data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
دنیا میں جتنے بھی ممالک ہیں ان سب کے قیام کی کوئی نہ کوئی وجہ ہے اور وہ کسی نہ کسی نظام حکومت کے تحت اپنے تمام معاملات چلاتے ہیں وہ کسی نظریے کے تحت ہی وجود میں آئے ہیں کہیں حکومت کمیونزم کے تحت اپنے نظام کو چلارہی ہے کوئی سوشلزم کے تحت چلائے جارہے ہیں کوئی قومیت کے نظریے کے تحت اپنے معاملات چلاتے ہیں انہی نظریات کو سامنے رکھ کر ان ممالک کے دستور بنائے جاتے ہیں۔ ان ممالک کے اندر کوئی فرد کتنا ہی طاقتورکیوں نہ ہو مگر اس کو یہ حق نہیں کہ وہ اپنے نظام پر تنقید کرسکے۔ اگر کسی نے اس کی جرأت کی بھی ہے تو اس کو اس کے سنگین نتائج کو بھگتنا پڑا ہے۔ جب دنیا کے یہ نظام جو کہ انسانوں کے بنائے ہوئے نظام ہیں اور اس نظام پر تنقید کا حق اس نظام کے تحت قائم کردہ ممالک میں اس کے تحت زندگی گزارنے والے کسی انسانوں کے پاس نہیں ہے اور اگر کوئی اس کی جسارت کرتا ہے تو اس کی سزا مستحق قرار پاتا ہے لیکن پاکستان اسلام کے نام پر معرض وجود میں آیا ہے ہم سب جانتے ہیں کہ اسلام کے نام پر یہ ملک حاصل کیا گیا اس ملک کے وجود میں آنے کے اسباب وہ نہیں ہیں جس کی وجہ سے ممالک وجود میں آیا کرتے ہیں۔ مگر اسلام کے نظریے کی قوت نے ان ہونی کو ہونی کرکے دکھایا اور ایک ایسا ملک وجود میں آگیا کہ اس کے وجود میں آنے کے امکانات نہیں تھے۔
اسلام محض کسی پوجا پاٹ کی چند رسوم کا نام نہیں بلکہ یہ ایک پورا نظام زندگی ہے زندگی کا کوئی گوشہ ایسا نہیں ہے کہ جس کے متعلق مکمل رہنمائی اس میں موجود نہ ہو اس تمہید کے بعد ہم جنگ کے ایک کالم نگار کے کالم کی طرف آتے ہیں یہ کالم یکم دسمبر 2025 کا ہے کالم نگار کا نام ہے محمد بلال غوری انہوں نے جسٹس باقر نجفی کے اضافی نوٹ کو اپنا موضوع بنایا ہے۔ اس نوٹ کے جس حصّے سے بلال غوری کو تکلیف پہنچی وہ ملاخطہ فرمائیے جسٹس باقر علی نجفی سات صفحات پر مشتمل اس اضافی نوٹ کے دسویں اور آخری نکتے میں مقتولہ کی کردار کشی کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’میں نے یہ بھی مشاہدہ کیا ہے کہ موجودہ معاملہ بالائی طبقے میں پھیلتی ہوئی ایک بْرائی کا براہِ راست نتیجہ ہے جسے ہم Living relationship کے نام سے جانتے ہیں، جس میں سماجی پابندیوں کو نظرانداز کیا جاتا ہے تاکہ نہ صرف ملکی قانون بلکہ اسلام کے شریعتی شخصی قانون کی بھی خلاف ورزی کی جاسکے، جو دراصل اللہ تعالیٰ کیخلاف بغاوت ہے۔ نئی نسل کو اس کے بھیانک نتائج کو ضرور نوٹ کرنا چاہیے، جیسا کہ موجودہ کیس میں سامنے آیا ہے، جو سماجی مصلحین کے لیے بھی ایک موضوع ہے کہ وہ اسے اپنے حلقوں میں زیر ِ بحث لائیں‘‘۔ ’’لواِن ریلیشن شپ‘‘ کا مطلب ہے بغیر نکاح یا شادی کے ایک ساتھ رہنا۔ اس اضافی نوٹ کے ذریعے جج صاحب نے نہ صرف نور مقدم پر بہتان لگایا ہے بلکہ مجرم کے نہایت ظالمانہ فعل کو جواز فراہم کرنے کی کوشش کی ہے۔ ایک مظلوم عورت جسے نہایت بیدردی سے قتل کردیا گیا، وہ اب اپنے حق میں کوئی دلیل، ثبوت یا گواہی پیش کرنے سے قاصر ہے تو پھر اس کا کردار زیر بحث کیسے لایا جاسکتا ہے؟
اسلام نے عورت کو جتنی عزت عطا کی ہے اور اس کو جو مقام دیا ہے وہ محتاج بیان نہیں اور یہ بھی محتاج بیان نہیں کہ عورت کو مغرب نے کس طرح بے عزت کیا ہے۔ اسلام نے جہاں عورت کو نکاح کے حصار میں لے کر اس کے حقوق کا تحفظ کیا ہے اور اس کی عزت کو بلند مقام عطا کیا ان سب سے بڑھ بات یہ ہے کہ اگر عورت کو اسلام محفوظ نہ کرتا تو نسل انسانی کس طرح محفوظ ہوتی؟ اگرچہ ہمارے ملک میں ایک دن کے لیے بھی اسلام کا عادلانہ نظام نہیں رہا ہے اور نہ ہی یہاں قرآن و سنت کے مطابق عدالت میں فیصلے ہوتے ہیں۔ ہمارے حکمرانوں نے مغرب کی وفاداری میں آئین تک کو ایک مذاق بنادیا جس کا جی چاہتا ہے وہ آئین میں ترمیم کرالیتا ہے اور جس کا جی چاہتا ہے وہ اپنی مرضی کی ترمیم کرالیتا ہے۔ جب جب انسان خدا و رسولؐ کی عائد کی گئی پابندیوں کو پھلانگ کر اپنی مرضی سے زندگی گزارے گا اس کو اس کا نقصان اُٹھانا پڑے گا۔ مرد وعورت کے درمیان رشتہ نکاح کے ذریعے قرار پاتا ہے یہی وہ پاکیزہ رشتہ ہے جس سے سارے رشتے جنم لیتے ہیں اور پھر انسانی نسل آگے بڑھتی ہے۔ ابلیس اور اس کے چیلے اسی نکاح کے رشتے پر حملہ آور ہوتے ہیں وہ یہی چاہتے ہیں کہ معاشرے میں فحاشی پھیلے مردوں اور عورتوں کا آزدانہ اختلاط ہو جس کے نتیجے میں رشتوں کی تمام اقدار مسخ ہوجائیں۔ جس طرح مغرب میں بغیر نکاح کے برسوں ایک مرد اور عورت رہتے ہیں اور پھر اپنی اپنی راہ لیتے ہیں۔ آج مغرب اور لبرل ازم پر رال ٹپکانے والے یہی چاہتے ہیں۔ یہ بات باقر نجفی نے ٹھیک کہی کہ بغیر نکاح کے مردوں وزن کا ایک ساتھ رہنا بالائی طبقے میں طرز زندگی بنتا جارہا ہے جس کے سنگین نتائج سامنے آتے رہتے ہیں۔ نور مقدم کا ایک واقعہ جو کہ سامنے آگیا وگر نہ اس طرح کے کتنے واقعات جو کہ رپورٹ ہی نہیں ہوتے ہیں۔ اس کیس میں جرم ثابت ہوچکا مجرم نے اعتراف جرم کرلیا ہے اور سزائے موت کا فیصلہ آچکا ہے مگر کیا مجرم سزا پائے گا آخر سزا پر عمل درآمد میں اتنی تاخیر کیو ں ہورہی ہے جہاں یہ سوالیہ نشان عدلیہ پر ہے وہاں دونوں اطراف کے لبرل خاندانوں کی طاقت کا بھی مسئلہ ہے۔ حالانکہ یہ ایک اضافی نوٹ ہے جس سے بلال غوری تکلیف سے بلبلا رہے ہیں اور ان کی چیخیں ایک کالم کی صورت میں ڈھل گئی ہے۔ یہ صرف بلال غوری کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ یہ ایک ٹولہ ہے جوکہ ایسے لوگوں کا دفاع کرتا ہے اور اس کے حق میں دلائل لاتا ہے۔ عورت مارچ ہو تو یہ طبقہ اس کے دفاع کے لیے اپنے قلم و قرطاس سنبھال لیتا ہے اور پوری قوّت کے ساتھ اس کا دفاع کرتا ہے۔ باقر نجفی کے محض اضافی نوٹ نے ان کے پیٹ میں مرورڑ پیدا کردیے بلال غوری جیسے لو گ بے نکاح مرد اور عورت کے ایک ساتھ ایک چھت کے نیچے رہنے کے حق میں دلائل دینا چاہتے ہیں۔ جب کہ اسلام کی اس سلسلے میں حسّاسیت کا اندازہ اس حکم سے لگائیں کہ وہ تو مردوں اور عورتوں کو اپنی اپنی نگاہیں تک نیچی رکھنے نے کا حکم دیتاہے۔ آپؐ نے فرمایا: جب بھی کوئی مرد کسی اجنبی عورت کے ساتھ تنہائی میں یک جا ہوتا ہے تو وہاں ان میں تیسرا شیطان ہوتا ہے‘‘۔ (مشکواۃ) دراصل نسل انسانی کے خلاف ایک شیطانی ایجنڈا ہے جس کو پورا کرنے کے لیے لبرل ازم متحرک ہوتا رہتا ہے۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: بلال غوری اضافی نوٹ اسلام کے اور عورت ہیں اور عورت کو نکاح کے کے نام اور اس کے لیے کے تحت ہیں کہ ہے اور
پڑھیں:
ریاست نے جواب دے دیا، اب کوئی بھی چیز انچ برابر بھی برداشت نہیں کی جائے گی: فیصل واوڈا
سینیٹر فیصل واوڈا نے کہا ہے کہ ریاست نے جواب دے دیا، اب کوئی بھی چیز انچ برابر بھی برداشت نہیں کی جائے گی۔اپنے بیان میں فیصل واوڈا کا کہنا تھاکہ میں نے نرم زبان استعمال کی تھی لیکن ریاست نے جواب دے دیا، اب پاکستان، اس کی افواج اور شہیدوں کا مذاق نہیں بنے گا۔انہوں نے کہا کہ اب کوئی بھی چیز انچ برابر بھی برداشت نہیں کی جائے گی اور فوج کے خلاف دشمن ملک بیانیے کوکسی صورت برداشت نہیں کیا جائے گا۔فیصل واوڈا کا کہنا تھاکہ آج ریاست نے اپنا جواب واضح طور پردے دیا ہے۔