سونے سے قبل کون سے سپلیمنٹس نقصان دہ ہیں؟
اشاعت کی تاریخ: 2nd, December 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اسلام آباد: وٹامنز اور غذائی سپلیمنٹس کی رات کے وقت استعمال کو اکثر لوگ آسان اور سہل سمجھتے ہیں، لیکن ماہرین غذائیت اور تحقیق کے مطابق ہر سپلیمنٹ نیند کے لیے موزوں نہیں ہوتا۔ کچھ وٹامنز اور معدنیات رات کو لینے سے نیند متاثر ہو سکتی ہے، جبکہ کچھ دیگر سپلیمنٹس سونے سے پہلے لینے سے نیند اور مجموعی صحت میں بہتری آتی ہے۔
ماہرین غذائیت کے مطابق بی وٹامنز، خصوصاً وٹامن بی12، توانائی پیدا کرنے اور اعصابی نظام کی سرگرمی کے لیے اہم ہیں۔ انہیں دن کے ابتدائی حصے میں لینا زیادہ فائدہ مند ہے، کیونکہ بی12 کی کمی یا ضرورت سے زیادہ مقدار نیند کے مسائل پیدا کر سکتی ہے۔ بالغ افراد کے لیے روزانہ تقریباً 1.
کیلشیم بھی ایک ایسا معدنی عنصر ہے جسے رات کے وقت لینا بعض اوقات نیند پر منفی اثر ڈال سکتا ہے، کیونکہ یہ میگنیشیم کے جذب کو متاثر کرتا ہے، جو کہ نیند کے معیار کے لیے اہم ہے۔ بالغ افراد کے لیے یومیہ تقریباً 1000 ملی گرام کیلشیم کی تجویز ہے، اور بہتر ہے کہ یہ خوراک کے ذریعے حاصل کیا جائے، جیسے دودھ، دہی یا دیگر دودھ کی مصنوعات۔
چونکہ زیادہ تر ملٹی وٹامنز میں بی وٹامنز اور کیلشیم شامل ہوتے ہیں اور یہ چربی میں گھلنے والے وٹامنز ہیں، انہیں سونے سے فوراً پہلے لینے کے بجائے کھانے کے ساتھ لینا بہتر ہے، خصوصاً ان افراد کے لیے جنہیں غذائی اجزاء کی کمی ہو یا وہ بزرگ ہوں۔
دوسری جانب کچھ سپلیمنٹس رات کو لینے سے نیند کو بہتر بنانے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں۔ میگنیشیم، خاص طور پر تھیریونیٹ یا سائٹریٹ کی شکل میں، نیند کے معیار کو بہتر بنانے، موڈ اور دن بھر چوکسی بڑھانے میں معاون ہے۔ بالغ افراد کے لیے تقریباً 270 ملی گرام اور مردوں کے لیے 300 ملی گرام مناسب تصور کیا جاتا ہے۔
وٹامن سی بھی نیند کے لیے اہم کردار ادا کرتا ہے۔ تحقیق کے مطابق مناسب خون میں وٹامن سی کی سطح بہتر نیند سے منسلک ہے۔ روزانہ 40 ملی گرام کافی ہے، جبکہ بعض مطالعات میں 132–191 ملی گرام تک لینے کی سفارش کی گئی ہے۔ آئرن کی کمی والے افراد میں آئرن سپلیمنٹس سونے سے پہلے لینے سے نیند کے پیٹرن میں بہتری آ سکتی ہے۔ مینوپاز کے بعد خواتین کے لیے 8.7 ملی گرام اور مردوں کے لیے 11.3 ملی گرام مناسب ہے۔
پولی انسیچوریٹڈ اومیگا 3 فیٹی ایسڈز بھی نیند کی کارکردگی بہتر بنانے میں مددگار ہیں، کیونکہ یہ سیروٹونن کی سطح کو منظم کرتے ہیں اور نیند کو مستحکم رکھتے ہیں۔ بالغ افراد کے لیے روزانہ کم از کم 250 ملی گرام، جبکہ بعض ماہرین ایک گرام تک لینے کی سفارش کرتے ہیں۔
ہر فرد کی جسمانی ضروریات مختلف ہوتی ہیں، لہٰذا سپلیمنٹس لینے سے پہلے ڈاکٹر یا غذائی ماہر سے مشورہ کرنا ضروری ہے۔ ماہرین کے مطابق صحیح سپلیمنٹس کو صحیح وقت پر لینا نہ صرف نیند کے معیار کے لیے اہم ہے بلکہ مجموعی صحت کے لیے بھی کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: بالغ افراد کے لیے لینے سے نیند کے لیے اہم کے مطابق ملی گرام نیند کے
پڑھیں:
معیشت میں بہتری کیلئے بہتر طرز حکمرانی کی ضرورت
وزیرِ خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا ہے کہ اس وقت معیشت کو پیداوار میں اضافے، بہتر طرزِ حکمرانی اور کاروباری اصلاحات کی ضرورت ہے، تاکہ ملک اپنے مسائل سے نکلنے کیلئے برآمدات کے ذریعے راستہ بنائے تا کہ ترسیلات اور قرض پر چلنے والی کھپت پر مبنی نمو سے نکل سے۔
انھوں نے دعویٰ کیا کہ حکومت اُس تیز رفتار معاشی نمو کی حکمتِ عملی سے دور ہو رہی ہے جس نے بارہا ملک کو معاشی بحرانوں میں دھکیل دیا، وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کے اس بیان سے واضح ہوتاہے کہ وہ موجودہ طرز حکمرانی اور حکومت کی جانب سے معاشی اصلاحات کے اعلانات سے مطمئن نہیں ہیں ،اور وہ یہ سمجھتے ہیں کہ طرز حکمرانی میں موجود خامیاں اور کاروباری اصلاحات نہ ہونے کی وجہ سے معیشت کو پیداوار میں اضافے کی بنیاد پر استوار نہیں کیاجاسکا ہے اور ملک ترسیلات زراور قرضوں پر کھڑاہے، یقینا وزیرخزانہ کا یہ بیان اُن لوگوں کیلئے مایوس کن ہوگا جو قلیل مدتی سوچ رکھتے ہیں اور ذاتی فائدے کیلئے معیشت کی ترقی کے ڈھنڈورے پیٹ رہے ہیں، ان کا یہ بیان ان لوگوں کیلئے بھی مایوس کن ہوگا جو ایک اور’بوم سائیکل‘کی توقع لگائے بیٹھے تھے تاکہ انھیں اپنی تجوریاں بھرنے کا موقع مل سکے۔
گزشتہ روز روز پاکستان بزنس کونسل کے ایک اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے ماضی کے طریقوں سے ہٹ کر معاشی سمت میں واضح تبدیلی کا اشارہ دیا اور واضح کیا کہ اب ہمارا ہدف 5 سے 6 فیصد کی قلیل مدتی جی ڈی پی نمو کے حصول کا نہیں، جو ماضی میں عدم استحکام کا سبب بنی۔ انہوں نے کہا کہ ہم نمو کے سابقہ چکروں کو دہرانا نہیں چاہتے جو انتہائی ناپائیدار ثابت ہوئے۔ اس کے بجائے اب ہماری توجہ معیشت کو مستحکم بنیادوں پر کھڑا کرنے، بوم اینڈ بسٹ سائیکل ختم کرنے اور پائیدار ترقی کی جانب بڑھنے پر مرکوز ہے۔ انہوں نے اس بات کی نشاندہی کی کہ اصل چیلنج معیشت کو ترقی کی راہ پر ڈالنا نہیں بلکہ اس رفتار کو برقرار رکھنا ہے، جب ایک بار یہ حاصل ہو جائے۔اگلے2سے3 برسوں میں تقریباً 4 فیصد اور درمیانی مدت میں 6 سے 7 فیصد تک کی نمو کی اُن کی پیشگوئی اس کمزور معیشت کیلئے حقیقت پسندانہ تاثر رکھتی ہے۔
پاکستان بلاشبہ اُس مرحلے سے بہت آگے نکل آیا ہے جب وہ دیوالیہ ہونے کے دہانے پر کھڑا تھا۔ تاہم وزیر خزانہ کے بیان سے ظاہرہوتاہے کہ یہ مشکل سے حاصل شدہ استحکام جو عوام نے بھاری قیمت چکاکر حاصل کیا گیاحکومت کے تمامتر دعووں کے برعکس اب بھی کمزور اور غیرمستحکم ہے۔ یہ زیادہ تر پائیدار صنعتی و برآمدی صلاحیت کی بجائے ترسیلات زر کے مسلسل بلند رہنے پر انحصار کرتا ہے اور ترسیلات زر میں معمولی سی کمی یا دباؤ بھی اس استحکام کو باآسانی گرا سکتا ہے۔ اس کی مثال بیرونی شعبے پر بڑھتا ہوا دباؤ ہے، جہاں موجودہ مالی سال کے ابتدائی 4ماہ میں معمولی معاشی رفتار کے نتیجے میں تجارت اور کرنٹ اکاؤنٹ خسارے تیزی سے بڑھے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ مہنگی توانائی، بھاری ٹیکس بوجھ، اور سکڑتی ہوئی طلب کے باعث منظم کاروباری شعبے کیلئے حالات بہت سخت ہیں۔ لیکن عام شہری کیلئے حالات اس سے بھی زیادہ کٹھن ہیں جو بڑھتی بے روزگاری، حقیقی اجرتوں میں کمی اور مہنگائی کے طوفان سے نبرد آزما ہیں۔ اگر صرف اس لئے ملک ایک نئے بیلنس آف پیمنٹس بحران میں واپس لڑھک جائے کہ جائداد کے سوداگر اور بڑے تاجر استحکام کی پالیسیوں سے ناخوش ہیں، تو یہ انتہائی بدقسمتی ہوگی۔اس وقت معیشت کو ضرورت پیداوار میں اضافے، بہتر طرزِ حکمرانی اور کاروباری اصلاحات کی ہے، تاکہ ملک اپنے مسائل سے نکلنے کیلئے برآمدات کے ذریعے راستہ بنائے نہ کہ ترسیلات اور قرض پر چلنے والی کھپت کی بنیاد پر اپنی کامیابیوں کے ڈھنڈورے پیٹے۔