data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251209-03-2
غزہ میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے امن منصوبے کے تحت ہونے والے جنگ بندی کے معاہدے کی جس بڑے پیمانے پر خلاف ورزی کی جارہی ہے اس نے دنیا پر اس امر کی حقیقت کو ایک بار پھر آشکار کردیا ہے کہ اسرائیل کسی طور اپنے جنگی اور جارحانہ عزائم سے باز آنے والا نہیں، میڈیا رپورٹس کے مطابق معاہدے کے باوجود اسرائیل 591 مرتبہ معاہدے کی خلاف ورزی کرچکا ہے، جن میں فضائی حملے، گولی باری اور دھماکے شامل ہیں۔ ان حملوں میں 373 فلسطینی شہید اور 970 زخمی ہوچکے ہیں جن میں اکثریت عام شہریوں، بچوں اور خواتین کی ہے جب کہ اسرائیلی بمباری کے نتیجے میں ہزاروں عمارتیں بھی تباہ و برباد کی گئیں، اقوام متحدہ کے مطابق شمالی مغربی کنارے میں بھی اسرائیل درندگی کا کھیل جاری رکھے ہوئے ہے جس کے نتیجے میں 227 فلسطینی شہید چکے ہیں اور 95 ہزار سے زائد افراد بری طرح متاثر ہوئے ہیں، رواں سال مقبوضہ مغربی کنارے میں غیرقانونی آبادکاروں کی جانب سے 1 ہزار 680 حملے کیے گئے۔ اس صورتحال پر انسانی حقوق کی تنظیموں نے اس کا نوٹس لیتے ہوئے اسے انسانی حقوق اور معاہدے کی کھلی خلاف ورزی قرار دیا جبکہ آئرلینڈ، اسپین، نیدرلینڈ اور سلووینیا کے سرکاری نشریاتی اداروں نے اعلان کیا ہے کہ وہ یورو وژن 2026ء کا بائیکاٹ کریں گے کیونکہ یورپی براڈکاسٹنگ یونین نے اسرائیل کو آئندہ مقابلے میں شریک ہونے کی اجازت دے دی ہے حالانکہ غزہ میں جاری انسانیت سوز تباہی کے تناظر میں اس فیصلے کے خلاف وسیع سطح پر اعتراضات اٹھائے جا رہے ہیں۔ مگر المیہ یہ ہے کہ امریکا اور معاہدے کے ثالث ممالک نوٹس لینے پر آمادہ نہیں۔ صورتحال کی سنگینی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اقوامِ متحدہ کے جنرل سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس بھی یہ کہنے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ اسرائیلی فوج غزہ میں جنگی جرائم کا ارتکاب کر رہی ہے اس کے شواہد موجود ہیں، ان کا کہنا ہے کہ اسرائیل نے حماس کے خاتمے کے نام پر جو آپریشن شروع کیا ہے اس کے نتیجے میں پورا غزہ تباہ ہو چکا ہے۔ غزہ میں ہونے والے نقصان کی نوعیت اور شدت یہ ظاہر کرتی ہے کہ اسرائیلی فوج کی کارروائی کے طریقہ کار میں سنگین خامیاں ہیں، ایسے شواہد موجود ہیں جن سے یہ یقین کیا جا سکتا ہے کہ اسرائیلی فوج نے غزہ میں جنگی جرائم کا ارتکاب کیا ہے۔ دوسری جانب قطر کے دار الحکومت میں 23 ویں دوحا فورم 2025 کے آغاز کے موقع پر قطری وزیراعظم شیخ محمد بن عبدالرحمن الثانی اور مصری وزیرخارجہ نے فلسطینی سرزمین سے اسرائیلی افواج کے مکمل انخلا کی ضرورت پر زور دیا۔ اس دوران ترک نمائندے نے بھی جنگ بندی معاہدے کی اہم شقوں پر اظہارخیال کیا۔ یہ تینوں ملک جنگ بندی معاہدے کے ضامن اور ثالث ہیں جسے امریکی صدر ٹرمپ نے رواں سال اکتوبر کے دوران بین الاقوامی منظوری کے لیے مصر کے شہر شرم الشیخ میں پیش کیا تھا۔ شیخ محمد بن عبد الرحمن الثانی کا کہنا تھا کہ دو ماہ سے جاری غزہ جنگ بندی اْس وقت تک مکمل نہیں سمجھی جائے گی جب تک امریکی اور اقوامِ متحدہ حمایت یافتہ امن منصوبے کے تحت اسرائیلی فوج فلسطینی علاقے سے واپس نہیں چلی جاتی۔ واضح رہے کہ غزہ جنگ بندی معاہدے کے دوسرے مرحلے میں اسرائیل کو غزہ میں اپنی پوزیشنوں سے دستبردار ہونا ہے، عبوری انتظامیہ کو حکمرانی سنبھالنی ہے اور ایک بین الاقوامی استحکام فورس (آئی ایس ایف) کی تعیناتی طے ہے۔ مغربی اور عرب سفارتی ذرائع کا کہنا ہے کہ غزہ کی بین الاقوامی اتھارٹی میں مشرقِ وسطیٰ اور مغربی ممالک کے بارہ رہنما شامل ہوں گے۔ رواں سال کے آخر تک اس تھارٹی کے اعلان کی توقع ہے۔ امن کونسل کے سربراہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ہوں گے۔ یہ اتھارٹی اقوامِ متحدہ کی جانب سے تفویض اختیارات کے تحت دو سال کے لیے غزہ کی پٹی کا انتظام چلائے گی جس میں توسیع کا امکان بھی موجود ہے۔ فلسطینی ماہرین پر مشتمل ایک ٹیکنوکریٹ کمیٹی کے قیام کا اعلان بھی کیا جائے گا، جو جنگ کے بعد غزہ کی پٹی کے روزمرہ انتظامات کی ذمے دار ہو گی۔ غزہ امن منصوبے کے دوسرے مرحلے میں تباہ حال غزہ کی پٹی کی دوبارہ تعمیر شامل ہے، لیکن مالیاتی ذرائع کے بارے میں ابھی واضح فیصلہ نہیں ہوا۔ حماس نے گزشتہ روز اعلان کیا تھا کہ وہ غزہ کی حکمرانی کے لیے ایک ٹیکنوکریٹ کمیٹی تشکیل دینے پر رضا مند ہے۔ حماس کی مذاکراتی ٹیم کے سربراہ خلیل الحیہ کا کہنا ہے کہ حماس اسرائیلی فوج کا قبضہ ختم ہونے کی صورت میں غزہ میں اپنے ہتھیار اس فلسطینی اتھارٹی کے حوالے کرنے کو تیار ہے جو اس علاقے کا انتظام سنبھالے، ان کا کہنا تھا کہ ہمارے ہتھیار قبضے اور جارحیت کی وجہ سے ہیں، اگر قبضہ ختم ہو جائے تو یہ ہتھیار ریاست کے اختیار میں دے دیے جائیں گے۔ تاہم خلیل الحیہ کے دفتر نے وضاحت کی کہ وہ ایک آزاد اور مکمل خودمختار فلسطینی ریاست کی بات کر رہے تھے۔ حماس کے مذاکرات کار نے مزید کہا کہ ہم اقوامِ متحدہ کی فورسز کی تعیناتی کو قبول کرتے ہیں جو سرحدوں کی نگرانی کریں اور جنگ بندی پر عمل کروائیں تاہم ایسی بین الاقوامی فورس کو مسترد کرتے ہیں جس کا مقصد حماس کو غیر مسلح کرنا ہو۔ اس صورتحال کے باجود اسرائیل کی ڈھٹائی کا اندازہ اس سے لگا جاسکتا ہے کہ وہ اب بھی رفح کراسنگ کو یکطرفہ طور پر کھولنے اور غزہ کی پٹی کے رہائشیوں کو مصر منتقل کرنے کے عزائم کا اظہار کر رہا ہے جس پر پاکستان، سعودی عرب، مصر، اردن، متحدہ عرب امارات، انڈونیشیا، ترکی اور قطر نے جمعے کو اپنے مشترکہ بیان میں گہری تشویش کا اظہار کیا اور واضح کیا کہ فلسطینی عوام کی اپنی سرزمین سے بے دخلی کی کوششیں قبول نہیں کی جائیں گی۔ حقیقت یہ ہے کہ امن پلان کے نام پر مہذب دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش کی گئی ہے۔ جنگ بندی معاہدے کے باوجود آج غزہ اور مغربی کنارے پر اسرائیل جو کچھ کر رہا ہے اس پر اسے امریکا کی مکمل حمایت اور سرپرستی حاصل ہے، مگر المیہ یہ ہے کہ عالمی ادارے اور مسلم حکمران اس صورتحال کا نوٹس لینے پر کسی طور آمادہ نہیں، جس سے نہ صرف جنگ بندی بلکہ معاہدے کے دوسرے دورکا آغاز بھی ممکن نہیں ہوسکے گا اور مشرقِ وسطیٰ بھی آتش فشاں کی طرح سلگتا رہے گا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ عالمی برادری اقوامِ متحدہ کی نگرانی میں جنگ بندی کے معاہدے پر عمل درآمد کو یقینی بنائے اور اسرائیل کو پابند کرے کہ وہ معاہدے کی پاسداری کرے، مربوط عالمی دباؤ، سنجیدہ اقدامات اور ٹھوس حکمت ِ عملی ہی سے غزہ میں امن کا قیام ممکن ہوسکے گا۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: جنگ بندی معاہدے ہے کہ اسرائیل بین الاقوامی اسرائیلی فوج کہ اسرائیلی غزہ کی پٹی معاہدے کی معاہدے کے کا کہنا
پڑھیں:
اسرائیل قبضہ ختم کرے تو اپنے ہتھیار فلسطینی اتھارٹی کے سپرد کرنے کیلئے تیار ہیں، خلیل الحیہ
ترک میڈیا کے مطابق حماس کے سربراہ نے کہا کہ ہم اقوام متحدہ کی ایسی افواج کی تعیناتی قبول کرتے ہیں، جو ایک علیحدگی فورس کے طور پر سرحدوں کی نگرانی کرے اور غزہ میں جنگ بندی کی پاسداری کو یقینی بنائے۔ اسلام ٹائمز۔ فلسطینی مزاحمتی تنظیم حماس نے فلسطینی سرزمین پر قابض صیہونی افواج کے خلاف ہتھیار پھینکنے پر مشروط آمادگی ظاہر کر دی۔ ترک میڈیا کے مطابق حماس کے سربراہ خلیل الحیہ نے کہا کہ ہمارے ہتھیاروں کا تعلق قبضے اور جارحیت کی موجودگی سے ہے، اسرائیل فلسطینی سرزمین سے قبضہ ختم کرے تو اپنے ہتھیار فلسطینی اتھارٹی کے سپرد کرنے کے لیے تیار ہیں۔ خلیل الحیہ نے کہا کہ ہم اقوام متحدہ کی ایسی افواج کی تعیناتی قبول کرتے ہیں، جو ایک علیحدگی فورس کے طور پر سرحدوں کی نگرانی کرے اور غزہ میں جنگ بندی کی پاسداری کو یقینی بنائے۔
دوسری جانب اسرائیل کی جانب سے غزہ جنگ بندی کی مسلسل خلاف ورزیاں جاری ہیں اور قابض فوج نے تازہ کارروائیوں میں مزید 7 فلسطینیوں کو شہید کر دیا۔ 11 اکتوبر 2025ء کو غزہ جنگ بندی معاہدے کے بعد سے اسرائیل اب تک 367 فلسطینیوں کو شہید کرچکا ہے۔ دو روز قبل اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے بھی ایک بیان میں کہا تھا کہ شواہد موجود ہیں کہ اسرائیل نے غزہ میں جنگی جرائم کا ارتکاب کیا۔ یاد رہے کہ اکتوبر 2023ء کے بعد سے اسرائیلی حملوں میں اب تک 70 ہزار سے زائد فلسطینی شہید اور ایک لاکھ 20 ہزار سے زائد زخمی ہوچکے ہیں۔