Jasarat News:
2025-12-09@21:29:09 GMT

سندھ میں سائبر کرائم یونٹ کے قیام کا منصوبہ!

اشاعت کی تاریخ: 9th, December 2025 GMT

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

سندھ حکومت نے صوبے میں بڑھتے ہوئے آن لائن جرائم کی روک تھام، سائبر سیکورٹی کے نظام کو مضبوط بنانے اور انٹرنیٹ صارفین کو محفوظ ڈیجیٹل ماحول فراہم کرنے کے لیے ایک علٰیحدہ صوبائی سائبر کرائم یونٹ قائم کرنے کا منصوبہ تیار کیا ہے، جو نیشنل سائبر کرائم انویسٹی گیشن ایجنسی (NCCIA) کے طرز پر کام کرے گا۔ باخبر ذرائع مطابق مجوزہ سائبر کرائم یونٹ صوبے میں سائبر جرائم کی تحقیقات، ان کی روک تھام اور سائبر سیکورٹی کی صلاحیتوں میں اضافے پر توجہ مرکوز کرے گا۔ ذرائع کے مطابق یہ یونٹ قانون نافذ کرنے والے اداروں اور بین الاقوامی شراکت داروں کے ساتھ قریبی رابطے میں کام کرے گا تاکہ سائبر جرائم میں ملوث عناصر کو ٹریس کرکے انصاف کے کٹہرے میں لایا جا سکے۔ واضح رہے کہ اس وقت ملک میں سائبر جرائم کی تحقیقات کی ذمے داری وفاقی ادارے نیشنل سائبر کرائم انویسٹی گیشن ایجنسی کے پاس ہے، جو ہراسانی، بینک فراڈ، دھمکیاں، بلیک میلنگ، الیکٹرونک آلات کے ذریعے دھوکا دہی جیسے جرائم کی تفتیش کرتا ہے اور فیس بک، وٹس اپ، انسٹاگرام، ہاٹ میل، یوٹیوب سمیت دیگر پلیٹ فارمز سے شواہد بھی حاصل کرتا ہے۔ یہ ادارہ ایف آئی اے کے سابقہ سائبر کرائم ونگ کی جگہ ایک خود مختار ایجنسی کے طور پر قائم کیا گیا تھا۔ صوبائی وزیر داخلہ ضیاء الحسن لنجار کا کہنا ہے کہ وفاقی حکومت سے درخواست کی جائے گی کہ سندھ پولیس کو الیکٹرونک جرائم کی روک تھام کے ایکٹ (پیکا) 2016 کے سیکشن 3 تا 23 کے تحت جرائم کا نوٹس لینے کا مجاز ادارہ قرار دیا جائے۔ وزیر داخلہ، جو قانون اور پارلیمانی امور کا قلمدان بھی رکھتے ہیں، نے کہا کہ وفاقی منظوری ملنے کے بعد سندھ اسمبلی صوبائی سطح پر این سی سی آئی اے کے طرز پر سائبر کرائم یونٹ کے قیام کے لیے قانون سازی کرے گی۔ ادھر انسپکٹر جنرل پولیس سندھ غلام نبی میمن کا کہنا ہے کہ صوبائی پولیس نے محکمہ داخلہ کو خط لکھ کر وفاقی حکومت سے درخواست کی ہے کہ سندھ پولیس کو سائبر جرائم کا نوٹس لینے کا مجاز ادارہ قرار دیا جائے۔ بادی النظر میں مجوزہ قانون خوش آئند محسوس ہوتا ہے، اس پر عمل درآمد سے سائبر جرائم پر فوری اور مؤثر کنٹرول سے ہراسانی، آن لائن فراڈ، بلیک میلنگ جیسے کیسز تیز رفتاری سے حل ہوسکیں گے، شہریوں کو فوری انصاف کا حصول ممکن ہوسکے گا، مقامی سطح پر شکایت کا اندراج ممکن ہوسکے گا، بینک فراڈ، فیک اکائونٹس، ہیکنگ پر گرفت مضبوط ہوسکے گی، علاوہ ازیں اس سے پولیس کی تکنیکی صلاحیتوں میں بھی اضافہ ہوگا، ڈیجیٹل فرانزک، سائبر ٹریسنگ سے پولیس سسٹم بھی اپ گریڈ ہوگا۔ تاہم اس کے ساتھ ساتھ مجوزہ قانون کے مضمرات سے بھی صرفِ نظر نہیں کیا جاسکتا، وفاقی سطح پر ایک ادارے کی موجودگی کے باوجود اس کے متوازی نئے ادارے کے قیام سے نیشنل سائبر کرائم انویسٹی گیشن ایجنسی اور صوبائی یونٹ کے درمیان دائرہ اختیار، اختیار اور کیس ٹرانسفر جیسے تنازعات پیدا ہوسکتے ہیں، مجوزہ یونٹ اگر غیر جانبدار نہ رہا تو صحافیوں، سیاسی مخالفین، سوشل میڈیا ایکٹیوسٹس کے خلاف بھی اس کے غلط استعمال کا خدشہ موجود ہوگا۔ موجودہ سندھ حکومت کی کارکردگی کے تناظر میں دیکھا جائے تو اس یہ یونٹ مالی بدعنوانی کی نذر بھی ہوسکتا ہے۔ یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ نیشنل سائبر کرائم انویسٹی گیشن ایجنسی کا قیام ملک بھر میں بڑھتے ہوئے سائبر کرائم پر قابو پانے کے لیے کیا گیا تھا، مگر اب اس ادارے سے متعلق بدعنوانی، اختیارات کے غلط استعمال اور مالی بے ضابطگیوں کے سنگین الزامات سامنے آئے ہیں، تحقیقات کے دوران انکشاف ہوا ہے کہ بعض افسران نے رشوت کے بدلے ملزمان کو ریلیف فراہم کیا اور ڈیجیٹل اثاثوں، بشمول کرپٹو کرنسی (بٹ کوائنز و دیگر) کے ذریعے رقوم کی منتقلی میں بھی ملوث پائے گئے، جب وفاقی سطح پر قائم ادارے کی یہ صورتحال ہے تو سندھ حکومت کی جانب سے جس ادارے کے قیام کی بات کی جارہی ہے، اس سے متعلق یہ کیسے یقین کر لیا جائے کہ کرپشن اور بدعنوانی کے کیسز یہاں رونما نہیں ہوں گے؟ نئے ٹریفک قوانین ہوں یا ای چالان یا اب پیش کیا جانے والا مجوزہ قانون، نظام کی بہتری اور عوام کی فلاح و بہبود کے لیے اٹھائے جانے والے کسی قدم کی بلا جواز مخالفت یقینا صحت مندانہ طرز عمل نہیں، صوبے اور شہر کی بہتری کے لیے اٹھائے جانے والے ہر قدم کی تائید و حمایت کی جانی چاہیے مگر سوال یہ ہے کہ صوبے اور کراچی جیسے میگا سٹی کے بنیادی مسائل کے حل کی ذمے داری بھی تو حکومت ہی پر عاید ہوتی ہے، حکومت نے ان مسائل کے حل کے لیے کیا اقدامات کیے ہیں؟ اس تناظر میں دیکھا جائے تو سندھ حکومت کی کارکردگی انتہائی ناگفتہ بہ ہے، سولہ سترہ سال سے سندھ پر پیپلز پارٹی کی حکومت ہے، سندھ کے عوام بنیادی سہولتوں تک سے محروم ہیں، تعلیم، صحت، روزگار اور امن وامان سمیت وہ کون سے شعبے ہیں جس کی نشاندہی کر کے اعلیٰ کارکردگی کا ثبوت دیا جا سکتا ہے؟ تعلیمی مراکز اصطبل بن ہوئے ہیں، سرکاری اسپتال میں ادویات کی قلت ہے، المیہ یہ ہے کہ کراچی سمیت پورا صوبہ سندھ حکومت کی نااہلی، ناکامی اور بد انتظامی کی تصویر بنا ہوا ہے اور لطف کی بات یہ ہے کہ ایسے میں دعویٰ یہ ہے کہ سندھ میں ترقی کا سفر کافی حوصلہ افزا ہے۔ کراچی جیسے میگا سٹی کا حال یہ ہے کہ پورا شہر کھنڈرات کے ڈھیر میں تبدیل ہوگیا ہے، یہاں کا انفرا اسٹرکچر تباہ و برباد ہے، شہر کی اہم شاہراہیں شہریوں کے لیے اذیت کا باعث بن گئی ہیں۔ اس تلخ حقیقت سے انکار کیسے اور کیونکر ممکن ہے کہ سندھ کو این ایف سی ایوارڈ کی مد میں جو رقم ملتی ہے وہ کہاں خرچ کی جارہی ہے؟ بالخصوص اس فنڈ سے کراچی کی تعمیر و ترقی میں کتنا خرچ کیا جارہا ہے؟ یہی وہ صورتحال ہے جس پر جماعت ِ اسلامی پاکستان کے امیر حافظ نعیم الرحمن کا کہنا ہے ’’صوبائی حکومت کرپشن کا گڑھ بن چکی ہے، سندھ حکومت 15 سال میں 3360 ارب روپے ہڑپ کرچکی ہے‘‘، جس کی وجہ سے کراچی اور سندھ کے عوام بنیادی حق سے بھی محروم ہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق کراچی قومی آمدنی کا 65 فی صد اور صوبائی خزانے میں 85 فی صد حصہ ڈالتا ہے، مگر یہاں عوام کو نہ پانی دستیاب ہے نہ بجلی و گیس، شہر کا بنیادی ڈھانچہ تباہی سے دوچکار ہے، ماس ٹرانزٹ نا ہونے کے برابر ہے، بی آر ٹی منصوبہ عذابِ جان بن چکا ہے۔ تباہ حال سڑکیں موت کا کنواں بن چکی ہیں جس کی وجہ سے آئے روز ٹینکرز اور ڈمپرز کی زد میں آکر ہلاک ہونے والوں کی شرح میں اضافہ ہورہا ہے، لوگل گورنمنٹ کے سارے اختیارات میئر تک محدود کر کے عوام کے منتخب نمائندوں کو بے دست و پا کر دیا گیا ہے۔ ان بنیادی مسائل کو حل کرنے کے بجائے نت نئے قوانین کا شوشا چھوڑ کر سندھ حکومت اپنی بھد اڑانے کا خود ہی سامان پیدا کر لیتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ جب وفاقی سطح پر نیشنل سائبر کرائم انویسٹی گیشن ایجنسی کے نام پر ایک ادارہ پہلے ہی کام کر رہا ہے جو آن لائن جرائم کی روک تھام، سائبر سیکورٹی کے نظام کی بہتری اور انٹرنیٹ صارفین کو محفوظ ڈیجیٹل ماحول فراہم کرنے کے لیے کوشاں ہے تو اس کے علی الرغم صوبائی سطح پر ایک علٰیحدہ سائبر کرائم یونٹ قائم کرنے کا منصوبہ کیوں تیار کیا جارہا ہے؟ بعض تجزیہ نگاروں اور سیاسی مبصرین نے سندھ میں مجوزہ صوبائی سائبر کرائم یونٹ کے حوالے سے شدید خدشات کا اظہار کیا ہے کہ اس کا اصل مقصد سائبر کرائمز کی روک تھام نہیں بلکہ پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت کے خلاف سوشل میڈیا پر اٹھنے والی تنقید کو مکمل طور پر خاموش کرنا ہے۔ اگر ایسا کچھ ہوا توآزادی اظہار رائے پر قدغن عاید کرنے کے مترادف ہوگا جس کی کسی طور تائید نہیں کی جاسکتی۔

اداریہ.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: نیشنل سائبر کرائم انویسٹی گیشن ایجنسی سائبر کرائم یونٹ سندھ حکومت کی کی روک تھام جرائم کی یہ ہے کہ کہ سندھ کرنے کے یونٹ کے کے قیام کے لیے

پڑھیں:

خیبر پختونخوا میں گورنر راج کا آپشن

ڈی جی آئی ایس پی آر کی سخت پریس کانفرنس کے بعد ایسے لگتا ہے کہ مفاہمت کے امکانات عملی طور پر ختم ہوگئے ہیں ۔ پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت اور وزیر اعلیٰ سہیل آفریدی ٹکراؤ کی پالیسی پر گامزن نظر آرہے ہیں ۔ایک منطق یہ دی جا رہی ہے کہ اس ٹکراؤ کی بنیادی وجہ وزیر اعلیٰ سہیل آفریدی کی پالیسی ہے جس کے تانے بانے بانی پی ٹی آئی سے جڑتے ہیں جو مزاحمت اور ٹکراؤ چاہتے ہیں ۔

اسی وجہ سے پی ٹی آئی کے مخالفین ان کی جماعت کو عملاً صوبائی حکومت کے ساتھ دہشت گردی یا دہشت گردوں کے ساتھ گٹھ جوڑ کی بنیاد پر دیکھ رہے ہیں ۔ان کے بقول ملکی سطح پر سے دہشت گردی کے عملاً خاتمہ کرنے میں پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت رکاوٹ ہے یا اسے سیاسی طور پر لگام دیے بغیر دہشت گردی کا خاتمہ ممکن نہیں ۔حکومت کے بہت سے وزراء کے پی کے کی صوبائی حکومت کوآڑے ہاتھوں لے رہے ہیں یا ان کا طرز عمل سخت اور جارحانہ ہے ۔

بعض سیاست دان، صحافی یا اینکرز بھی ہمیں یہ کہانی سنا رہے ہیں کہ صوبہ کا واحد حل گورنر راج ہے۔ان لوگوں کے بقول اگر کے پی کے کی صوبائی حکومت و وزیر اعلیٰ نے خود کو بانی پی ٹی آئی کی سیاست سے علیحدہ نہ کیا تو پھر گورنر راج ہی واحد آپشن ہے۔وفاقی وزیر قانون کے بقول گورنر راج کا نفاذ آئینی راستہ ہے اور اس سے یہ مراد لینا کہ یہ کوئی مارشل لا کی شکل ہے درست نہیں ۔

یہ خبریں بھی عام ہیں کہ ایک طرف وفاقی حکومت کے سامنے صوبہ کی صورتحال سے نمٹنے کے لیے جہاں گورنر راج کا آپشن ہے تو وہیں یہ بھی سوچا جا رہا ہے کہ پی ٹی آئی کو ٹف ٹائم دینے اور ان کے خلاف سخت گیر اقدامات کی بنیاد پر نئے گورنر کی تقرری بھی آپشن ہے تاکہ نئے گورنر کی مدد سے معاملات حل کرنے کی کوشش کی جائے۔ وزیر اعلیٰ سہیل آفریدی پر مختلف نوعیت کے سنگین الزامات، ریاست مخالف سرگرمیوں اور ان کی نااہلی کی باتیں بھی کی جا رہی ہیں ۔حکومت سمجھتی ہے کہ اگر بانی پی ٹی آئی کی خواہش پر پی ٹی آئی کوئی نئی مہم جوئی کرتی ہے تو اس میں نئے وزیر اعلیٰ کا اہم کردار ہوگا ۔

اسی بنیاد پر وفاقی حکومت گورنر راج سمیت پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت کے خلاف مختلف آپشن کو اختیار کرنے کا ارادہ رکھتی ہے ۔اسی بنیاد پر وزیر اعلیٰ سہیل آفریدی کی بانی پی ٹی آئی سے ملاقات کو بھی ممکن نہیں بنایا جارہا ۔ایسے لگتا ہے کہ معاملات مفاہمت کے بجائے ٹکراؤ کی جانب بڑھ رہے ہیں اور بانی پی ٹی آئی کے اپنے بیانات بھی ٹکراو کو آگے بڑھا رہے ہیں ۔لیکن اس کشیدگی کو کم یا ختم کرنے میں ہمیں کہیں سے بھی کوئی مثبت کردار دیکھنے کو نہیں مل رہا ۔

 ٹکراؤ کی ایک بڑی وجہ دہشت گردی اور سیکیورٹی کے بدترین حالات سمیت افغانستان یا کالعدم ٹی ٹی پی کے خلاف فوجی آپریشن کی مخالفت ہے ۔وزیر اعلیٰ نے ارکان اسمبلی سمیت تمام صوبائی جماعتوں ،صوبائی گورنر اور دیگر اہم صوبائی سیاست دانوں ،قبائلی عمائدین اور میڈیا کی مدد سے امن جرگہ کیا تھا اور اس کا مشترکہ اعلامیہ بھی جاری کیا گیا تھا۔اس امن جرگہ کا مشترکہ اعلامیہ ظاہر کرتا ہے کہ صوبائی حکومت کی حکمت عملی مرکز سے مختلف ہے ۔

لیکن سوال یہ ہے کہ اس ساری صورتحال یا ٹکراؤ کا نتیجہ صوبہ میں گورنر راج کی صورت میں سامنے آنا چاہیے؟ کیا گورنر راج صوبہ میں بدامنی اور دہشت گردی کا خاتمہ کرسکے گا؟یا فوجی آپریشن کے نتیجے میں حالات کو درست یا بہتری کی طرف لے جایا جا سکتا ہے؟ ۔اگر ایسا نہیں ہوتا تو کیا سیاسی تقسیم مزید نہیں بڑھے گی؟ وفاقی حکومت کا یہ کہنا بجا ہے کہ کوئی ایک صوبہ وفاقی حکومت یا ریاست پر اپنا ایجنڈا جبر کی بنیاد پر مسلط نہیں کرسکتا اور قومی سلامتی کے معاملات پر کمزوری دکھانا وفاق کے لیے ممکن نہیں ۔لیکن اسی حکمت عملی کے ساتھ صوبے کو اعتماد میں لے کر آگے بڑھنا بھی وفاقی حکومت کی ذمے داری ہے اور ایک اہم صوبہ جو براہ راست دہشت گردی کا شکار ہے اس کی حکومت کو نظر انداز کرنا بھی کوئی دانش مندی نہیں ۔بالخصوص گورنر راج لگانے سے صوبے کی سیاست جو پہلے ہی پی ٹی آئی کے کنٹرول میں ہے اس کا ردعمل سخت ہوگا جو مزید ٹکراؤ کی سیاست پیدا کرے گا۔

اس لیے اس وقت وفاقی اور صوبائی حکومت کے درمیان بڑھتا ہوا ٹکراؤ اور کشیدگی کا ماحول حالات کو اور زیادہ خرابی کی طرف لے کر جائے گا۔اسی بنیاد پر کہا جا سکتا ہے کہ صوبے میں گورنر راج کے آپشن پر سنجیدگی بھی دکھائی دیتی ہے ۔یہ سمجھنا ہوگا کہ ملک پہلے ہی سیاسی ،معاشی اور سیکیورٹی کے تناظر میں کئی طرح کے مسائل سے دوچار ہے ۔پہلے ہی اس ملک کے جمہوری،سیاسی آئینی اور قانونی سطح کے معاملات پر سنجیدہ نوعیت کے سوالات زیر بحث ہیں اور بہت سے لوگ موجودہ صورتحال سے ناخوش بھی ہیں ۔ایسے میں ہمارے بھارت اور افغانستان سے بگڑتے تعلقات خود ہماری سیکیورٹی کے لیے نئے خطرات کو جنم دے رہے ہیں ۔ایسے میں ہماری داخلی سیاست کا ٹکراؤ ہماری تشویش میں اور زیادہ اضافے کا سبب بن رہا ہے ۔

یہ بات بھی پیش نظر رہے کہ صوبہ خیبر پختونخوا کئی دہائیوں سے دہشت گردی کا شکار ہے۔وفاقی حکومت کی جانب سے اس تاثر کی بھی نفی ہونی چاہیے اور یہ ذمے داری وفاقی حکومت پر ہی آتی ہے کہ وہ معاملات کو بہتر کرنے کے لیے کوئی موثر حکمت عملی اختیار کرے ۔پہلے ہی پی ٹی آئی کے لیے سیاسی سطح پر راستے محدود ہیں اور ان کی صوبائی حکومت کو دہشت گردی کا سامنا ہے ۔

یہ بات بھی سمجھنی ہوگی کہ مسئلہ محض پی ٹی آئی تک محدود نہیں بلکہ دیگر جماعتیں جے یو آئی اور اے این پی کی پالیسی وفاقی حکومت کی پالیسی سے مختلف ہے بلکہ دیگر سیاسی جماعتوں کی صوبائی قیادت بھی وفاقی حکومت کی پالیسی سے بہت زیادہ خوش نہیں ۔اسی طرح جب صوبائی حکومت کے بارے میں دہشت گردی کے گٹھ جوڑ کی بنیاد پر بیانیہ بنایا جائے گا تو اس پر ردعمل کا پیدا ہونا بھی فطری امر ہے ۔اس لیے جہاں صوبائی حکومت کو زیادہ ذمے داری کا مظاہرہ کرنا ہے وہیں وفاقی حکومت کی بھی ذمے داری ہے کہ وہ سیاست سے بالاتر ہوکر صوبائی حکومت کے ساتھ اتفاق کی بنیاد پر آگے بڑھے اور اس میں صوبائی حکومت کو وفاق کے ساتھ تعاون کے امکانات کو بڑھانا ہوگا۔

متعلقہ مضامین

  • حکومت کا منصوبہ ہے کہ پی ٹی آئی پر پابندی لگ جائے: شفیع اللّٰہ جان
  • یوٹیوبر رجب بٹ، ٹک ٹاکر ندیم نانی والا کو بڑا ریلیف، حفاظتی ضمانت منظور
  • گیملنگ ایپ، سائبر کرائم کیسز میں یوٹیوبر رجب بٹ اور ٹک ٹاکر ندیم نانی والا کو بڑا ریلیف مل گیا
  • پاکستان میں توہین مذہب اور سائبر کرائم مقدمات میں ملوث یوٹیوبرکو برطانیہ نے ملک بدرکردیا
  • خیبر پختونخوا میں گورنر راج کا آپشن
  • سندھ بلڈنگ، ماڈل کالونی میں رہائشی پلاٹ پر غیرقانونی پورشن یونٹ
  • پاک فوج کے خلاف پروپیگنڈا مقدمے میں 2 صحافی اور پی ٹی آئی کی رہنما اشتہاری قرار
  • بھارت میں اسمارٹ فونز کی ہر وقت لوکیشن ٹریکنگ کا نیا منصوبہ زیرِ غور
  • بلاول بھٹو زرداری تین روزہ دورے پر آج لاہور پہنچیں گے