جے یو آئی کے سربراہ نے قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ سال 1973 میں ذوالفقار علی بھٹو کے پاس دو تہائی اکثریت تھی، وہ آئین میں ترمیم کر سکتے تھے، مگر ان کی طرف سے مذاکرات کیے گئے۔ 9 ماہ کی محنت کے بعد 18ویں ترمیم تیار کی تو لگا ہماری جماعتیں اختلاف کے باوجود اکٹھی ہو سکتی ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ 27ویں آئینی ترمیم میں کسی کو اعتماد میں نہیں لیا گیا۔ اس ترمیم میں بعض شخصیات کو ایسی سہولتیں و مراعات دی گئیں، ایسی مراعات کسی کو دینا خدمات کا صلہ نہیں بلکہ طبقاتی تقسیم کرنا ہے۔ قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران اظہار خیال کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ اس ترمیم میں بعض شخصیات کو ایسی سہولتیں و مراعات دی گئیں، ایسی مراعات کسی کو دینا خدمات کا صلہ نہیں بلکہ طبقاتی تقسیم کرنا ہے۔

انہوں نے کہا کہ قوم نے ان ترامیم کو قبول نہیں کیا گیا، کوشش کی جائے کہ آئین متنازع نہ ہو، یہ ترمیم اسی طرح متنازع ہوگی جیسے 18ویں ترمیم سے پہلے کی ترامیم۔ انہوں نے کہا کہ سال 1973 میں ذوالفقار علی بھٹو کے پاس دو تہائی اکثریت تھی، وہ آئین میں ترمیم کر سکتے تھے، مگر ان کی طرف سے مذاکرات کیے گئے۔ 9 ماہ کی محنت کے بعد 18ویں ترمیم تیار کی تو لگا ہماری جماعتیں اختلاف کے باوجود اکٹھی ہو سکتی ہیں۔ 26ویں آئینی ترمیم آئی تو پی ٹی آئی اس میں شریک نہیں تھی، ہم 26ویں آئینی ترامیم کا پی ٹی آئی کو بتایا کرتے تھے۔ واضح رہے کہ پارلیمنٹ نے مشترکہ اجلاس میں اقلیتوں کے حقوق کا کمیشن قائم کرنے کا بل منظور کر لیا گیا ہے۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: نے کہا کسی کو کہا کہ

پڑھیں:

راستہ تبدیل نہیں ہوگا، ضرورت پڑی تو اسلام آباد کا رخ کریں گے ، مولانا فضل الرحمان

 

ٹرمپ کے ہاتھوں سے فلسطینیوں کا خون ٹپک رہا ہے ، شہباز شریف اسے امن کا نوبل انعام دینے کی بات کر رہے ہیں، آئین کو کھلونا بنا دیا گیا ،بڑے لوگوں کی خواہش پر آئینی ترامیم ہو رہی ہیں

افغان پالیسی پر پاکستان کی سفارت کاری ناکام رہی، جنگ کی باتوں سے مسئلے حل نہیں ہوں گے ، پاکستان اور افغانستان کو اپنے رویوں پر نظرثانی کرنی چاہیے ،سربراہ جے یو آئی کا خطاب

مردان (بیورو رپورٹ)جمعیت علما اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے ایک بار پھر واضح کیا ہے کہ اپنا راستہ تبدیل نہیں کریں گے ، ضرورت پڑی تو اسلام آباد کا رخ کریں گے ، ملک کوامن، بھائی چارے اور آزادی کی علامت ہونا چاہیے تھا، عوام کو حقوق دینا حکومتوں کی ذمہ داری ہے ، آئین کو کھلونا بنا دیا گیا ہے ، عوام کی خواہشات کے بجائے بڑے لوگوں کی خواہش پر آئینی ترامیم ہو رہی ہیں، افغان پالیسی پر پاکستان کی سفارت کاری ناکام رہی، جنگ کی باتوں سے مسئلے حل نہیں ہوں گے ، پاکستان اور افغانستان کو اپنے رویوں پر نظرثانی کرنی چاہیے ، ٹرمپ کے ہاتھوں سے فلسطینیوں کا خون ٹپک رہا ہے اور شہباز شریف ٹرمپ کو امن کا نوبل انعام دینے کی بات کر رہے ہیں،عمران کی ذات سے نہیں اس کی پالیسیوں سے اختلاف تھا۔ اتوار کو جامعہ اسلامیہ میں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انہوںنے کہاکہ پاکستان ان امیدوں پر حاصل کیا گیا تھا کہ یہاں اسلام کا بول بالا ہوگا ،حکومتوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس ملک میں عام آدمی کو ان کے حقوق دیں ،خوشحال معیشت کا مکمل نظام رائج کریں ۔ انہوںنے کہاکہ آج آئین کو کھلونا بنا دیا گیا ہے ،طاقتوروں کے منشاء پر ان کے مفادات کے لئے پارلیمنٹ قانون سازی کرتی ہے ،عوام کی خواہشات پر شب خون مارا جاتا ہے ،جمہوری ماحول کو اس لئے پسند کیا کہ اس ماحول میں اپنے نظریات کو فروغ دیں گے ۔ انہوںنے کہاکہ گذشتہ برس ایک آئینی ترمیم کی گئی جس میں جے یو آئی فریق تھی،اس ترمیم میں سود کے خاتمے ، وفاقی شرعی عدالت کو طاقتور بنانے ، اسلامی نظریاتی کو نسل کو پارلیمنٹ میں زیر بحث لانے کے لئے آئین کا حصہ بنا یا ،دینی مدارس کے رجسٹریشن کے لئے راستہ کھولا،ایک سال ہوا رجسٹریشن نہیں ہوئی،اصل مدارس کی رجسٹریشن زیر التواء ہے ،اب جو ترمیم پاس ہوئی اس میں کیا قانون پاس ہوا اور کیوں ہوئے ؟ ۔ انہوںنے کہاکہ لوگوں کو خرید کر دو تہائی اکثریت بنائی گئی۔ ،جب دارومدار جے یوآئی کے ووٹ پر تھا تو ہم نے وہ قانون پاس کیا ،اب جعلی اکثریت سے ترمیم کی گئی تو قانون پاس ہوا کہ پاکستان کا ہر شہری اپنی جنس تبدیل کرسکتا ہے ۔ انہوںنے کہاکہ 18 سال سے کم عمر کو بالغ تصور نہیں کیا جائیگا، یہ دین اسلام کے ساتھ کھلا مذاق ہے ،اگر اٹھارہ سال سے کم عمر شادی ہوئی تو زنا بالجبر تصور ہونے کے ساتھ ساتھ اولا جائز تصور ہوگی ،یہ معاشرے قانون اور اسلام کے ساتھ مذاق ہے ۔ انہوںنے کہاکہ جے یو آئی اپنے اصولوں پر کبھی سمجھوتہ نہیں کرے گی ۔ مولانا فضل الرحمن نے کہاکہ بنگلہ دیش معاشی میدان میں ترقی کرچکا ہے ،ہماری کرنسی اب ٹکے کی نہیں ۔ انہوںنے کہاہک عمران سے گلہ تھا کہ وہ مغربی دنیا کا ایجنٹ ہے ۔لیکن آج کے حکمران کہہ سکتے ہیں کہ ہم نے اس ایجنڈے کو تسلسل نہیں دیا ؟ بلکہ اس کو عملی جامہ پہنا رہے ہیں۔ ۔ انہوںنے کہاکہ سی پیک عمران خان نے بند کیا تھا لیکن کیا اب سی پیک میں ایک اینٹ بھی لگائی گئی ؟ ،جرنیل کے مراعات اور ایکسٹینشن کے قوانین کل بھی بنتے تھے آج بھی بنتے ہیں۔انہوںنے کہاکہ ،مدارس رجسٹریشن کل بھی بند تھی آج بھی بند ہے ،سی پیک کل بھی بند تھا آج بھی بند ہے ،یہ حکمران اسی پالیسی کا تسلسل ہے ۔ ۔ انہوںنے کہاکہ عمران کی ذات سے نہیں اس کی پالیسیوں سے اختلاف تھا۔ انہوںنے کہاکہ اگر ان کے خلاف تحریک چلائی تھی تو آج بھی چلائیں گے ۔ انہوںنے کہاکہ افغان پالیسی ناکام ہے ،78 سال میں پاکستان افغانستان کو دوست نہیں بنا سکا۔ انہوںنے کہاکہ تم صرف جنگ جانتے ہو،یہ مسئلہ آپ حل نہیں کرسکتے ،دونوں ملکوں میں جنگ نہیں ہونی چاہیے انہوںنے کہاکہ پاکستان میں مسلح جنگ نہیں ہونی چاہیے ، خطے میں امن کے لئے اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کریں۔

متعلقہ مضامین

  • راستہ تبدیل نہیں ہوگا، ضرورت پڑی تو اسلام آباد کا رخ کریں گے ، مولانا فضل الرحمان
  • حکومت مغرب کے اصل ایجنڈے پر عملدرآمد کر رہی ہے، مولانا فضل الرحمان حکومت پر برس پڑے
  • جنگ مسئلے کا حل نہیں! پاکستان اور افغانستان اپنے رویوں پر نظر ثانی کریں، فضل الرحمان
  • راستہ تبدیل نہیں ہوگا، ضرورت پڑی تو اسلام آباد کا رخ کرینگے: فضل الرحمان
  • راستہ تبدیل نہیں ہوگا، ضرورت پڑی تو اسلام آباد کا رخ کریں گے: مولانا فضل الرحمان
  • دفترِ خارجہ نے اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمشنر کے 27ویں آئینی ترمیم پر بیان کو مسترد کر دیا
  • یو این ہائی کمشنر کا 27ویں آئینی ترمیم پر بیان، پاکستان کا سخت موقف سامنے آگیا
  • پاکستانی پارلیمنٹ نے دو تہائی اکثریت سے 27ویں آئینی ترمیم منظور کی، ترجمان دفتر خارجہ