data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
پاکستان میں ہر سال ہزاروں نوجوان یونیورسٹیوں سے فارغ التحصیل ہوتے ہیں۔ ان کے دلوں میں خواب ہیں، ذہنوں میں جوش ہے، اور ہاتھوں میں ڈگریاں ہیں جو ان کے خیال میں روشن مستقبل کی ضمانت ہیں۔ مگر چند ماہ بعد یہی نوجوان جب عملی دنیا کے دروازے پر پہنچتے ہیں تو حقیقت ان کے خوابوں کو جھلسا دیتی ہے۔ ملازمتیں کم، مواقع محدود، اور مایوسی عام ہے۔ اس صورتحال کا سب سے بڑا سبب تعلیم کی کمی نہیں، بلکہ تعلیم اور عملی تقاضوں کے درمیان گہری خلیج ہے — ایک ایسی خلیج جس نے پاکستان کی ترقی کی رفتار کو ماند کر دیا ہے۔
اعداد و شمار اس بحران کی سنگینی کو واضح کرتے ہیں۔ ایک حالیہ تحقیق کے مطابق پاکستان کے 30 فیصد سے زائد گریجویٹس بے روزگار ہیں، جب کہ 78 فیصد آجر اس بات پر متفق ہیں کہ نئے فارغ التحصیل طلبہ میں بنیادی مہارتیں — جیسے کہ بات چیت، ٹیم ورک، اور مسئلہ حل کرنے کی صلاحیت — نہ ہونے کے برابر ہیں۔ مزید یہ کہ 63 فیصد نوجوان چھ ماہ کے اندر اپنی تعلیم سے مطابقت رکھنے والی نوکری حاصل کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔ یہ اعداد محض اعداد نہیں، بلکہ اس المیے کی علامت ہیں کہ ہمارا تعلیمی نظام علم تو دے رہا ہے مگر عمل کے قابل افراد پیدا نہیں کر رہا۔
پاکستان کی معیشت ایک ایسے دوراہے پر کھڑی ہے جہاں اس کے نوجوانوں کی توانائی ہی اس کی اصل قوت بن سکتی ہے۔ لیکن اگر یہ توانائی روزگار کے مواقع نہ پائے تو یہی طاقت بوجھ بن جاتی ہے۔ اس مسئلے کی جڑ محض تعلیمی نہیں بلکہ انتظامی نوعیت کی ہے۔ یونیورسٹیاں پرانے نصاب، فرسودہ تدریسی طریقوں اور تھیوری پر مبنی نظام میں الجھی ہوئی ہیں، جب کہ صنعت دنیا کے بدلتے ہوئے تقاضوں کے مطابق آگے بڑھ چکی ہے۔ نتیجتاً، ہماری درسگاہیں وہ نہیں سکھاتیں جو بازارِ کار مانگتا ہے، اور ہماری صنعت ان مہارتوں کے لیے ترس رہی ہے جو جامعات فراہم نہیں کر رہیں۔
یہ فرق صرف نصاب کا نہیں بلکہ سوچ اور ترجیحات کا ہے۔ اچھی مینجمنٹ وہی ہے جو تمام اسٹیک ہولڈرز — یونیورسٹیاں، صنعت، حکومت، اور ہائر ایجوکیشن کمیشن — کے درمیان ربط پیدا کرے۔ بدقسمتی سے ہمارے ادارے اس ربط سے محروم ہیں۔ یونیورسٹیاں اپنے محدود وسائل میں علمی برتری پر زور دیتی ہیں، مگر عملی مطابقت کو نظرانداز کر دیتی ہیں۔ دوسری طرف صنعت طویل المدتی سرمایہ کاری کے بجائے فوری نتائج کی خواہش رکھتی ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ نہ تعلیم روزگار سے جڑتی ہے، نہ نوجوانوں کی صلاحیتیں معیشت میں ڈھل پاتی ہیں۔
دنیا میں کئی ممالک نے اس خلا کو دانشمندی سے پُر کیا ہے۔ جرمنی میں تعلیم اور فنی تربیت ایک ساتھ دی جاتی ہے تاکہ طالبعلم نظریہ اور عمل دونوں سیکھیں۔ سنگاپور نے “SkillsFuture” پروگرام کے ذریعے ہر چند سال بعد نصاب کو مارکیٹ کی ضرورتوں سے ہم آہنگ کرنے کا نظام بنایا۔ فن لینڈ اور نیدرلینڈز میں جامعات اور صنعتیں مشترکہ تحقیقی منصوبوں پر کام کرتی ہیں، جس سے تحقیق براہِ راست معیشت کی خدمت میں آ جاتی ہے۔
پاکستان میں بھی کچھ روشن مثالیں موجود ہیں۔ لاہور کی یونیورسٹی آف مینجمنٹ اینڈ ٹیکنالوجی اور کراچی کی بحریہ یونیورسٹی نے کاروباری انکیوبیشن مراکز قائم کیے ہیں جہاں طلبہ کو اپنے خیالات کو عملی منصوبوں میں ڈھالنے کا موقع ملتا ہے۔ ان اداروں کے کئی طلبہ نے ڈیجیٹل مارکیٹنگ، نیٹ ورکنگ اور توانائی کے شعبوں میں کامیاب اسٹارٹ اپ قائم کیے۔ سرگودھا یونیورسٹی نے چین کی تیانجن یونیورسٹی کے ساتھ مل کر زرعی تحقیق اور سپلائی چین مینجمنٹ میں تعاون کے منصوبے شروع کیے، جس کے نتیجے میں ایسے بیج تیار ہوئے جنہوں نے پیداوار میں نمایاں اضافہ کیا۔ یہ مثالیں اس بات کا ثبوت ہیں کہ جب تعلیم اور صنعت ساتھ چلیں تو ترقی ناگزیر ہے۔
تاہم یہ کوششیں تاحال محدود اور بکھری ہوئی ہیں۔ ملک کی زیادہ تر جامعات اب بھی پرانے نصاب پر چل رہی ہیں، انٹرنشپس کو لازمی نہیں سمجھا جاتا، اور اساتذہ مارکیٹ کی ضروریات سے واقف نہیں۔ دوسری طرف صنعت بھی تعلیمی اداروں سے شراکت داری کو اپنی ترجیحات میں شامل نہیں کرتی۔ یہی وہ خلا ہے جسے پر کرنے کے لیے نئی سوچ درکار ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ جامعات اپنے نصاب کو ہر دو سے تین سال بعد اپ ڈیٹ کریں، نصاب سازی میں صنعتی ماہرین کو شامل کیا جائے، اور تدریس کو محض نظریاتی لیکچرز کے بجائے مسئلہ حل کرنے، کیس اسٹڈی، اور عملی تجربات پر مبنی بنایا جائے۔ اساتذہ کو صنعتوں کے ساتھ تحقیق میں شامل ہونے کے مواقع دیے جائیں، اور طلبہ کے لیے انٹرن شپ کو لازمی قرار دیا جائے۔
اسی طرح صنعت کو بھی یہ سمجھنا ہوگا کہ نوجوانوں میں سرمایہ کاری خیرات نہیں، بلکہ مستقبل کی سرمایہ کاری ہے۔ اگر کمپنیاں تحقیق، لیبارٹریوں اور تربیتی پروگراموں میں سرمایہ لگائیں تو یہی سرمایہ ہنر مند افرادی قوت کی شکل میں انہیں واپس ملے گا۔
ریاست کا کردار بھی کلیدی ہے۔ حکومت ٹیکس مراعات، تحقیقاتی فنڈز، اور اختراعی منصوبوں کے لیے گرانٹس فراہم کرے تاکہ تعلیم و صنعت کے درمیان تعاون فروغ پائے۔ بیوروکریسی کی رکاوٹیں کم کی جائیں اور تعلیمی اداروں کے لیے پالیسیوں کو عمل کے قابل بنایا جائے۔
دنیا تیزی سے ایک ایسے دور میں داخل ہو رہی ہے جہاں علم اور ہنر ہی حقیقی طاقت ہیں۔ وہی قومیں کامیاب ہوں گی جو اپنی نوجوان نسل کو تعلیم کے ساتھ ساتھ عمل کے قابل بنائیں گی۔ پاکستان کے پاس نوجوان آبادی کی صورت میں ایک قیمتی سرمایہ موجود ہے۔ اگر ہم نے اس صلاحیت کو ضائع ہونے دیا تو یہ المیہ ہوگا، لیکن اگر ہم نے تعلیم اور صنعت کو ایک دوسرے کے قریب کر دیا تو یہی نسل ملک کی تقدیر بدل سکتی ہے۔
جب تعلیمی ادارے اپنے بند دروازے کھول کر عملی دنیا سے جڑیں گے، اور صنعت تعلیم کو اپنا حقیقی شراکت دار تسلیم کرے گی، تب ہی پاکستان وہ “آگ” روشن کر سکے گا جس کا ذکر شاعر نے کیا تھا —
ایک ایسی آگ جو علم، ہنر اور ترقی کی روشنی سے اس سرزمین کو منور کر دے گی۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: تعلیم اور اور صنعت کے لیے
پڑھیں:
جان سینا نے ڈبلیو ڈبلیو ای کیریئر میں اہم ترین اعزاز حاصل کرلیا
مشہور ریسلر اور ہالی ووڈ اسٹار جان سینا نے ڈبلیو ڈبلیو ای کیریئر کا اہم ترین اعزاز حاصل کرلیا۔
غیر ملکی خبررساں ادارے کے مطابق جان سینا نے ڈبلیو ڈبلیو ای را میں ڈومینیک مسٹیریو کو شکست دے کر پہلی مرتبہ انٹرکونٹی نینٹل ٹائٹل جیت لیا۔
HE DID IT!!!!
JOHN CENA IS INTERCONTINENTAL CHAMPION! ???? pic.twitter.com/wx2m4bXYUg
اپنے 23 سالہ ڈبلیو ڈبلیو ای کیریئر میں پہلی مرتبہ انٹرکونٹی نینٹل چیمپئن شپ جیت کر جان سینا نے کیریئر کا گرینڈ سلیم مکمل کرلیا۔
THE CHAMP IS HERE!!!!! ????
JOHN CENA IS A GRAND SLAM CHAMPION! pic.twitter.com/a8lUcO44M9
ڈبلیو ڈبلیو ای گرینڈ سلیم مکمل کرنے کے لیے کیریئر میں کم از کم ایک مرتبہ یونائیٹڈ اسٹیٹ چیمپئن شپ، ٹیگ ٹیم چیمپئن شپ، انٹر کونٹینٹل چیمپئن شپ اور ڈبلیو ڈبلیو چیمپئن شپ کا ٹائٹل جیتنا ہوتا ہے۔
ریکارڈ 17 بار ڈبلیو ڈبلیو ای چیمپئن رہنے والے جان سینا گرینڈ سلیم مکمل کرنے والے 25ویں ریسلر بن گئے ہیں۔
ان سے قبل شان مائیکل، ٹرپل ایچ، رومن رینز، سیٹھ رولنز اور رومن رینز سمیت دیگر ریسلرز بھی یہ اعزاز حاصل کرچکے ہیں۔