data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

لندن: بارہ برس بعد شام اور برطانیہ کے مابین سفارتی تعلقات کی بحالی کا ایک اہم مرحلہ اس وقت مکمل ہوا جب شام نے لندن میں قائم اپنا سفارت خانہ دوبارہ کھول دیا۔

عالمی میڈیا رپورٹس کےمطابق  وزیرخارجہ اسد الشیبانی نے لندن میں سفارت خانے کی عمارت پر شام کا نیا قومی پرچم لہرا کر سفارتی سرگرمیوں کے باضابطہ آغاز کا اعلان کیا۔ اس موقع پر انہوں نے واضح کیا کہ لندن اور دمشق کے درمیان منقطع رابطے ایک دہائی سے زائد عرصے کے بعد بحال ہو رہے ہیں۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق وزیرخارجہ اسد الشیبانی برطانیہ کے متعدد سرکاری و سفارتی عہدیداروں سے ملاقاتیں کریں گے جن میں دو طرفہ تعلقات، خطے کی صورتحال اور باہمی تعاون کے مختلف پہلوؤں پر تبادلہ خیال کیا جائے گا۔ سفارت خانے کی بحالی کو نئی شامی حکومت کی خارجہ پالیسی کا ایک اہم قدم قرار دیا جا رہا ہے۔

گزشتہ ہفتے وزیرخارجہ صدر احمد الشرع کے ہمراہ امریکا کا سرکاری دورہ بھی کرچکے ہیں، جہاں ان کی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات ہوئی، یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ احمد الشرع وہ پہلے شامی صدر ہیں جنہیں اس نوعیت کی سرکاری دعوت وائٹ ہاؤس کی جانب سے موصول ہوئی۔

شام میں سابق صدر بشارالاسد کی حکومت ختم ہونے کے بعد نئی قائم ہونے والی حکومت نے قومی پرچم کی نئی شکل بھی متعارف کرائی ہے، جس میں سفید، سیاہ اور سبز رنگ کے ساتھ تین ستارے شامل کیے گئے ہیں۔ یہ پرچم پرانے سرخ، سفید اور سیاہ رنگ کے ڈیزائن سے مختلف ہے جس میں دو ستارے ہوتے تھے۔ وزیرخارجہ اسد الشیبانی اپریل میں اقوام متحدہ کے ہیڈکوارٹرز میں بھی نیا پرچم لہرا چکے ہیں، جس نے سابقہ یونائیٹڈ عرب ری پبلک کے پرچم کی جگہ لی۔

صدر احمد الشرع نے حالیہ مہینوں میں امریکا، روس اور دیگر ممالک کے دورے کیے ہیں۔ نئی حکومت کا مؤقف ہے کہ شام ایک ایسے نئے دور میں داخل ہو رہا ہے جس میں عالمی برادری کے ساتھ تعلقات ازسرِنو قائم کرکے ملک کو استحکام اور ترقی کی جانب گامزن کیا جائے گا۔

ویب ڈیسک وہاج فاروقی.

ذریعہ: Jasarat News

پڑھیں:

وہ بے قصور ہیں اور انکا دہشتگردی سےکوئی تعلق نہیں ہے، دہلی دھماکے کے مشتبہ افراد کے اہل خانہ

ابراہیم عابدی کی بیوی خود ایک معلمہ ہیں اور بچوں کو قرآن کی تلاوت سکھاتی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ انکے شوہر نے ریٹائر ہونے سے قبل بائیکلہ کے ایک کالج میں 35 سال تک بطور پروفیسر کام کیا۔ اسلام ٹائمز۔ دہلی کار بم دھماکہ کی جاری تحقیقات کے درمیان، دھماکے سے منسلک مواد کے معاملے میں ہریانہ کے فرید آباد سے گرفتار کئے گئے مشتبہ افراد میں سے ایک مولوی حافظ محمد اشتیاق کے اہل خانہ نے یہ دعویٰ کرتے ہوئے انصاف کی اپیل کی ہے کہ وہ "بے قصور" ہیں۔ محمد اشتیاق نوح ضلع کے سنگار گاؤں کے رہنے والے ہیں، فرید آباد میں الفلاح یونیورسٹی کیمپس کی مسجد میں امام جماعت کے طور پر خدمات انجام دیتے ہیں۔ محمد اشتیاق کے چار بھائی ہیں، جو سبھی مختلف مساجد میں امامت کرتے ہیں اور گھر میں کھیتی باڑی کا انتظام کرتے ہیں۔ محمد اشتیاق کی گرفتاری کے بعد ان کے بھائیوں حافظ صدام اور حافظ مبین نے کہا کہ اشتیاق کبھی بھی ایسی کارروائیوں میں ملوث نہیں ہو سکتا اور مقامی حکام پر زور دیا کہ وہ منصفانہ اور شفاف تحقیقات کریں۔

انہوں نے کہا کہ محمد اشتیاق تقریباً دو ماہ قبل اپنی بوڑھی والدہ سے ملنے اپنے آبائی گاؤں آیا تھا، وہ گاؤں سے باہر جانے کے بعد گزشتہ 20 سالوں سے الفلاح کمپلیکس کے قریب رہ رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ محمد اشتیاق کے خلاف تمام الزامات جھوٹے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ الفلاح یونیورسٹی نے محمد اشتیاق کو کیمپس کے قریب رہائش فراہم کی تھی۔ اہل خانہ نے بتایا "ہمیں میڈیا کے ذریعے معلوم ہوا کہ ڈاکٹر مزمل، ایک اسسٹنٹ پروفیسر جو اس کے گھر میں کرایہ دار کے طور پر رہ رہے تھے ان کو گرفتار کر لیا گیا ہے".

دریں اثنا مہاراشٹر میں ریٹائرڈ پروفیسر ابراہیم عابدی کی اہلیہ، جن کا نام دھماکے کی تحقیقات سے متعلق کچھ رپورٹس میں سامنے آیا ہے، نے ان دعوؤں کی سختی سے تردید کی ہے کہ ان کے شوہر اس کیس میں ملوث ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ان کے شوہر ایک ریٹائرڈ ماہر تعلیم ہیں جن کا کسی دہشت گردانہ سرگرمی یا ملزم سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ منگل کو ریاستی انسداد دہشت گردی اسکواڈ (اے ٹی ایس) نے ممبرا میں ابراہیم عابدی کے گھر پر چھاپہ مارا اور موبائل فون، ہارڈ ڈسک اور لیپ ٹاپ ضبط کر لئے۔ ابراہیم عابدی کی بیوی نے بیان دیا کہ ان کے شوہر کا کسی دہشت گردانہ سرگرمیوں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ تلاشی ٹیم کے پاس وارنٹ تھا۔ افسران نے تقریباً تین گھنٹے تک تلاشی لی، لیکن کچھ بھی مجرمانہ نہیں ملا۔

ابراہیم عابدی کی بیوی مہجبین عابدی خود ایک معلمہ اور ایک تبلیغی استاد ہیں اور قرآن کی تلاوت سکھاتی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ان کے شوہر نے ریٹائر ہونے سے قبل بائیکلہ کے ایک کالج میں 35 سال تک بطور پروفیسر کام کیا۔ انہوں نے بتایا کہ ابراہیم عابدی کو حراست میں لے لیا گیا اور مزید پوچھ گچھ کے لئے کرلا میں ان کی پہلی بیوی کے گھر لایا گیا۔ انہوں نے کہا کہ پولیس نے ہمارا کمپیوٹر ہارڈ ڈرائیو اور موبائل فون چھین لیا۔ اس کے بعد سے ہمیں اس کی حالت کے بارے میں کوئی اطلاع نہیں ہے۔ مہجبین عابدی نے کہا ابراہیم کا نام دہلی بم دھماکوں سے جوڑنے کے بعد ہمارا پورا خاندان بہت پریشان ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم قانونی ذرائع سے انصاف کی تلاش جاری رکھیں گے۔

متعلقہ مضامین

  • شام کا لندن میں سفارتخانہ 12 سال بعد کھول دیا گیا، عمارت پر نیا پرچم لہرا دیا
  • لندن ، کنجیسچن چارج میں 20 فیصد اضافہ، الیکٹرک گاڑیاں بھی ادائیگی کی پابند
  • چینی سرحد کے قریب لداخ میں بھارت کا نیا ایئربیس فعال، افتتاحی لینڈنگ
  • ٹی وی ڈرامے اور سفارت کاری نے بنگلہ دیش اور تُرکیہ کو مزید قریب کر دیا
  • 12 سال بعد لندن میں شامی سفارتخانہ دوبارہ کھل گیا، نیا قومی پرچم سربلند
  • لندن‘ سنگاپور کے تاجر سے ڈائنوسار کی نوواردات ضبط
  • وہ بے قصور ہیں اور انکا دہشتگردی سےکوئی تعلق نہیں ہے، دہلی دھماکے کے مشتبہ افراد کے اہل خانہ
  • ’آپ لوگوں کو شرم آنی چاہیے‘، سنی دیول گھر کے باہر کھڑے فوٹوگرافرز پر برس پڑے
  • یتیم خانہ کے حفاظتی اقدامات مزید مستحکم