مسی سپی، لاپتا پالتو کتیا 5 سال بعد مالکن کو مل گئی
اشاعت کی تاریخ: 2nd, November 2025 GMT
امریکی ریاست مسی سپی کے شہر لیوسڈیل سے تقریباً 5 سال قبل لاپتا ہونے والی ننھی کتیا بالآخر فلوریڈا کے شہر ڈی لینڈ سے مل گئی، جہاں سے اس کی اصل مالکن تک پہنچنے میں مدد ملی۔
پینی نامی یہ کتیا، جو چیہواہوا اور ڈاکسنڈ نسل کا ملاپ ہے، کرسٹی ٹیلر کے گھر سے غائب ہوئی تھی۔ دن، مہینے اور سال گزر گئے مگر پینی کا کوئی سراغ نہ ملا، یہاں تک کہ 21 اکتوبر کو اسے فلوریڈا کی ایک سڑک پر ٹریفک سے بچتے دیکھا گیا۔
یہ بھی پڑھیں: انگلینڈ: جنگل میں 6 سال مفروری کاٹنے والا کتا بالآخر ڈھونڈ لیا گیا
بریانا رائیڈ آؤٹ اور ان کے بوائے فرینڈ ڈینیئل لنوچی نے پینی کو اپنے گھر لے جا کر اس کی دیکھ بھال کی اور سوشل میڈیا پر اس کی مالکن کی تلاش شروع کی۔
چند روز بعد جب اسے مقامی شیلٹر لے جایا گیا تو وہاں مائیکرو چِپ اسکین سے معلوم ہوا کہ یہ کتیا 520 میل دور لیوسڈیل سے لاپتا رپورٹ ہوئی تھی۔
یہ اطلاع ملنے پر کرسٹی ٹیلر فلوریڈا پہنچیں اور کئی سال بعد پینی سے دوبارہ مل گئیں۔ ٹیلر کے مطابق پینی بالکل ٹھیک حالت میں ہے اور لگتا ہے کہ اس کی اچھی دیکھ بھال کی گئی۔
یہ بھی پڑھیں: نیویارک میں پالتو جانوروں کا کھانا چرانے والا نقاب پوش ریکون نکلا
ٹیلر نے بتایا کہ پینی پہلے سے کچھ موٹی ہو چکی ہے اور اس کا وزن بڑھ گیا ہے، لیکن وہ خوش ہیں کہ ان کی پالتو ساتھی صحیح سلامت گھر واپس آگئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ وہ بہت شکر گزار ہیں کہ پینی کو اس عرصے میں محفوظ رکھا گیا اور آخرکار وہ اپنی اصل مالکن تک پہنچ گئی۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
we news امریکا ڈی لینڈ فلوریڈا کتیا مالکن مسی سپی.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: امریکا ڈی لینڈ فلوریڈا کتیا مالکن مسی سپی
پڑھیں:
ڈپٹی ڈائریکٹر این سی سی آئی اے لاپتا کیس میں کرپشن الزامات، حیران کن موڑ سامنے آ گیا
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اسلام آباد: این سی سی آئی اے کے ڈپٹی ڈائریکٹر عثمان کی گمشدگی اور کرپشن الزامات کا کیس ایک نیا اور ڈرامائی موڑ اختیار کر گیا ہے۔
نجی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ میں ہونے والی سماعت کے دوران ایسے انکشافات سامنے آئے جنہوں نے معاملے کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔ عدالت میں پولیس، وکیلِ صفائی اور درخواست گزار کی جانب سے پیش کیے گئے دلائل نے اس کیس کے مختلف پہلوؤں پر کئی سوالات اٹھا دیے ہیں۔
سماعت کے دوران ڈی ایس پی لیگل ساجد چیمہ نے عدالت کو بتایا کہ ڈپٹی ڈائریکٹر عثمان کے خلاف باقاعدہ کرپشن کیس درج ہو چکا ہے، ان کی گرفتاری عمل میں آچکی ہے اور ان کا بیان بھی ریکارڈ کیا گیا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ عثمان نے خود اپنے تحریری بیان میں تسلیم کیا کہ وہ جاری انکوائری کے باعث روپوش تھے۔ پولیس کے مطابق عثمان پر الزام ہے کہ انہوں نے ایک مشہور ٹک ٹاکر سے 15 کروڑ روپے رشوت لی تھی۔
درخواست گزار کی جانب سے پیش ہونے والے وکیل رضوان عباسی نے اس مؤقف کو چیلنج کرتے ہوئے عدالت میں مؤقف اختیار کیا کہ عثمان کو 15 دن تک غیر قانونی طور پر حراست میں رکھا گیا اور بعد ازاں گرفتاری ظاہر کی گئی۔
انہوں نے مؤقف اختیار کیا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے دائرہ اختیار سے عثمان کو اغوا کیا گیا اور ان کی گرفتاری بعد میں ظاہر کر کے قانونی کارروائی کا لبادہ اوڑھا گیا۔ انہوں نے عدالت کو بتایا کہ عثمان کے دستخط زبردستی لیے گئے اور ان کے تحریری بیان کی ہینڈ رائٹنگ بھی ان سے مطابقت نہیں رکھتی۔
وکیل نے الزام لگایا کہ اغوا کے شواہد موجود ہیں، جن میں ایک ویڈیو بھی شامل ہے جس میں واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے کہ چار افراد نے عثمان کو اسلام آباد سے اغوا کیا۔ یہ کوئی انوکھا واقعہ نہیں بلکہ ایک عام طریقہ کار بنتا جا رہا ہے کہ پہلے کسی کو اٹھا لیا جاتا ہے اور بعد میں اس کی گرفتاری ظاہر کر دی جاتی ہے۔
سماعت کے دوران جسٹس اعظم خان نے ریمارکس دیے کہ چونکہ اب مقدمہ درج ہو چکا ہے اور عثمان جسمانی ریمانڈ پر ہے، اس لیے عدالت کے لیے اسے یہاں طلب کرنا ممکن نہیں، تاہم وکیل نے مؤقف اپنایا کہ چونکہ واقعہ اسلام آباد کے دائرہ اختیار میں پیش آیا، اس لیے ہائی کورٹ کو معاملے پر سماعت کا حق حاصل ہے۔
دوسری جانب پولیس نے عدالت سے استدعا کی کہ چونکہ ملزم کے خلاف باقاعدہ انکوائری اور ایف آئی آر دونوں موجود ہیں، اس لیے بازیابی کی درخواست کو نمٹا دیا جائے۔ وکیلِ صفائی نے مؤقف اختیار کیا کہ اگر عثمان نے واقعی رشوت لی ہے تو قانون کے مطابق کارروائی ضرور کی جائے، مگر کسی شہری کو اغوا کر کے یا غیر قانونی طور پر حراست میں رکھ کر انصاف کے تقاضے پورے نہیں کیے جا سکتے۔
دلائل مکمل ہونے کے بعد عدالت نے کیس کا فیصلہ محفوظ کرلیا ہے۔