Jasarat News:
2025-11-14@00:15:55 GMT

تجدید ِ عہد،فریضۂ اقامتِ دین

اشاعت کی تاریخ: 14th, November 2025 GMT

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

”وہ اللہ ہی ہے جس نے اپنے رسولؐ کو ہدایت اور دینِ حق کے ساتھ بھیجا ہے، تاکہ اس کو پوری جنسِ دین پر غالب کردے اور اس حقیقت پر اللہ کی گواہی کافی ہے“ (الفتح: 28)۔
جو آیت آپ کے سامنے تلاوت کی ہے، یہ معروف اور جانی پہچانی آیات میں سے ہے۔
مولانا مودودیؒ نے جس وقت دعوتِ انقلاب لوگوں کے سامنے رکھی، اس وقت ایک بڑی تعداد ایسے بزرگوں کی تھی جنھوں نے بعدازاں اس موضوع پر بڑی وضاحت سے لکھا۔ تب دعوت کے لیے استعمال ہونے والی اصطلاح ’اقامتِ دین‘ تھی۔ اسی زمانے میں مولانا مودودی کے علاوہ کچھ دوسرے لوگ بھی مختلف پیرایے میں اور مختلف انداز سے یہی دعوت پیش کر رہے تھے، اور وہ بڑے جانے پہچانے بزرگوں میں شمار ہوتے تھے۔ ایک طبقہ بڑی قوت سے یہ بات کہہ رہا تھا کہ: ’’ہم نے قرآن کو چھوڑ دیا ہے، اس کی طرف توجہ نہیں کرتے۔ اس کی دعوت کو عام نہیں کرتے۔ حالانکہ ہم سب اس بات کو جانتے ہیں کہ قرآن کے بغیر یہ دعوت کچھ بھی نہیں‘‘۔ پھر ہمارے اسی معاشرے میں ’حکومتِ الٰہیہ‘ کی بات بھی ہوتی تھی۔ نظامِ اسلامی کا ذکر ہوتا تھا اور ایک عرصہ گزرنے کے بعد نظامِ مصطفےٰؐ کی بات بھی چلی۔ مراد یہ ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ عنوانات بدلتے رہے، تاہم دین کی بات کی جاتی رہی اور دین کی ضرورت کا احساس بڑے طبقے تک پہنچانے کی کوشش کی جاتی رہی۔
لیکن اب کئی عشروں سے صورتِ حال اس طرح ہے کہ جو لوگ ’اقامتِ دین‘ کی اصطلاح استعمال کرتے تھے اور بڑے پیمانے پر اس کے لیے نفوذ کے راستے تلاش کرتے تھے، اور لوگوں تک پہنچ کر ان کے دلوں پر دستک دیتے تھے، ان کی ایک بڑی تعداد آج کچھ اور عنوانات سے زیادہ متاثر ہوتی نظر آتی ہے۔

عنوانات یا نعرے کچھ بھی ہوں اصل کام تو ہے: غلبۂ دین اور اقامتِ دین۔ حقیقت تو یہ ہے کہ جب دین غالب ہوگا، حقیقی معنوں میں اسلامی انقلاب اُسی وقت برپا ہوگا۔ اس کے لیے ناگزیر ہے کہ کردار سازی کی جائے، نئے عنوانات کے ذریعے لوگوں کو ربّ کی طرف بلانے کا اہتمام کیا جائے۔ کیوں کہ وقت گزرنے کے ساتھ اس طرف دعوت دینے میں کمی پیدا ہوئی ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ بہت سے لوگ اس بات کو صحیح طور پر سمجھنے کی کوشش بھی نہیں کرتے کہ اقامتِ دین کا مطلب کیا ہے؟
اس بات کی یاد دہانی اور تذکیر درحقیقت بہت اہم ہے اور ضرورت ہے کہ ہمارے اجتماعی معاملات میں اقامتِ دین کا جو عمل دخل ہوتا تھا، اسے اَزسرِنو تازہ کیا جائے۔ جب یہ تحریک برپا کی گئی، اُس وقت مولانا مودودیؒ کے قریبی رفیق اور بلندپایہ عالم دین مولانا صدرالدین اصلاحی مرحوم (م:13 نومبر 1998ء) نے تین بنیادی کتب لکھی تھیں: فریضہ اقامتِ دین، اساسِ دین کی تعمیر اور حقیقت نفاق۔ بعد میں انھوں نے نسبتاً آسان زبان میں ایک اور کتاب لکھی: اسلام ایک نظر میں!
جب اسلامی جمعیت طلبہ کا کوئی کارکن رکنیت کی درخواست دیتا تھا تو اسے یہ تین کتابیں ابتدا ہی میں سبقاً سبقاً پڑھائی جاتی تھیں۔ اگرچہ ان کی زبان دقیق تھی، لیکن ذہن سازی کے لیے یہ نہایت مؤثر استدلال فراہم کرتی تھیں ۔ ان کو مطالعاتی مجالس (study circles) کے ذریعے ذہن نشین کیا جاتا تھا اور پھر کارکن پُراعتماد ہوکر ایک ایک طالب علم، ایک ایک نوجوان تک اور اگر ممکن ہوتا تو دس آدمیوں کی مجلس میں پورے یقین کے ساتھ مدّعا بیان کرتا تھا کہ جب تک غلبۂ دین نہیں ہوگا تو کوئی کام نہیں ہوسکتا۔ اس کی بات سن کر لوگ حیران ہوتے تھے کہ اس کو کہاں سے یہ بات معلوم ہوئی ہے؟
میں یہ سمجھتا ہوں کہ اس سفر کو وہیں سے دوبارہ شروع کرنا ہوگا، جہاں سے بظاہر ختم ہوگیا تھا۔ اس قافلۂ حق میں جو اہلِ علم اور پڑھے لکھے لوگ ہیں، ان کی یہ ذمے داری ہے کہ اقامتِ دین، اساسِ دین اور اسلامی انقلاب کے کاموں کو سرفہرست رکھ کر ان پر بات کریں اور صحیح معنوں میں فہم دین پیدا کرنے میں کارکنوں کی مدد کریں اور انھیں رہنمائی فراہم کریں۔ دین کی وسعتوں اور پہنائیوں سے لوگوں کو آگاہ کریں۔ جب تک کارکنوں کے اندر دین کی ہمہ پہلو اُمنگ پیدا نہ ہو، اس وقت تک اس کام سے غفلت نہ برتی جائے۔

اس لیے خود جماعت اسلامی، اسلامی جمعیت طلبہ اور دیگر برادر تنظیموں کو اپنے تربیتی اور تنظیمی دائروں میں اور دعوت کے عنوانات میں فریضۂ اقامت دین کی بحث کو اَزسرنو اُٹھانا ہوگا۔ ہمارے اندر ایک بڑی تعداد ایسے اہلِ علم کی موجود ہے، جو اس موضوع پر مطالعاتی حلقوں (اسٹڈی سرکلز) کا اہتمام کرسکتے ہیں، اور اس طرح لوگوں کو آگاہ کرسکتے ہیں کہ کلمہ لا الٰہ الا اللہ کا مطلب کیا ہے؟ ہمیں کلمۂ طیبہ کے پیغام اور اس کے تقاضوں کو ذہن نشین کرنا اور کرانا ہے کہ اس کے بغیر دین کا کام ممکن نہیں۔
یہ جو ہم اکثر اپنے گردو پیش کے حالات پر تبصرہ کرتے ہیں، ان تبصروں میں بہت سی باتیں بڑی معقول اور نہایت سنجیدہ اور بہت کچھ کر گزرنے کا عنوان اپنے اندر سموئے ہوتی ہیں۔ ہمارے ہاں اہلِ علم کی ایک بڑی تعداد موجود ہے، جس نے مولانا مودودی کو پڑھا اور سمجھا ہے اور فی الحقیقت لوگوں تک پہنچنے کے لیے دعوتی موضوعات اور عنوانات کی کہکشاں سجائی ہے۔ ان کو اپنی سطح پر یہ کام شروع کر دینا چاہیے۔
جن لوگوں نے اسلامی انقلاب کے نعرے کو سمجھ لیا ہے انھیں بھی یہ سمجھنا ہوگا کہ اسلامی انقلاب کا نعرہ تو بہت پُرکشش ہے اور سننے والوں کے دلوں میں گرمی اور سوز پیدا کرتا ہے۔ لیکن اس کی روح، بنیاد اور تقاضوں کو سمجھنا نعروں کی گونج سے زیادہ ضروری ہے۔ مگر بہرحال یہ بات سمٹتی، سکڑتی اور محدود ہوتی جارہی ہے۔
کل جس لمحۂ تاریخ میں اقامتِ دین کے حوالے سے بات کی گئی تھی، آج کا یہ عہد اُس سے بھی زیادہ اس کا مستحق ہے کہ اس پیغام کو تر وتازہ کیا جائے۔ دلوں کے اندر اس کے پیغام کو سمویا جائے، سوتوں کو جگایا جائے اور فی الحقیقت اقامتِ دین کی اصطلاح کو نووارد رفقا تک پہنچانے کے لیے جس توجہ اور دماغ سوزی کی ضرورت ہے، اس کا اہتمام کیا جائے۔

 

سیّد منور حسن گلزار.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: اسلامی انقلاب مولانا مودودی ایک بڑی تعداد کیا جائے کے ساتھ ا ہوگا کے لیے کی بات اور اس دین کی

پڑھیں:

سیاست کے بجائے مل کر کراچی کو سنبھالیں

سندھ میں حکمران پیپلز پارٹی نے بڑی کوشش اور کامیاب منصوبہ بندی کے ذریعے پہلی بار کراچی میں اپنا میئر منتخب کرا لیا تھا جب کہ کراچی میں 13 ٹاؤن چیئرمینوں کا تعلق بھی پیپلز پارٹی سے ہے جب کہ بلدیہ عظمیٰ کراچی کی یونین کونسلوں میں پیپلز پارٹی کو اکثریت حاصل نہیں ہے اور پی پی نے پی ٹی آئی کے یوسی چیئرمینوں کے تعاون سے اپنا میئر منتخب کرا لیا تھا جس پر وہ بہت خوش تھی اور پی ٹی آئی اگر جماعت اسلامی سے مل جاتی تو دونوں مل کر اپنا میئر اور ڈپٹی میئر منتخب کرانے کی پوزیشن میں تھیں۔ ان دونوں جماعتوں نے آپس میں اتحاد نہ کر کے کراچی میں اپنا میئر لانے کا موقع گنوا دیا۔

اگر یہ سیاسی رنجشیں دور کر کے اتحاد کر لیتے تو آج کراچی میں میئر پیپلز پارٹی کا ہونے کے بجائے پی ٹی آئی اور جماعت اسلامی کا مشترکہ امیدوار ہوتا۔ مشرف دور میں بننے والے کراچی کے میئر نعمت اللہ کا تعلق جماعت اسلامی سے تھا ‘ انھوں نے کراچی کی ترقی کے لیے مثالی کام کیے ‘ انھوں نے جس خلوص سے کراچی کی خدمت کی وہ آج بھی یاد رکھی جاتی اور اس کی مثالیں دی جاتی ہیں۔ اگر آج بھی کراچی کا میئر جماعت اسلامی سے ہوتا تو ممکن ہے کراچی کے حالات وہ نہ ہوتے جو آج نظر آ رہے ہیں۔

ممکن ہے کراچی کا نظام بہت بہتر ہوتا اور لوگوں کو صفائی اور دیگر مسائل کے حوالے سے جو شکایات پیدا ہو رہی ہیں وہ نہ ہوتیں۔ایم کیو ایم نے اپنی سیاست کے تحت بلدیاتی الیکشن کا بائیکاٹ کیا تھا، اور فروری 2024 کے الیکشن میں سب سے زیادہ قومی و صوبائی اسمبلی کی نشستیں حاصل ہوئی تھیں۔

کراچی میں 13 ٹاؤن میونسپل کارپوریشن پیپلز پارٹی، 9 جماعت اسلامی اور 4 پی ٹی آئی کے پاس ہیں اور ایم کیو ایم، جے یو آئی کے پاس کسی یوسی کی بھی نشست نہیں ہے اور میونسپل سیاست پی پی، جماعت اسلامی اور پی ٹی آئی کے پاس ہے مگر پی ٹی آئی نہ جانے کیوں خاموش ہے جب کہ جماعت اسلامی کے کراچی کے امیر اور پی پی کے میئر ایک دوسرے پر الزام تراشیوں میں مصروف رہتے ہیں اور تنقید کا کوئی موقعہ جانے نہیں دیتے۔

ایم کیو ایم کی طرف سے اس کے سندھ اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر پیپلز پارٹی اور جماعت اسلامی کے میئر اور ٹاؤن چیئرمینوں کی کارکردگی پر تنقید کرتے ہیں جس کا جواب صوبائی وزرا شرجیل میمن اور ناصر حسین شاہ دیتے ہیں۔ جماعت اسلامی کے 9 چیئرمینوں کے برعکس جماعت اسلامی کراچی کے امیر میونسپل سیاست میں زیادہ متحرک ہیں جن کی میئر کراچی پر الزام تراشی معمول ہے۔

ایم کیو ایم کی طرف سے سندھ حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت اپنے ہی میئر کراچی کو اختیارات دے جس نے اب تک میئر کراچی کو اختیارات نہیں دیے جو انھیں ملنے چاہئیں کیونکہ اب ان کا اپنا میئر ہے جب کہ 1979 کے بلدیاتی الیکشن کے بعد سے کراچی کا میئر جماعت اسلامی اور ایم کیو ایم کے منتخب ہوا کرتے تھے اور 2008 سے سندھ حکومت نے میئر کراچی کے اختیارات سلب کر رکھے ہیں جب کہ اب سندھ حکومت کو اپنے میئر کو زیادہ سے زیادہ اختیارات اور کے ایم سی کو زیادہ سے زیادہ فنڈز دینے چاہئیں۔

بلدیہ عظمیٰ کراچی کے میئر مشیر قانون حکومت سندھ، سندھ حکومت کے ترجمان اور کچھ عرصہ کے ایم سی کے ایڈمنسٹریٹر رہے ہیں اور وہ اپنے اختیارات کا استعمال سابق میئروں کے مقابلے میں زیادہ کر لیتے ہیں مگر اپنی حکومت سے وہ اختیارات نہیں مانگتے جو 14-A کے تحت میئر کو ملنے چاہئیں۔

جماعت اسلامی کے 9 چیئرمین اور جماعت اسلامی کے علاقائی عہدیدار مل کر دن رات ایک ہو کر کام کر رہے ہیں اور میئر کراچی اور سندھ حکومت پر تنقید اور الزامات لگانے کی ذمے داری امیر جماعت کراچی نے سنبھالی ہوئی ہے۔ پیپلز پارٹی کراچی کے صدر سعید غنی اپنی وزارت چلانے میں ہی مصروف رہتے ہیں اور ان کا ایک بھائی ٹاؤن چیئرمین بھی ہے اور سعید غنی کا تعلق کراچی سے ہے۔ پی پی کراچی کے عہدیداروں اور میئر کراچی میں وہ تعلق نظر نہیں آتا جو جماعت اسلامی کے چیئرمینوں اور عہدیداروں کے درمیان ہے۔

کراچی کی بدقسمتی کہ کراچی کی نمایندگی کی دعویدار جماعتیں کراچی کو سنبھالنے اور کراچی کے مسائل مل کر حل کرانے کے بجائے صرف سیاست کر رہی ہیں۔ پیپلز پارٹی کی خوش قسمتی کہ پہلی بار اس کا میئر اور بڑی تعداد میں ٹاؤن چیئرمین منتخب ہوئے اور سندھ میں 17 سالوں سے حکومت بھی پیپلز پارٹی کی ہے۔

جماعت اسلامی اور ایم کیو ایم کے میئرز تین تین بار اپنی کارکردگی دکھا چکے۔ دونوں کے سٹی ناظمین بااختیار تھے جن کے دور میں ریکارڈ ترقی ہوئی تھی مگر پی پی کا میئر اب تک ان جیسی کارکردگی نہیں دکھا سکا اور یہ تینوں پارٹیاں اور بلدیاتی عہدیدار اگر چاہیں اور اپنی سیاست کے بجائے کراچی اور شہریوں کے مفاد کو ترجیح دیں اور مل کر کام کریں اور تینوں پارٹیاں شہری مفاد میں کراچی کو صرف بقایا مدت کے لیے سنبھال لیں تو کراچی میں تبدیلی آنا ناممکن نہیں مگر تینوں پارٹیوں نے اگر اپنی اپنی سیاست چمکانی اور ایک دوسرے پر الزام تراشی ہی کرنی ہے تو کراچی کی حالت مزید بگڑے گی اور شہری تینوں سے مایوس ہو کر تینوں کو برا بھلا ہی کہیں گے۔

متعلقہ مضامین

  • پیرا فورس کے عوام سے ناروا سلوک کا نوٹس لیا جائے، جماعت اسلامی
  • اسلامی نظام ہی ملک سے غربت کا خاتمہ کرسکتا ہے، جماعت اسلامی
  • تربیت و حقوق اطفال کے اسلامی احکامات
  • نمائندہ رہبرِ انقلاب ڈاکٹر حکیم الٰہی کی حیدرآباد آمد، جماعتِ اسلامی تلنگانہ کے صدر سے ملاقات
  • سیاست کے بجائے مل کر کراچی کو سنبھالیں
  • روس کا امریکا سے نیو اسٹارٹ معاہدے کی تجدید میں مساوی اقدام کا مطالبہ
  • مسلمانوں کے لئے وندے ماترم ،غیر اسلامی فعل
  • اجتماع عام خوددار پاکستان کی جدوجہد کا سنگ میل ہوگا، اسحاق خان
  • اجتماع عام ملت کی بیداری کا عزم