پشاور:

ایف سی ہیڈکوارٹر پشاور پر خودکش حملے کی تحقیقات میں پیش رفت سامنے آئی ہے۔

آئی  جی خیبر پختونخوا پولیس   کے مطابق ایف سی ہیڈکوارٹر حملے کی منصوبہ بندی کراس دی بارڈر ہوئی ہے۔   اسی طرح اسلام آباد  دھماکے کے تانے بانے بھی ایف سی ہیڈکوارٹر حملے سے مل رہے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ دونوں حملوں میں بارودی مواد اور جائے وقوع تک رسائی کی حکمتِ عملی یکساں رہی جب کہ دہشت گردوں کی خودکش جیکٹس تک رسائی میں بھی مماثلت پائی گئی ہے۔

آئی جی کے پی کے  نے اس حوالے سے مزید کہا کہ ایک منظم گروہ دہشت گردوں کو ٹارگٹ تک پہنچنے میں سہولت کاری کر رہا ہے۔

واضح رہے کہ ایف سی ہیڈکوارٹر پشاور پر حملے میں 3 اہل کار شہید ہو گئے تھے جب کہ  اہل کاروں نے بروقت جوابی کارروائی کرتے ہوئے دہشت گردوں کو جہنم واصل کیا تھا۔ واقعے میں مجموعی طور پر 11 افراد زخمی ہوئے تھے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: ایف سی ہیڈکوارٹر

پڑھیں:

افغان طالبان  دہشت گردوں کے سہولت  کار : ڈی  جی آئی ایس پی آر 

راولپنڈی (اپنے سٹاف رپورٹر سے) ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے 4 نومبر 2025ء سے اب تک دہشتگردی کے خلاف 4910 انٹیلی جنس بیسڈ آپریشنز کیے گئے۔ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ ان آپریشنز کے دوران 206 دہشتگردوں کو جہنم واصل کیا گیا رواں سال ملک بھر میں 67023 انٹیلی جنس بیسڈ آپریشن کئے گئے، رواں سال صوبہ خیبر پی کے میں 12857 اور صوبہ بلوچستان میں 53309 انٹیلی جنس بیسڈ آپریشن کئے گئے‘ 25 نومبر کو سینئر صحافیوں سے گفتگوں کی مزید تفصیلات کے مطابق  ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ رواں سال مجموعی طور پر 1873 دہشتگرد جہنم واصل ہوئے جن میں 136 افغان بھی شامل ہیں‘ ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ باررڈر مینجمنٹ پر سکیورٹی اداروں کے حوالے سے  گمراہ  کن پراپیگنڈا کیا جاتا ہے، پاک افغان بارڈر انتہائی مشکل اور دشوار گزار راستوں پر مشتمل ہے۔ خیبر پی کے میں پاک افغان سرحد 1229 کلومیٹر پر محیط ہے، جس میں 20 کراسنگ پوائنٹس ہیں۔ پاک افعان بارڈر پر  پوسٹوں کا فاصلہ 20 سے 25 کلومیٹر تک بھی ہے، بارڈر فینس اس وقت تک مؤثر نہیں ہو سکتی اگر وہ آبزرویشن اور فائر سے کور نہ ہو۔ اگر 2 سے 5 کلومیٹر کے بعد قلعہ بنائیں اور ڈرون سرویلنس کریں تو اس کے لیے کثیر وسائل درکار ہونگے۔ پنجاب اور سندھ کے برعکس خیبر پی کے میں بارڈر کے دونوں اطراف منقسم گاؤں ہیں۔ ایسی صورت حال میں آمد و رفت کو کنٹرول کرنا ایک چیلنج ہے۔ دنیا میں بارڈر مینجمنٹ ہمیشہ دونوں ممالک مل کر کرتے ہیں۔ اسکے برعکس افغانستان سے دہشتگردوں کی پاکستان میں دراندازی کیلئے افغان طالبان مکمل سہولت کاری کرتے ہیں۔ اگر افغان بارڈر سے متصل علاقوں کو دیکھا جائے تو وہاں آپکو بمشکل مؤثر انتظامی ڈھانچہ دیکھنے کو ملتا ہے جو  گورننس  کے مسائل میں اضافے کا باعث ہے۔ ان بارڈر ایریاز میں انتہائی مضبوط پولیٹیکل ٹیرر کرائم گٹھ جوڑ ہے جسکی سہولت کاری فتنہ الخوارج کرتے ہیں۔ اگر سرحد پار سے دہشت گردوں کی تشکیلیں آرہی ہیں یا غیر قانونی سمگلنگ اور تجارت ہو رہی ہے تو اندرون ملک اس کو روکنا کس کی ذمہ داری ہے؟ ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ اگر لاکھوں نان کسٹم پیڈ گاڑیاں آپ کے صوبے میں گھوم رہی ہیں تو انہیں  کس نے روکنا ہے؟ نان کسٹم پیڈ گاڑیاں اس پولیٹیکل ٹیرر کرائم نیکسز کا حصہ  ہیں جو خودکش حملوں میں استعمال ہوتی ہیں۔ افغانستان کے ساتھ دوحہ معاہدے کے حوالے سے پاکستان کا موقف بالکل واضح ہے۔ پاکستان کا موقف ہے کہ افغان طالبان رجیم دہشتگردوں کی سہولت کاری بند کریں۔ افغانستان میں دہشتگردی کے مراکز اور القاعدہ، داعش اور دہشتگرد تنظیموں  کی قیادت موجود ہے وہاں سے انہیں اسلحہ اور فنڈنگ بھی ملتی ہے جو پاکستان کے خلاف استعمال ہوتی ہے ہم نے انکے سامنے تمام ثبوت رکھے جنہیں وہ نظرانداز نہیں کر سکتے۔ پاکستان کا افغان طالبان رجیم سے مطالبہ ہے کہ وہ ایک قابلِ تصدیق میکانزم کے تحت معاہدہ کریں، اگر قابلِ تصدیق میکنزم تھرڈ پارٹی نے رکھنا ہے تو پاکستان کو اس پر اعتراض نہیں ہوگا۔ پاکستان کے اس موقف کی مکمل آگاہی ثالث ممالک کو بھی ہے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ فتنہ الخوارج کے بارے میں طالبان رجیم کا یہ دعویٰ کہ وہ پاکستانی ہیں، ہجرت کر کے آئے ہیں اور ہمارے مہمان ہیں، غیر منطقی ہے۔ اگر وہ پاکستانی شہری ہیں تو ہمارے حوالے کریں، ہم انکو اپنے قانون کے مطابق ڈیل کریں گے۔ یہ کیسے مہمان ہیں جو مسلح ہو کر پاکستان آتے ہیں؟ SIGAR کی رپورٹ کے مطابق امریکی افواج انخلا کے دوران 7.2 بلین ڈالرز کا امریکی فوجی ساز و سامان افغانستان چھوڑ گئی ہیں۔ افغان رجیم نہ صرف پاکستان بلکہ پورے خطے اور دنیا کیلئے ایک خطرہ بن چکا ہے۔ افغانستان میں2021ء کے بعد ریاست اور حکومت کا قیام ہونا تھا جو ممکن نہ ہو سکا۔ طالبان رجیم نے اس وقت Non State Actor پالے ہوئے ہیں جو خطے کے مختلف ممالک کیلئے خطرہ ہیں۔ پاکستان کا مطالبہ واضح ہے کہ افغان طالبان کا طرز عمل ایک ریاست کی طرح ہونا چاہئے۔  دوحہ مذاکرات میں افغان طالبان نے بین الاقوامی برادری  سے اپنی سرزمین دہشتگردی کیلئے استعمال نہ ہونے کا وعدہ کیا مگر اس پر اب تک عمل نہیں ہوا۔ افغان طالبان رجیم افغانوں کا نمائندہ نہیں ہے کیونکہ یہ تمام قومیتوں کی نمائندگی نہیں کرتا، افغانستان کی 50 فیصد خواتین کی نمائندگی کا اس رجیم میں کوئی وجود نہیں۔ ہمارا افغانوں کے ساتھ کوئی مسئلہ نہیں، بلکہ ہمارا مسئلہ افغان طالبان رجیم کے ساتھ ہے۔ پاکستان اور افغانستان کے مابین تجارت کی بندش کا مسئلہ ہماری سکیورٹی اور عوام کے جان و مال کے تحفظ سے جڑا ہے۔ خونریزی اور تجارت اکٹھے نہیں چل سکتے۔ ہمارے لئے اچھے یا برے دہشتگرد میں کوئی تفریق نہیں، ہمارے لئے اچھا دہشتگرد وہی ہے جو جہنم واصل ہو چکا۔ ہمیشہ حق باطل پے غالب آتا ہے، ہم حق پر ہیں اور حق ہمیشہ فتحیاب ہوتا ہے۔ افغان مہاجرین کی باعزت وطن واپسی کے عمل کے تحت 2024ء میں 366,704 جبکہ 2025ء میں 971,604 افراد کو واپس بھیجا جا چکا ہے۔ صرف رواں ماہ یعنی نومبر کے دوران 239,574 افراد کو واپس بھیجا گیا۔ ہندوستان میں خود فریبی کی سوچ رکھنے والی قیادت کی اجارہ داری ہے۔ انڈین آرمی چیف کا یہ بیان کہ ہم نے آپریشن سندور کے دوران ایک ٹریلر دکھایا خود فریبی کی حامل سوچ کا عکاس ہے۔ جس ٹریلر میں سات جہاز گر جائیں، 26 مقامات پر حملہ ہو جائے اور ایس-400کی بیٹریاں  تباہ ہو جائیں تو ایسے ٹریلر پر مبنی فلم ان کیلئے horror فلم بن جائے گی۔ سندور میں ہوئی شکست پر بار بار کے جھوٹے ہندوستانی بیانات عوامی غم و غصے کو تحلیل کرنے کیلئے ہیں۔ کوئی بھی ملک اگرافغان طالبان رجیم کو فوجی سازو سامان مہیا کرتا ہے تو یہ دہشتگردوں کے ہاتھ ہی لگے گا۔ ریاست پاکستان اور اس کے اداروں کے خلاف زہریلا بیانیہ بنانیوالے X اکاؤنٹس بیرون ملک سے چلتے ہیں۔ پاکستان سے باہر بیٹھ کر یہاں کی سیاست اور دیگر معاملات میں زہر ڈالنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ بیرون ملک سے آپریٹ ہونے والے سوشل میڈیا کے یہ اکاؤنٹس لمحہ بہ لمحہ پاکستان کے خلاف بیانیہ بنانے میں مصروف ہیں۔ یہ بات واضح ہے کہ جو سوشل میڈیا پاکستان میں چل رہا ہے۔ درحقیقت  اس کے پیچھے بیرونی ہاتھ ہیں، ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ دہشتگردی پر تمام حکومتوں اور سیاسی پارٹیوں کا  اتفاق ہے کہ اس کا حل نیشنل ایکشن پلان میں ہے۔ اس پلان کو عملی جامہ پہنانے کیلئے بلوچستان میں ایک مربوط نظام وضع کیا گیا ہے جبکہ خیبر پی کے میں اسکی کمی نظر آتی ہے۔ اس نظام کے تحت ضلعی، ڈویژنل اور صوبائی سطح پر سٹیرنگ، مانیٹرنگ اور implementation کمیٹیاں بنائی گئی ہیں۔ ایرانی ڈیزل کی سمگلنگ غیر قانونی سپیکٹرم کی بڑی وجوہات میں سے ایک ہے۔ اس مد میں حاصل ہونے والی رقم دہشتگردی کے فروغ کیلئے استعمال کی جاتی ہے۔ ایرانی ڈیزل کی سمگلنگ پر آرمی اور ایف سی اور صوبائی حکومت کے کریک ڈاؤن سے پہلے 20.5 ملین لیٹر ڈیزل کی یومیہ سمگلنگ ہوتی تھی یہ مقدار کم ہو کر 2.7 ملین لیٹر یومیہ پر آ چکی ہے۔ ایران سے سمگل ہونے والے ڈیزل کی مد میں حاصل ہونے والی رقم بی ایل اے اور BYC کو جاتی ہے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد کے باعث بلوچستان کے 27 ضلعوں کو پولیس  کے دائرہ اختیار میں لایا جا چکا ہے جو کہ بلوچستان کا 86 فیصد حصہ ہے۔ بلوچستان میں صوبائی حکومت اور سکیورٹی فورسز مقامی لوگوں سے مسلسل انگیجمنٹ کر رہے ہیں۔ اس طرح کی 140 یومیہ اور 4000 ماہانہ انگیجمنٹ ہو رہی ہیں جسکے بہت دورس نتائج ہیں ان حکومتی اقدامات کے بغیر دہشت گردی کو قابو نہیں کیا جا سکتا۔

متعلقہ مضامین

  • لکی مروت میں پولیس موبائل پر خودکش حملہ‘ سپاہی شہید‘5اہلکار زخمی
  • لکی مروت: پولیس موبائل پر خودکش حملہ، ایک اہلکار شہید
  • لکی مروت میں پولیس موبائل پر خودکش حملہ، سپاہی شہید
  • ایف سی ہیڈ کوارٹرز خودکش دھماکہ، تینوں حملہ آوروں کے افغان شہری ہونے کی تصدیق  
  • ایف سی ہیڈکوارٹر خودکش دھماکا: حملہ آور افغان شہری تھے‘ نادرا نے تصدیق کردی
  • ایف سی ہیڈکوارٹر خودکش دھماکا، حملہ آوروں کا تعلق کس ملک سے تھا، نادرا نے بتادیا
  • ایف سی ہیڈکوارٹر خودکش دھماکا؛ حملہ آور افغان شہری تھے، نادرا نے تصدیق کردی
  • ایف سی ہیڈکوارٹر خودکش دھماکا؛ حملہ آوروں افغان شہری تھے، نادرا نے تصدیق کردی
  • افغان طالبان  دہشت گردوں کے سہولت  کار : ڈی  جی آئی ایس پی آر