Express News:
2025-11-02@03:12:43 GMT

تاریخ کی نئی سمت

اشاعت کی تاریخ: 2nd, November 2025 GMT

ایک امیدکی کرن تھی، غزہ کا امن معاہدہ کہ اس کے بعد جنگ کے بادل چھٹ جائیں گے، مگر ایسا لگ نہیں رہا ہے۔ غزہ امن معاہدے کے فوراً بعد امریکا نے روسی تیل کمپنیوں پر پابندی عائد کردی، یوں ٹرمپ اور پیوتن کے مابین ہنگری میں ہونے والی ملاقات ملتوی ہوگئی۔

پیوتن صاحب اس خوش فہمی کا شکار تھے کہ پچھلے دورکا صدر ٹرمپ واپس آئے گا لیکن ایسا نہ ہوسکا کیونکہ صدر ٹرمپ جو پہلے روس کے ساتھ اچھے تعلقات کا خواہاں تھا، تھک گیا اور اب وہ یوکرین کے ساتھ اسی طرح کھڑے ہیں جیسے جوبائیڈن کھڑا تھا۔

نیٹو آج بھی یوکرین کے ساتھ ہے۔ روس کی تیل کمپنیوں پر امریکی پابندی کے بعد، ہندوستان نے اندرونی طور پر امریکا کو یہ یقین دلایا ہے کہ وہ روس سے تیل نہیں خریدیں گے اور ایسا ہی وعدہ چین نے بھی کیا ہے، توکیا ایسا کہنا درست ہوگا کہ جو اتحاد چین نے امریکا کے خلاف بنایا تھا۔ 

لگ بھگ دو مہینے قبل تقریباً تیس ممالک کے سربراہان کی بیجنگ میں میزبانی کی وہ اس امیج کو برقرار نہ رکھ سکا۔ البتہ چین کی تیز رفتار ٹیکنالوجی نے امریکا کو پریشان ضرورکردیا ہے۔ مصنوعی ذہانت کی ٹیکنالوجی میں امریکا کے بعد چین ہی سب سے بڑا نام ہے۔ اس سال کی سب سے بڑی خبر یہ ہے کہ صدر ٹرمپ اور چین کے صدرکی ملاقات ہے۔

اس منظر نامے میں روس اب نیوکلیئر جنگ کی دھمکیاں دے رہا ہے۔ روس کا یہ اسٹیٹمنٹ دنیا کو ایک خطرناک موڑ پر لاسکتا ہے اور ایسا ہو بھی رہا ہے۔ روس کبھی یہ بیان جاری کرتا ہے کہ انھوں نے اپنے ایٹمی میزائلوں کا رخ برطانیہ کے مخصوص شہروں کی طرف کردیا ہے، پھر وہ جرمنی کو اپنا سب سے بڑا دشمن قرار دیتے ہیں۔

نیٹو اور یورپین یونین کی تیاری مکمل ہے اگر روس نے کوئی پہل کی۔ کچھ ہی دن قبل روس کے ڈرون نے پولینڈ کی سرحدیں پارکیں اور ایک دو دن پہلے ہی نیٹو نے یورپین یونین کی حدود میں داخل ہوتا روس کا ڈرون مارگرا یا۔

ہندوستان اور پاکستان کشیدگی میں اب افغانستان بھی حصہ دار بن گیا ہے ۔ ہم نے جو ماضی میں غلطیاں کی تھیں، ان سے ہم سبق تو ضرور سیکھ رہے ہیں لیکن وقت بہت گزر چکا ہے۔ پاکستان کے بارے میں یہ خیال آرائی کی جاتی ہے کہ اندرونی مسائل کے باعث جنگ جھیل نہیں سکے گا اور (خاکم بدہن) پاکستان ٹکڑوں میں بٹ جائے گا۔

یہ تمام خیالات افغان پالیسی سے جڑے تھے۔ جس طرح سے انگریز یہاں اپنے وفاداروں کو جاگیریں بطور انعام بانٹتے تھے، اسی طرح سے ہم نے بھی افغانوں اور ان کے پاکستانی ہم نشینوں اور حامی شرفاء کی ایک نسل تیارکی جنھیں پڑھایا اور یقین دلایا گیا کہ افغانستان کبھی غلام نہیں رہا اور افغان جنگجو قوم ہے۔

ہم نے یہاں مدرسوں میں افغانوں اور پاکستانیوں کی ایک ایسی نسل تیارکی جوکل تک سائیکل چلاتے تھے اور آج درجنوں مسلح محافظوں کے ہجوم میں لگژری گاڑیوں اورڈالوں پر سواری کرتے ہیں ۔

افغان پالیسی کا دیمک ہمیں اندرونی طور پر لگا،اب ہمارے ہر شہر، قصبوں اور گاؤں میں ان کے مفادات کا تحفظ کرنے والے لوگ موجود ہیں، افغان تو حکومت افغانستان میں کرتے تھے، ان کے کاروبار پاکستان میں تھے اور وہ رہتے بھی پاکستان میں تھے۔

پاکستان کے خلاف قوتیں جہاں بھی موجود تھیں، وہاں ہندوستان نے اپنے مراسم بڑھائے۔ ہندوستان نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات بڑھائے ، جب ٹرمپ صاحب نے اپنے کارڈزکھیلے تو پتا چلا کہ دوست کو ن اور دشمن کون! جو دوست بن کرکام کررہے تھے، وہ ڈبل گیم کھیل رہے تھے ۔

فرض کریں کہ اگر امریکا کی پالیسی ہندوستان کے حوالے سے اب بھی ویسی ہی ہوتی جیسی کہ جوبائیڈن کے دورِ میں تھی تو یقیناً پاکستان آج بہت مشکل میں ہوتا ، آج پاکستان کے ساتھ امریکا بھی ہے اور چین بھی۔ سعودی عرب کے ساتھ پاکستان کے تعلقات ہمیشہ ہی اچھے رہے لیکن اب ان میں مزید مضبوطی پیدا ہوئی ہے۔

اپنی صف میں ہم نے دراصل ایک دشمن کی پہچان کی ہے۔ وہ دشمن جو بھائی بنا رہا لیکن اب ہندوستان کی گود میں بیٹھا ہے ۔ اور طالبان کو یہ سمجھ آگیا ہے کہ اگر وہ حدیں پارکرتا ہے تو پاکستان ان کی حکومت کو ختم کرسکتا ہے۔ اب ہندوستان میں آنے والے انتخابات میں مودی کی شکست واضح نظر آرہی ہے ۔

ہندوستان کے اندر متبادل قیادت ابھرنے والی ہے۔ ہندوستان اور پاکستان دونوں برِصغیر ہیں، دونوں کی تاریخ ایک ہے، دونوں نے حملہ آوروں کا مقابلہ کیا ہے، لہٰذا دونوں ممالک کے درمیان امن ہونا چاہیے۔ دونوں ممالک کے درمیان جنگ میں دنیا خوش ہوگی لیکن دونوں ممالک کی عوام نہیں۔ افغانستان بھی امن کے ساتھ رہنا چا ہتا ہے، ’ہاں‘ اگر طالبان اور انتہاپسند افغانستان کا ماضی بن جائیں۔

مودی صاحب جو ہندوستان کو دنیا کی چوتھی طاقت بنانا چاہتا تھا وہ اب ہندوستان کی معیشت کے لیے خود مسئلہ بن چکے ہیں۔ یہ بات درست ہے کہ نریندر مودی کے دور میں ہندوستان کی معیشت مضبوط ہوئی مگر اب ہندوستان کی تجارت کو مشکلات کا سامنا ہے اور وجہ ہے امریکا کی ناراضگی۔

گزشتہ تین چار برسوں میں پاکستان نے اپنی خارجہ پالیسی میں بڑی کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ بہتری کے حوالے سے ہماری معیشت نے وہ ٹارگٹ تو حاصل نہیں کیا لیکن مستحکم ضرور ہوئی ہے اور ترقی کی رفتار بھی بہتر ہے۔

افغانستان والے گوریلا وار کے ماہر ہیں۔ وہ پاکستان کے ساتھ روایتی جنگ نہیں لڑ سکتے۔ ہندوستان کا افغانستان کے ساتھ مل کر جنگ لڑنا آسان نہیں۔ جنگ کے لیے جذبہ ہونا لازمی ہے اور اس حوالے سے ہندوستان کی فوج بہت کمزور ہے۔

اسی جذبے کی تحت پاکستان کے افواج آج دنیا میں سرخرو ہیں۔ مودی صاحب کی ہٹ دھرمی کو ٹرمپ صاحب ایک ہی وار میں توڑ دیا۔ یہ چرچا پوری دنیا میں عام ہے۔ہندوستان نے اپنے اتحادیوں کو بری طرح سے نالاں کیا ہے، جن پتوں پر ان کو ناز تھا آج وہ ہی پتے ہوا دینے لگے۔

نادرن افغانستان، محمد شاہ مسعود اب ہماری طرف دیکھ رہے ہیں۔ ایک لبرل اور اعتدال پسند افغانستان کی نگاہیں ہم پر مرکوز ہیں۔ ہمیں ان ماڈرن افغانستان کی بات کرنے والی قوتوں کی حوصلہ افزائی کرنی ہوگی۔

پاکستان کی سیاست میں ایک نئی فالٹ لائن پیدا ہوئی ہے۔ موجودہ حکومت یقینا ایک ہائبرڈ گورنمنٹ ہے اور بری حکمرانی ہے سکہ رائج الوقت لیکن اس وقت کوئی نعم البدل نہیں اور اگر ہے بھی تو تباہی ہے،کیونکہ ان کے تانے بانے بھی طالبان سے ملتے ہیں۔

نو مئی کا واقعہ یا اسلام آباد پر حملے ان تمام کاروائیوں میں افغان بھی ملوث تھا۔نئے بین الاقوامی اتحاد بن بھی رہے ہیں اور ٹوٹ بھی رہے ہیں۔ یوکرین کی جنگ کے تناظر میں یہاں بہت کچھ بدل گیا ہے۔

ٹیکنالوجی اور مصنوعی ذہانت کے اس دور میں ہمیں اپنی بقاء کے لیے اتنی ہی تیزی سے تبدیلیاں لانی ہونگی۔ یقینا پاکستان آگے بڑھے گا، بہ شرط کہ ہم اپنی تاریخ کی سمت درست کریں۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: تلاش اب ہندوستان ہندوستان کی ہندوستان نے پاکستان کے رہے ہیں نے اپنے کے ساتھ ہے اور

پڑھیں:

خلائی تاریخ میں نیا باب: پاکستانی خلاباز چین کے مشن میں شامل

دنیا بھر میں خلائی تحقیق کے میدان میں تیزی سے پیش رفت ہو رہی ہے، اور اب پاکستان بھی اس دوڑ میں ایک نیا قدم اٹھانے جا رہا ہے۔ چین کے تعاون سے پاکستان کا پہلا خلا باز جلد ہی خلا کی وسعتوں کا رخ کرے گا۔چین نے اعلان کیا ہے کہ ایک پاکستانی خلا باز جلد ہی مختصر دورانیے کے خلائی مشن میں حصہ لے گا۔ خلائی مشن کے ترجمان، ژانگ جِنگبو نے پریس کانفرنس میں بتایا کہ دو پاکستانی خلا باز کو چینی خلا باز وں کے ساتھ تربیت دی جائے گی. جن میں سے ایک کو مختصر مدت کے خلائی سفر کے لیے منتخب کیا جائے گا۔ترجمان کے مطابق پاکستانی خلا باز کے انتخاب کا ابتدائی مرحلہ پاکستان میں مکمل کیا جا رہا ہے، جبکہ دوسرا اور حتمی مرحلہ چین میں ہوگا۔ اس مشن کے دوران پاکستانی خلا باز معمول کے خلائی کاموں کے ساتھ ساتھ پاکستان کی جانب سے سائنسی تجربات بھی انجام دے گا۔چین اور پاکستان نے رواں سال فروری میں خلا کے شعبے میں تعاون کے معاہدے پر دستخط کیے تھے، جس کے بعد پاکستان کے پہلے خلا باز کے چینی خلائی اسٹیشن پر مشن میں شامل ہونے کی راہ ہموار ہوئی۔دونوں ممالک نے حالیہ برسوں میں خلائی تعاون کو مزید مضبوط کیا ہے۔ جنوری میں پاکستان اور چین نے ایک میمورنڈم آف اَنڈر اسٹینڈنگ یا مفاہمتی یادداشت پر دستخط کیے.جس کے تحت پاکستان کا لُونر رُو وَر چین کے چانگ ای 8 مشن کے ساتھ 2028 میں چاند کے جنوبی قطب پر بھیجا جائے گا۔ یہ گاڑی سپارکو نے تیار کی ہے. جس میں پاکستانی، چینی اور یورپی سائنس دانوں کے تیار کردہ آلات نصب ہوں گے۔پاکستانی سائنس دان زمین سے اس لُونر رُو وَر یا چاند گاڑی کو کنٹرول کریں گے اور چاند کی سطح کا نقشہ تیار کرنے، مٹی کا تجزیہ کرنے اور تابکاری کے مطالعے جیسے تجربات کریں گے۔

اس سے قبل 2024 میں پاکستان نے اپنے پہلے قمری سیٹلائٹ آئی کیوب کیو کے ذریعے چاند کی کھوج میں حصہ لیا تھا، جو انسٹی ٹیوٹ آف اسپیس ٹیکنالوجی کے طلبا نے چین کی شانگھائی جیاو تونگ یونیورسٹی کے اشتراک سے تیار کیا تھا۔ یہ سیٹلائٹ چین کے چانگ ای 6 مشن کے ذریعے چاند کے مدار میں بھیجا گیا تھا، جس نے چاند کی تصاویر لینے اور مقناطیسی میدان کے مطالعے میں اہم کردار ادا کیا۔

متعلقہ مضامین

  • افغان حکومت بھارتی حمایت یافتہ دہشتگردی کی سرپرست ہے، وزیر دفاع خواجہ آصف
  •  افغانستان کے ساتھ مذاکرات کے نتیجے تک سب کچھ معطل رہےگا
  • دو ہزار سکھ یاتریوں کی پاکستان آمد، بھارتی حکومت کو سانپ سونگھ گیا
  • افغانستان سے کشیدگی نہیں،دراندازی بند کی جائے، دفتر خارجہ
  • افغانستان کے ساتھ مؤثر مکینزم تشکیل دینے پر اتفاق ہوگیا ہے، وزیر مملکت طلال چوہدری
  • طالبان رجیم کو پاکستان میں امن کی ضمانت دینا ہو گی، وزیر دفاع: مزید کشیدگی نہیں چاہتے، دفتر خارجہ
  • پاکستان افغانستان کے ساتھ مزید کشیدگی نہیں چاہتا، ترجمان دفتر خارجہ
  • خلائی تاریخ میں نیا باب: پاکستانی خلاباز چین کے مشن میں شامل
  • ہمیں افغانستان کو ساتھ ملانا چاہیے تھا بجائے کہ وہ بھارت جاتا، فضل الرحمان