Express News:
2025-11-14@23:04:25 GMT

صیہونیت سے تنگ یہودی اور غیر یہودی

اشاعت کی تاریخ: 15th, November 2025 GMT

ساڑھے چار سو سے زائد ممتاز یہودیوں نے اقوامِ متحدہ ، یورپی یونین ، عالمی عدالتِ انصاف اور جنگی جرائم کی بین الاقوامی عدالت سمیت ہر متعلقہ ادارے سے تحریری اپیل کی ہے کہ غزہ میں نام نہاد جنگ بندی کو نسل کش اسرائیلی پالیسیاں درگزر کرنے کے لیے بطور پردہ استعمال کرنے کے بجائے بلا امتیاز احتساب کیا جائے تاکہ اس دنیا کے لوگوں کا موجودہ عالمی نظام پر اعتماد بحال ہو سکے اور اس سے کھلواڑ کرنے والے آیندہ دس بار سوچیں۔بصورتِ دیگر ’’ جس کی لاٹھی اس کی بھینس ‘‘ کا نظریہ دنیا کو اپنی لپیٹ میں اور زیادہ لے کر ناقابلِ تلافی نقصان پہنچائے گا۔

جن ممتاز شخصیات نے اس اپیل پر دستخط کیے ہیں ان میں اسرائیلی پارلیمنٹ ( کنیسٹ ) کے سابق اسپیکر ایورہام برگ ، فلسطینیوں سے متعلق سابق اسرائیلی امن مذاکرات کار ڈینیل لیوی ، برطانوی مصنف مائیکل روزن ، کینیڈین مصنف نومی کلین ، آسکر انعام یافتہ فلم ساز جوناتھن گلیزر ، امریکی اداکار والس شون ، امریکی کامیڈین ایرک آندرے ، ایمی ایوارڈ یافتہ ایلانا گلیزر اور حنا آین بائنڈر ، پلٹزرز انعام یافتہ صحافی و مصنف بنجمن موسر ، اسرائیلی موسیقار ایلان وولکوف ، ڈرامہ نگار ایوو انسلر ، جنوبی افریقی ناول نگار ڈیمن گلگٹ ، آسکر انعام یافتہ ڈاکومینٹری میکر اور صحافی یووال ابراہام ، ٹوبی مارلو اور اسرائیلی فلسفی اومری بوہم بھی شامل ہیں۔

خط میں کہا گیا ہے کہ غزہ ، مغربی کنارے اور مشرقی یروشلم میں اسرائیل کی جابرانہ پالیسیوں کا نہ صرف کڑا محاسبہ ضروری ہے بلکہ ان پالیسیوں کے خاتمے کے لیے اسرائیل پر جامع بین الاقوامی سیاسی ، سفارتی اور اقتصادی پابندیوں پر اتفاق کا بھی یہی وقت ہے۔ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ اگلے ہالوکاسٹ ( نسل کشی ) کو روکنے کے لیے دوسری عالمگیر جنگ کے فوراً بعد بین الاقوامی قوانین ، معاہدوں اور کنونشنز کا ایک قانونی جال بنا گیا تھا تاکہ انسانیت کو انسانیت سوزی سے محفوظ رکھا جا سکے اور کوئی نسل کش یہ جال توڑ کر پھر سے من مانی نہ کر سکے۔مگر کچھ ریاستوں کی پشت پناہی کے سبب ایسے تمام قانونی تحفظات کو اسرائیل کھلم کھلا پامال کر رہا ہے۔

دستخط کنندگان نے تمام ریاستوں سے مطالبہ کیا ہے کہ کم ازکم عالمی عدالتِ انصاف اور بین الاقوامی جرائم کی عدالت کے اب تک کے فیصلوں اور رولنگز کا احترام کیا اور کروایا جائے۔بین الاقوامی قوانین کو تنگ نظر مفادات کی خاطر توڑ مروڑ کر موم کی ناک بنانے کی کوششیں ترک کر کے اسرائیل کو اسلحے کی فراہمی فوراً روکی جائے اور ایسی مخصوص اقتصادی پابندیاں عائد کی جائیں جن سے نسل کش پالیسیوں کی حقیقی حوصلہ شکنی ہو سکے۔غزہ کے لیے انسانی امداد کی فراہمی کے تمام راستے فوراً کھلوائے جائیں اور جو لوگ امن و انصاف کی عالمی تحریک سے منسلک ہیں ان پر یہود دشمنی کے الزامات کو مسترد کیا جائے۔

خط میں ان تمام یہودی زعما نے واضح کیا ہے کہ فلسطینی کاز کے ساتھ ہماری یکجہتی تورات کی تعلیمات کی تکمیل کی کوشش ہے۔جب تورات کہتی ہے کہ ایک شخص کا قتل تمام انسانیت کا قتل ہے تو اس تعریف کے احاطے میں یہودیوں اور فلسطینیوں سمیت تمام انسان آتے ہیں۔چنانچہ ہمیں تب تک آرام سے نہیں بیٹھنا چاہیے جب تک موجودہ جنگ بندی غاصبانہ قبضے اور اپارتھائیڈ کے خاتمے پر منتج نہیں ہوتی۔

یہ اپیل ایسے وقت سامنے آئی ہے جب امریکی یہودیوں میں اسرائیل کی حمائیت کا تناسب تیزی سے کم ہوا ہے۔اخبار واشنگٹن پوسٹ کے تازہ رائے عامہ سروے کے مطابق اکسٹھ فیصد امریکی یہودیوں کا خیال ہے کہ اسرائیل غزہ میں جنگی جرائم کا مرتکب ہوا ہے۔انتالیس فیصد سمجھتے ہیں کہ اسرائیل نسل کشی کر رہا ہے۔جب کہ واشنگٹن کے اسرائیل نواز بروکنگ انسٹی ٹیوٹ کے سروے میں جن امریکی یہودی و غیر یہودی شہریوں نے اسرائیل کو نسل کش ریاست قرار دیا ہے ان کا تناسب پینتالیس فیصد ہے۔اگست میں کوئنی پیاک سروے میں یہ سامنے آیا کہ پچاس فیصد عام امریکی ووٹر سمجھتے ہیں کہ اسرائیل نسل کشی کر رہا ہے۔ ڈیموکریٹک پارٹی کے ستتر فیصد حامی اس خیال کی تائید کرتے ہیں۔

اگر انٹرٹینمنٹ انڈسٹری کو دیکھا جائے تو گذشتہ دو برس میں ایسی کایا کلپ ہوئی کہ چھ اکتوبر دو ہزار تئیس سے پہلے اس کا تصور بھی محال تھا۔اسرائیل نے جس تیزی سے اپنے اقدامات سے اپنی ہی کردار کشی کروائی وہ بے مثال ہے۔ دنیا کی آنکھوں میں یہود دشمنی کے پروپیگنڈے کی جو مسلسل دھول ایک صدی سے جھونکی جا رہی تھی ، جب ہوا کا رخ بدلا تو ایسا بدلا کہ اس دھول سے خود اسرائیل کا اپنا چہرہ اٹ گیا۔

مثلاً غزہ پر اسرائیلی فوج کشی کے چند ہی ہفتے بعد امریکی انٹرٹینمنٹ انڈسٹری کے پچپن سرکردہ نمائندوں نے جوبائڈن سے اجتماعی مطالبہ کیا کہ اسرائیل کو جنگ بندی پر مجبور کیا جائے۔برطانیہ میں دو ہزار سے زائد فن کاروں نے آرٹسٹس فار فلسطین ایڈ پلیٹ فارم تشکیل دیا۔انھوں نے برطانوی حکومت سے مطالبہ کیا کہ اسرائیل پر جنگ بندی کے لیے حقیقی دباؤ ڈالا جائے۔دو ہزار چوبیس کی آسکر ایوارڈ تقریب میں درجنوں فنکاروں نے کیمرے کے سامنے برملا قتلِ عام فوراً روکنے کا مطالبہ کیا۔امریکی کامیڈین رامی یوسف کو ہر ہفتے چالیس لاکھ ناظرین ’’ سیٹر ڈے نائٹ لائیو ‘‘ میں دیکھتے ہیں۔انھوں نے متعدد بار اسٹیج سے کہا کہ فلسطین کو آزاد کرو۔دو سال پہلے امریکا میں لاکھوں لوگوں کے سامنے کسی مقبول فن کار کی جانب سے ایسے کھلم کھلا مطالبات کا تصور بھی محال تھا۔

برطانوی قصبے گلوسٹن بری میں سب سے بڑا سالانہ عالمی میلہِ موسیقی منعقد ہوتا ہے۔پہلی بار اس برس کے میلے میں فلسطین کے سیکڑوں جھنڈے لہرائے گئے اور ہر فن کار نے اسٹیج سے نعرے لگوائے۔لندن میں ’’ ٹوگیدر فار فلسطین ‘‘ کنسرٹ میں چوٹی کے گلوکاروں اور موسیقاروں نے شرکت کی۔اس کنسرٹ سے فلسطینیوں کی امداد کے لیے بائیس لاکھ ڈالر جمع ہوئے۔

 غزہ میں نسل کشی سے متعلق اقوامِ متحدہ کے ایکسپرٹ پینل کی مفصل ستمبر رپورٹ شائع ہونے کے بعد اقوامِ متحدہ نے عالمی فٹ بال ایسوسی ایشن فیفا اور یورپین فٹ بال ایسوسی ایشن سے اسرائیل کی رکنیت معطل کرنے کی اپیل کی۔ناروے ، ترکی اور آئرلینڈ کی فٹ بال ایسوسی ایشنز بھی یہی اپیلیں کر چکی ہیں مگر یورپین فٹ بال ایسوسی ایشن اب تک آئیں بائیں شائیں کر رہی ہے۔اب ستر سے زائد معروف ایتھلیٹس اور کھلاڑیوں نے اس بارے میں تحریری مطالبہ کیا ہے۔دستخط کنندگان میں فٹ بال کے فرنچ ورلڈ کپ ونر پال پوگبا ، ڈچ فٹبال فارورڈ انور الغازی ، مراکشی کھلاڑی حکیم زائش اور ہسپانوی فٹ بالر اداما ترورے بھی شامل ہیں۔

فلسطین کے حق میں میوزک ، ٹی وی اور فلم انڈسٹری ، کتابی دنیا اور مصوری سے منسلک سولہ ہزار فن کاروں اور کارکنوں نے اب تک گیارہ کھلے خط جاری کیے۔کئی اداکاروں کو اس جرات کی سزا میں پروڈکشن ہاؤسز نے اپنے فلمی پروجیکٹس سے نکال دیا۔معروف بینڈ نی کیپ کا کینیڈا میں داخلہ ممنوع قرار پایا۔گلوکار باب ولن کا امریکی ویزہ منسوخ کر دیا گیا۔آئرش مصنفہ سیلی رونی نے گرفتاری کے خدشے کے پیشِ نظر برطانیہ کا دورہ منسوخ کر دیا۔

ہالی وڈ کے ممتاز ستاروں نے ’’ وائس آف ہند رجب ‘‘ فلم کی پروڈکشن سے بلامعاوضہ تعاون کیا۔وینس فلم فیسٹیول میں اس فلم کے لیے تئیس منٹ تک کھڑے ہو کر ناظرین تالیاں بجاتے رہے۔

اسرائیلی فلسطینی دستاویزی فلم ’’ نو ادر لینڈ ‘‘ کو بہترین فارن فلم کیٹگری میں آسکر ملا۔گذشتہ ماہ پانچ ہزار سے زائد غیر ملکی فلم ورکرز نے اسرائیلی فلم انڈسٹری کا بائیکاٹ کیا۔ان میں آسکر انعام یافتہ فنکار بھی شامل تھے۔باالفاظِ دیگر ضمیر کی آواز پر روزگاری مواقع بھی انسانی اخلاقیات کی بالا دستی کے سامنے رکاوٹ نہیں بن پا رہے۔

پاکستان کی انٹرٹینمنٹ انڈسٹری سے منسلک کتنے فنکاروں ، پروڈکشن ہاؤسز اور کارکنوں نے گذشتہ دو برس میں فلسطینی کاز سے تحریری ، صوتی یا بصری یکجہتی کا کب کب اظہار کیا۔ اس بابت معلومات ہوں تو اس فقیر کو بھی ان سے سرفراز فرمائیں۔

(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.

com اورTweeter @WusatUllahKhan.پر کلک کیجیے)

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: فٹ بال ایسوسی بین الاقوامی انعام یافتہ مطالبہ کیا کہ اسرائیل کے لیے میں یہ

پڑھیں:

تسنیم نیوز کی عبرانی زبان میں دستاویزی فلم پر اسرائیل کا ردعمل

دستاویزی فلم تیار کرنے کا مقصد طاقت کا اظہار اور حقائق پہنچانے کے لئے اسرائیلی رائے عامہ کے ساتھ تعامل ہے، جو حقائق طویل عرصے سے عبرانی بولنے والے سامعین سے پوشیدہ ہیں۔  اسلام ٹائمز۔ مقبوضہ فلسطین میں غاصب اسرائیل رجیم کے ایک میڈیا آؤٹ لیٹ نے ایرانی خبر رساں ایجنسی تسنیم کی طرف سے بنائی گئی عبرانی دستاویزی فلم کو "اسرائیل کے خلاف پروپیگنڈا جنگ" قرار دیا ہے۔ تسنیم نیوز ایجنسی نے عبرانی زبان میں اپنی پہلی دستاویزی فلم "بازان پر میزائل" نشر کی ہے، جس میں 12 روزہ جنگ کے دوران اسرائیل کے خلاف ایران کے میزائل حملوں کا احوال پیش کیا گیا ہے۔

اسرائیل کی فوج اور نیشنل نیوز ویب سائٹ نے دستاویزی فلم پر ردعمل ظاہر کیا ہے کہ یہ ایران کی اسرائیل کے میڈیا کوریج میں ایک نیا نقطہ نظر ہے، اور یہ پہلا موقع ہے کہ اسرائیلی سامعین کے لیے خاص طور پر عبرانی زبان میں فلم تیار کی گئی ہے۔ اسرائیلی آؤٹ لیٹ نے یہ بھی لکھا کہ اس دستاویزی فلم کا فوکس حیفا آئل ریفائنریوں پر ایران کے میزائل حملے پر ہے، ایک ایسا واقعہ جس کے پروڈیوسر (دستاویزی فلم کے) دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ جنگ کا رخ بدل سکتے ہیں اور خطے میں طاقت کی مساوات تبدیل ہو سکتی ہے۔

ایران میں تیار کی جانے والی پہلی عبرانی زبان کی دستاویزی فلم کا آغاز تسنیم نیوز ایجنسی میں علاقائی امور میں مہارت رکھنے والے میڈیا کارکنوں کے ایک گروپ کی موجودگی میں ہوا۔ دستاویزی فلم ایران اور صیہونی حکومت کے درمیان تنازع کی ایک نئی اور مختصرداستان پیش کرتی ہے اور اسرائیل کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے پروڈکشن میں ایک نئے قدم کی بھی نمائندگی کرتی ہے۔

دستاویزی فلم کی نمائش کے بعد، حاضرین کی ایک بڑی تعداد نے انگریزی اور عربی سمیت دیگر زبانوں میں اس کے فارسی ورژن جاری کرنے کی درخواست کی ہے۔ تسنیم کے سی ای او ماجد قلی زادہ نے اعلان ہے کیا کہ دستاویزی فلم کے فارسی اور دیگر زبانوں میں ورژن جلد ہی ریلیز کے لیے تیار ہوں گے۔ بازان پر میزائل، تیل اور گیس کے بنیادی ڈھانچے پر ایران اور اسرائیلی حکومت کے درمیان خفیہ محاذ آرائی پر ایک تجزیاتی اور حقیقت پسندانہ کہانی ہے۔

پوری داستان کے دوران سامعین جنگ کے دوران ذہانت اور اعلیٰ سطحی فیصلہ سازی کی نئی جہتوں سے واقف ہو تے ہیں، تزویراتی سوچ اور ٹیکنالوجی میدان جنگ میں ایران کی طاقت کی ایک درست اور حقیقت پسندانہ تصویر سامنے آتی ہے۔ دستاویزی فلم تیار کرنے کا مقصد طاقت کا اظہار اور حقائق پہنچانے کے لئے اسرائیلی رائے عامہ کے ساتھ تعامل ہے، جو حقائق طویل عرصے سے عبرانی بولنے والے سامعین سے پوشیدہ ہیں۔ 

متعلقہ مضامین

  • امریکا اسرائیل گٹھ جوڑ: ٹرمپ کا غزہ پر کنٹرول، نیا منصوبہ بےنقاب
  • بھارت نے اسرائیلی میزائلوں کی نئی کھیپ خریدنے کی کوششیں تیز کر دیں
  • لبنان پر اسرائیلی قبضے نے اقوام متحدہ کو بھی بولنے پر مجبور کردیا
  • غزہ میں انسانی بحران شدید، اسرائیلی پابندیوں نے یو این آر ڈبلیو اے کی امدادی کوششیں مفلوج کر دیں
  • تسنیم نیوز کی عبرانی زبان میں دستاویزی فلم پر اسرائیل کا ردعمل
  • اسرائیلی فوج کی کارروائیاں جاری، مغربی کنارے میں 2 بچے شہید، غزہ میں اجتماعی قبر سے 51 لاشیں برآمد
  • اسرائیلی فوجیوں کی غزہ میں فلسطینیوں کو ڈھال بنانے کی منصوبہ بندی کا انکشاف
  • امریکی اسرائیلی انٹیلی جنس نیٹ ورک کو ختم کر دیا گیا، سپاہ پاسداران انقلاب
  • امریکی اور اسرائیلی انٹیلیجنس نیٹ ورکز کا اپنے ملک سے صفایا کردیا ہے، ایرانی انقلابی گارڈز