ججز کے استعفوں کو سیاسی رنگ نہ دیا جائے، علی محمد خان
اشاعت کی تاریخ: 14th, November 2025 GMT
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما علی محمد خان نے کہا ہے کہ جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس اطہر من اللہ کے استعفے ان کا ذاتی فیصلہ ہوسکتا ہے، انہیں سیاسی رنگ نہیں دینا چاہیے۔
27 ویں آئینی ترمیم کے حوالے سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں پی ٹی آئی رہنما علی محمد خان نے کہا کہ اس ترمیم کی سینیٹ اور قومی اسمبلی میں منظوری کے دوران ان کی جماعت نے بھرپور احتجاج کیا ہے۔ جہاں تک کسی بڑی احتجاجی تحریک کا تعلق ہے تو اسے محمود خان اچکزئی اور علامہ ناصر عباس ہی لیڈ کریں گے۔
یہ بھی پڑھیں: ججز کے استعفوں سے قوم کو سمجھ آگئی کون کس جماعت کا سہولتکار ہے، فیصل واوڈا
علی محمد خان نے کہا کہ میں نے پارٹی کو اپنی رائے دی تھی کہ ہم اس ترمیم کے خلاف ووٹ دیں، تاہم پارٹی قیادت نے فیصلہ کیا کہ ہم اسمبلی کی کارروائی کا بائیکاٹ کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ تحریک تحفظِ آئین پاکستان کے لیڈران ہمیں تحریک کے حوالے سے جو بھی پیغام دیں گے ہم سپورٹ کریں گے۔ احتجاجی تحریک کو بتدریج بڑھایا جائے گا، بڑے احتجاج کو محمود خان اچکزئی اور ناصر عباس ہی لیڈ کریں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ خیبرپختونخوا کے علاوہ بلوچستان، سندھ اور پنجاب میں ایسا ماحول نہیں کہ کوئی بڑا احتجاج شروع کیا جاسکے۔ سیاسی ورکرز کے ذہن میں یہ ہوتا ہے کہ احتجاج کریں گے تو زیادہ سے زیادہ گرفتار ہوجائیں گے، آنسو گیس ہوگی اور ہم 2، 3 دن میں نکل آئیں گے۔ جو ممکن ہے وہ پی ٹی آئی کررہی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: عمران خان کو سیاست میں عوام کے سوا کوئی مائنس نہیں کر سکتا، علی محمد خان
انہوں نے کہا کہ محمود خان اچکزئی اور راجا ناصر عباس پرانے سیاسی ورکرز ہیں، وہ تحریک شروع کررہے ہیں جو بتدریج بڑھے گی۔
اطہر من اللہ اور منصور علی شاہ کے استعفے کے حوالے سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ان جج صاحبان کے استعفے کو سیاسی نہیں بنایا جانا چاہیے، یہ ان کا ذاتی فیصلہ ہوگا کہ وہ آگے کیا کرنا چاہتے ہیں۔ 9 اپریل کو اگر رات کو عدالت نہ کھلتی تو آج ان ججز کو یہ دن نہ دیکھنا پڑتا۔
علی محمد خان نے کہا کہ بعض اوقات تاریخ کے کچھ لمحات ہوتے ہیں جو اسٹینڈ لینے کے ہوتے ہیں، وہ رات اسٹینڈ لینے کی تھی۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
27ویں ترمیم we news احتجاج استعفی پی ٹی آئی تحریک جسٹس اطہر من اللّٰہ جسٹس منصور علی شاہ علی محمد خان.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: 27ویں ترمیم استعفی پی ٹی ا ئی تحریک جسٹس اطہر من الل ہ جسٹس منصور علی شاہ علی محمد خان علی محمد خان نے کہا پی ٹی ا ئی نے کہا کہ کریں گے
پڑھیں:
حکومت کا جینا حرام کردیں گے، اپوزیشن کا احتجاجی تحریک شروع کرنے کا اعلان
اسلام آباد:اپوزیشن اتحاد نے حکومت کو خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کا جینا حرام کردیں گے اور تمام غیرملکی سفیروں کو خطوط لکھیں گے کہ اس حکومت سے جو بھی معاہدے کیے ہیں وہ ختم کردیں۔
محمود خان اچکزئی نے اپوزیشن ارکین کے ہمراہ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جمعے کو ہم تحریک کا آغاز کریں گے، ہم احتجاج کریں گے اور ایک پتھر بھی نہیں ماریں گے۔
انہوں نے کہا کہ ہم تمام ملکوں کے سفیروں سے بات کریں گے، ان کو خطوط لکھیں گے اور ان کو کہیں گے کہ اس حکومت سے جو بھی معاہدے کیے ہیں وہ ختم کر دیں۔
محمود خان اچکزئی نے کہا کہ اقوام متحدہ کا ادارہ کہتا ہے کہ 45 فیصد لوگ غربت کی لائن سے نیچے ہیں، کیا آسمان گرتا اگر آج اجلاس ملتوی کر دیتے۔
انہوں نے کہا کہ دنیا کے خطرناک ممالک ہمیں لڑانا چاہتے ہیں، ہمیں جنگ کا راستہ روکنا ہے۔
اپوزیشن اتحاد کے سربراہ نے کہا کہ پاکستان کا آئین بالادست ہو گا، پارلیمنٹ طاقت کا سرچشمہ ہو گی، تمام صوبوں کی معدنیات پر پہلا حق اسی صوبے کا ہو گا۔
محمود خان اچکزئی نے کہا کہ جو بھی مذاکرات کرنے ہیں ہم تیار ہیں، ہم آپ کا جینا حرام کر دیں گے اور ہم عدلیہ کے ججوں سے درخواست کرتے ہیں، آپ ایک قلم سے اس سب کو فارغ کر سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ حکومت سے ہمارے مذاکرات ہوں گے اور مذاکرات یہ ہوں گے کہ ہمارا مینڈیٹ واپس کریں۔
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین بیرسٹر گوہرعلی خان نے کہا کہ سپریم کورٹ اور چیف جسٹس کے اختیارات محدود کر دیے گئے ہیں، چیف جسٹس آف پاکستان کا عہدہ ختم کر دیا گیا لیکن ہم چیف جسٹس آف پاکستان کا عہدہ بحال کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ عدلیہ کا تشخص اور اختیارات واپس لائیں گے، اس بل میں عدالتی اختیارات کا زبردست کٹاؤ کیا گیا، عدلیہ کی اصلاح لازمی ہے لیکن ججوں کے ساتھ اپنایا گیا رویہ ناقابل قبول ہے۔
بیرسٹر گوہر نے کہا کہ اسمبلی میں پوائنٹ آؤٹ کیا کہ چیف جسٹس کا عہدہ ختم ہوا ہے، موجودہ ترامیم آئین کی روح کے منافی ہیں اور آئینی تعریفوں میں نئی کلاز شامل کر دی گئی اور اس ترمیم نے چیف جسٹس کے کردار کو محدود کر دیا ہے۔