Jasarat News:
2025-11-14@21:03:57 GMT

کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں؟

اشاعت کی تاریخ: 14th, November 2025 GMT

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251115-03-4

 

عارف بہار

ساڑھے تین دہائیاں قبل ہم نے پاکستان کے سیاسی حالات پر لکھنے کا آغاز کیا تو شاید ابتدائی ہی تحریر وں میں علامہ اقبال کا یہ مصرع لکھا ہوگا کہ ’’کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں‘‘۔ برسوں بعد آج بھی پاکستان کے حلیے رنگ ڈھنگ منصوبہ بندی آگے بڑھنے کی تمنا اور مسائل سلجھانے کی حکمت عملی کا جائزہ لیں تو یہی مصرع یاد آتا ہے۔ یوں لگ رہا ہے کہ جیسے وقت تھم کر رہ گیا ہو۔ پرانے اخبارات کی فائلیں کھنگالیں تو اندازہ ہوتا ہے بیتی ہوئی دہائیوں کا نہیں کل کا اخبار پڑھ رہے ہیں۔ ایڈہاک ازم اور کسی وقتی ناگزیر ِاعظم کی چھاؤں میں تھوڑی دیر سستانے کے لیے پالیسیاں تشکیل پاتی ہیں۔ پھر وقت کا دھارا بہہ جاتا ہے اور اپنے دور کا ناگزیر اعظم منظر سے ہٹ جاتا ہے تو اس کی ساری پالیسیاں ردی کی ٹوکری میں ڈال جاتی ہیں اور نئے نعروں اور نئے خوابوں کا ٹھیلہ سج جاتا ہے۔ پاکستانی اس ٹھیلے کے گرد جمع ہو کر یہ سمجھ لیتے ہیں کہ اب ان کی منزل آگئی مگر حقیقت میں ان کی منزل کچھ اور دور ہو چکی ہوتی ہے۔

خدا جانے کس بدبخت نے پاکستان کو بے سمتی کی بددعا دی تھی کہ ہم قومی طور پر اپنی سمت ہی بھول بیٹھے ہیں۔ وقت ِ قیام سجدے میں گرجاتے ہیں اور سجدے کے وقت قیام کے لمحات طویل کر تے چلے جاتے ہیں۔ نظریۂ ضرورت ہمار قومی نظریہ ہے۔ ضرورت کے تحت قانون بنانا قانون بدلنا فیصلہ کرنا ہماری فطرت ثانیہ بن چکی ہے۔ حد تو یہ قرارداد مقاصد کے تحت ہم یہ طے کر بیٹھے کہ اس ملک کے خدوخال اسلامی اقدار پر مبنی ہیں۔ اس کا نام اسلامی جمہوریہ پاکستان بھی اسی سوچ کا آئینہ دار تھا۔ پھر ایک مقام پر اس ملک کی سیاسی قیادت نے سرجوڑ کر ایک ایسا آئین تشکیل اور ترتیب دیا کہ جس کا مجموعی رنگ اسلامی اور پارلیمانی تھا۔ کبھی اس آئین کی قطع وبرید کا عمل جاری رہا تو کبھی کوئی صاحب یہ کہتے پائے گئے کہ آئین منسوخ نہیں ہوا بلکہ معطل ہوا ہے۔ اپنے دور کے یہی ناگزیر اعظم فرماتے تھے کہ آئین کیا ہوتا کاغذ کا ایک ٹکڑا۔ یوں قوم کی اجتماعی دانش کا نتیجہ یعنی آئین پاکستان ہمیشہ سے بازیچہ ٔ اطفال ہی بنا رہا۔ یہ وہی آئین ہے جس کے بارے میں قادیانیوں کے پچھلے روحانی پیشوا مرزا طاہر کے یہ الفاظ آج بھی انٹرنیٹ پر سنے جا سکتے ہیں کہ ’’پاکستان اور موجود آئین ایک ساتھ نہیں چل سکتے۔ یہ آئین باقی رہا تو پاکستان باقی نہیں رہے گا‘‘۔

آئین پاکستان کے ساتھ ان کی یہ پرخاش تو قابل فہم تھی ہی مگر طاقت کے کھلاڑیوں کو بھی اس آئین سے ہمیشہ جلن سی محسوس ہوتی رہی۔ ہونا بھی چاہیے کہ مہذب معاشروں میں آئین کھیل کے اصول اور مختلف مراکز کے درمیان مختلف دائرے قائم کرتا ہے۔ کسی کو کسی دوسرے پر چڑھ دوڑنے کی اجازت نہیں ہوتی۔ حیرت ہے کہ پاکستان میں اس آئین کی تشکیل کا یہ کمال کیسے ہوگیا؟ شاید یہ وہ مختصر دور تھا جب معاملات پر سیاست دانوں کا کچھ کنٹرول تھا اور ان سے بڑے طاقت کے کھلاڑی کچھ تنہا اور کچھ تھکے تھکے سے دکھائی دیتے تھے۔ فاول پلے کی بھی کوئی حد ہوتی ہے طاقت کے بے آئین کھیل میں ہم نے ون یونٹ تشکیل دے دیا۔ مقصد یہ تھا کہ مشرقی پاکستان وسائل میں حصہ بقدر جثہ وصول نہ کر سکے۔ حق مانگنے والوں کے حق کے انکار کے لیے ہم کس حد تک جاتے ہیں ون یونٹ کے قیام کے پیچھے ذہنیت سے اس اندازہ ہو سکتا ہے۔

جدید اور مہذب ریاستیں کچھ اداروں اور علامتوں سے تشکیل پاتی ہیں۔ ریاستوں کو بس چلانا ہی مقصود ہو تو اس کے لیے یوں بھی کسی ضابطے قاعدے یا دستور العمل کی ضرورت ہی نہیں رہتی۔ بس اپنے دور کے حاکم کا فرمان ہی اس کا دستور العمل ہوتا ہے۔ ریاستیں عوام اور مختلف النوع اداروں کے قیام سے وجود پاتی ہیں۔ ایسی ریاستیں جنہیں گھڑا گیا ہوا تراشا گیا ہو، بنایا گیا ہو کھیل کے آداب کا تقاضا کرتی ہیں۔ ایسی ریاستوں میں ایڈہاک ازم اور تجربات کو مستقل پالیسی کے طور پر اپنایا نہیں جاتا۔ اس کا خمیازہ اکہتر میں ہم بھگت چکے ہیں۔ آج کے پاکستان میں ادارے ایک ایک کرکے منہدم ہورہے ہیں اور انہدام کی ہر آواز کے ساتھ ہم سجدۂ شکر بجالاتے ہیں کہ ملک مضبوط ہوگیا۔ صحافت کو ملک کا چوتھا ستون کہا جاتا تھا۔ ایک روز یہ ستون دھڑام سے گرگیا اور اس کی جگہ واٹس ایپ صحافت نے لی ہم نے سمجھا کہ پاکستان مضبوط ہوگیا۔ پھر ایک روز عوام کے فیصلے کے نتیجہ اغوا ہوگیا اور یوں ریاست کا دوسرا ستون مقننہ گرگیا اور عوامی مینڈیٹ کی جگہ فارم سینتالیس کا نظام آیا ہم نے پھر سکھ کا سانس لیا کہ اب عوامی مینڈیٹ کا رُخ اور رنگ بدلنے کا ہنر ہمیں آگیا اور اس سے ملک مضبوط ہوگیا۔ اس کے نتیجے میں جو انتظامیہ قائم ہوئی وہ بھی گرا ہوا ستون تھا۔ آخر میں عدلیہ کا ستون بھی گرگیا اور اب پاکستان کو مضبوط اور محفوظ بنانے کا سفر تمام ہوا اور یوں ہماری ریاست اداروں کے ملبے پر مضبوط سے مضبوط تر اور خوب سے خوب تر کے سفر پر گامزن ہے۔

عارف بہار.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: گیا اور گیا ہو

پڑھیں:

پیپلزپارٹی نے ہمیشہ ملکی مفاد میں فیصلے کیے، اداروں کو مضبوط کیا: گورنر پنجاب

لاہور (نیوز رپورٹر) گورنر پنجاب سردار سلیم حیدر خان نے کہا کہ پیپلز پارٹی ملک کو سیاسی اور معاشی طور پر مستحکم اور مضبوط دیکھنا چاہتی ہے۔ پیپلز پارٹی نے ہمیشہ اداروں کو مضبوط کیا اور ملکی مفاد میں فیصلے کئے۔ مختلف سیاسی جماعتوں کے رہنمائوں اور ورکرز کا پیپلزپارٹی میں شمولیت اختیار کرنا پیپلزپارٹی کی مقبولیت کی دلیل ہے۔ یہ بات انہوں نے گورنر ہائوس لاہور میں پیپلز پارٹی کے رہنما عمران علی کھوکھر کی قیادت میں کالعدم مذہبی جماعت کے سابق ٹکٹ ہولڈر حاجی نواز گڈو اور دیگر سے ملاقات کے دوران کہی۔ ملاقات میں کالعدم مذہبی جماعت کے سابق ٹکٹ ہولڈرز حاجی نواز گڈو، ملک شہباز راجپوت، ملک ناصر راجپوت، ملک ارشاد راجپوت، ملک شہباز اور ملک ناصر نے ساتھیوں سمیت پیپلز پارٹی میں شمولیت کا اعلان کیا۔گورنر پنجاب نے پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کرنے والوں کا خیر مقدم کیا اور ان کے گلے میں پارٹی کے مفلر پہنائے۔ گورنر پنجاب سردار سلیم حیدر خان نے کہا کہ کالعدم مذہبی جماعت سمیت مختلف سیاسی جماعتوں کے کارکنوں کا پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کرنا اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ آنے والا وقت پیپلز پارٹی کا ہوگا۔ 

متعلقہ مضامین

  • بہار الیکشن میں این ڈی اے کی واضح برتری، مودی کی ریاست پر گرفت مضبوط
  • افغانستان پاکستان کیخلاف دہشت گردی کی کاروائیوں میں ملوث ہے، ثروت اعجاز قادری
  • صدر زرداری سے تاجکستان کے وزیر دفاع کی ملاقات، باہمی تعلقات مضبوط بنانے پر اتفاق
  • بہار الیکشن میں این ڈی اے کی بڑی برتری، مودی کی ریاست پر گرفت مضبوط
  • لوٹوں کی باتیں وہی کرتے ہیں جو خود لوٹوں کی توہین ہے، ایمل ولی خان
  • کینیڈا کیساتھ تعلقات مزید مضبوط بناناچاہتے ہیں،وزیراعظم
  • اسلام آباد: ڈسٹرکٹ کورٹس کمپلیکس میں حفاظتی انتظامات مضبوط بنانے کا فیصلہ
  • پیپلزپارٹی نے ہمیشہ ملکی مفاد میں فیصلے کیے، اداروں کو مضبوط کیا: گورنر پنجاب
  • سندھ بلڈنگ، آصف شیخ کے مضبوط سسٹم میں دندناتی بے قابو تعمیرات