروازہ کھول سکتا ہے۔
ذریعہ: Jasarat News
پڑھیں:
پہلی جنگ عظیم کے پیغامات والی بوتل صدی بعد Wharton ساحل پر دریافت
ایک صدی پرانی یادیں حال ہی میں Wharton، مغربی آسٹریلیا کے ساحل پر سامنے آئیں، جب پہلی جنگ عظیم کے دوران سمندر میں پھینکی گئی ایک بوتل دریافت ہوئی۔ یہ بوتل دو آسٹریلوی فوجیوں کی جانب سے اس وقت سمندر میں بھیجی گئی تھی جب وہ فرانس میں جنگ لڑنے کے لیے روانہ ہو رہے تھے۔
پیٹر براؤن اور ان کی بیٹی فیلیسیٹی ساحل کی صفائی کر رہے تھے جب انہیں یہ بوتل ملی۔ پیٹر کی اہلیہ ڈیب براؤن نے بتایا،ہم نے ساحل پر بہت کام کیا ہے اور کبھی بھی کچرے کو نظر انداز نہیں کیا، شاید یہ بوتل صدیوں سے ہمارا انتظار کر رہی تھی۔
بوتل کے اندر دو خطوط موجود تھے، جنہیں فوجیوں میلکم نیویل اور ولیم ہارلے نے 15 اگست 1916 کو لکھا تھا۔ یہ دونوں فوجی ایڈیلیڈ، جنوبی آسٹریلیا سے 12 اگست کو روانہ ہوئے تھے اور فرانس میں 48 ویں آسٹریلین انفنٹری بٹالین میں شامل ہونے جا رہے تھے۔
بدقسمتی سے، میلکم نیویل ایک سال بعد جنگ میں ہلاک ہوگئے، جبکہ ولیم ہارلے دو بار زخمی ہونے کے بعد زندہ رہے اور 1934 میں کینسر کے باعث انتقال کر گئے۔
میلکم نیویل نے اپنے پیغام میں لکھا تھا کہ جو بھی یہ بوتل پائے، براہ کرم یہ خط اس کی والدہ تک پہنچا دے۔ انہوں نے لکھا:میرا وقت اچھا گزر رہا ہے، کھانا بھی اچھا ہے، جہاز کا سفر مشکل ہے مگر ہم خوش ہیں۔
ولیم ہارلے نے اپنی طرف سے لکھا کہ وہ Bight کے قریب ہیں اور بوتل ڈھونڈنے والا اس خط کو اپنے پاس رکھ سکتا ہے۔
ڈیب براؤن کے مطابق، یہ بوتل زیادہ طویل سفر نہیں کر سکی اور صدیوں تک ساحل کے ریتیلے ٹیلوں میں دفن رہی۔ حالیہ مہینوں میں Wharton کے ساحل پر ریت کے حجم میں کمی کے باعث یہ بوتل سامنے آ گئی۔ بوتل کے اندر موجود کاغذ گیلے تھے، لیکن خطوط اب بھی پڑھنے کے قابل تھے۔
یہ دریافت دونوں فوجیوں کے رشتہ داروں کے لیے حیرت انگیز لمحہ ثابت ہوئی۔ ولیم ہارلے کی پڑپوتی این ٹرنر نے کہا،ہمیں یقین نہیں آیا، یہ تو کسی کرشمے جیسا محسوس ہوتا ہے، جیسے پڑ دادا ہم سے رابطہ کر رہے ہوں۔
میلکم نیویل کے خاندان نے بھی اس دریافت کو “ناقابل یقین” قرار دیا اور کہا کہ اس نے خاندان کو ایک ساتھ جمع کر دیا ہے۔