کیلکولیٹر اور مصنوعی ذہانت کی کشمکش
اشاعت کی تاریخ: 9th, December 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اعداد کی اس کائنات میں جہاں رفتار کو برتر سمجھا جاتا ہے اور پیچیدہ الگورتھم انسانی صلاحیتوں کی سرحدوں کو روز نئے زاویوں سے چیلنج کرتے ہیں، وہاں ایک سادہ سا آلہ کیلکولیٹر اب بھی اپنے غیر متزلزل اعتماد کے ساتھ موجود ہے۔ یہ وہ دور ہے جہاں مصنوعی ذہانت چند لمحوں میں ایسی ریاضیاتی پیچیدگیاں حل کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے جنہیں انسان شاید عمر بھر سمجھنے میں بھی ناکام رہے۔ بین الاقوامی ریاضی مقابلوں میں AI ماڈلز ’’گولڈن گریڈ‘‘ اسکور حاصل کر رہے ہیں، پیچیدہ الجبرا، کیلکس اور عددی تجزیے میں حیران کن نتائج دکھا رہے ہیں۔ لیکن اس سب کے باوجود ایک دلچسپ حقیقت آج بھی برقرار ہے: روزمرہ حساب، بنیادی جمع تفریق اور عام استعمال کے ریاضیاتی افعال میں انسان اور کیلکولیٹر کی جوڑیاں اب بھی AI پر سبقت رکھتی ہیں۔ یہ حقیقت محض تکنیکی نہیں بلکہ نفسیاتی، معاشی اور تعلیمی عوامل کے ساتھ گہرا ربط رکھتی ہے۔
جاپان کی معروف کمپنی Casio، جو گزشتہ نصف صدی سے عالمی ریاضیاتی معیارات کا حصہ ہے، اب بھی دنیا بھر میں اپنے کیلکولیٹرز کی مستقل مانگ دیکھ رہی ہے۔ کمپنی کے اعدادو شمار بتاتے ہیں کہ مارچ 2025 تک Casio نے سو سے زائد ممالک میں تقریباً 39 ملین جنرل اور سائنسی کیلکولیٹر فروخت کیے۔ یہ تعداد نہ صرف اس آلے کی پائیدار ضرورت کی علامت ہے بلکہ اس بات کا عملی ثبوت بھی ہے کہ جدید ٹیکنالوجی کے ہنگاموں کے باوجود بعض چیزیں اپنی سادگی، استحکام اور اعتماد کی وجہ سے اپنی جگہ برقرار رکھتی ہیں۔ اگرچہ عالمی مارکیٹ میں معمولی کمی ضرور دیکھی گئی ہے، مگر کیلکولیٹر کی سماجی و تعلیمی حیثیت آج بھی کمزور ہونے کے بجائے مزید مضبوط دکھائی دیتی ہے۔
سوال یہ ہے کہ جب مصنوعی ذہانت لمحوں میں ایسے حل پیش کر سکتی ہے جو ایک عام انسان کے لیے ناقابل ِ تصور ہوں، تو پھر آخر کیلکولیٹر جیسے روایتی آلے کی گنجائش، وقعت اور مانگ کیوں برقرار ہے؟ اس سوال کا جواب صرف ایک تکنیکی تقابل میں پوشیدہ نہیں، بلکہ انسانی اعتماد اور مشینی اعتبار کے گہرے رشتے میں موجود ہے۔ کیلکولیٹر ایک ایسا آلہ ہے جو اپنی فطری ساخت اور محدود دائرۂ عمل کی وجہ سے غلطی نہیں کرتا۔ اس کا ہر نتیجہ ریاضیاتی اصولوں، منظم طریقہ کار اور غیر مبہم لوجک پر مبنی ہوتا ہے۔ اس کے مقابلے میں AI، اگرچہ حیرت انگیز طور پر ہوشیار ہے، مگر بنیادی حساب مثلاً 12 + 27 یا 150 ÷ 5 جیسے سادہ ترین سوالوں میں بھی کبھی کبھار غلط جواب دے دیتی ہے۔ اس کی وجہ اس کے تربیتی ڈیٹا، پیش گوئی پر مبنی طرزِ استدلال اور زبان ماڈل پر مبنی ساخت ہے۔ AI حساب کو ریاضی کے اصولوں کے بجائے زبان کے انداز میں حل کرتی ہے، اس لیے ’’غلطی‘‘ اس کے نظام کی فطری کمزوری بھی ہے اور حد بھی۔
یہی وہ مقام ہے جہاں کیلکولیٹر اپنے سادہ مگر شفاف منطق کی وجہ سے برتری رکھتا ہے۔ ترقی پذیر ممالک میں، جہاں تعلیمی ادارے اب بھی سادہ آلات پر انحصار کرتے ہیں، وہاں کیلکولیٹر کی اہمیت نہ صرف برقرار ہے بلکہ اسے ریاضیاتی تربیت کا لازمی حصہ تصور کیا جاتا ہے۔ اسکولوں میں امتحانات کے دوران، ریاضی کے اساتذہ کے سامنے، کلاس روم کی میزوں پر ہر جگہ کیلکولیٹر کو ایک معتبر اور قابل ِ اعتماد ساتھی سمجھا جاتا ہے۔ یہ وہ آلہ ہے جس پر نہ تو انٹرنیٹ کی ضرورت ہے، نہ پیچیدہ سافٹ ویئر اپ ڈیٹس کی، نہ ڈیٹا سیکورٹی کے مسائل کی، نہ غلط فہمی کے خدشات کی۔ اس کا ہر جواب معروضیت کا استعارہ ہوتا ہے۔
مصنوعی ذہانت کی بڑھتی ہوئی مقبولیت اور تیز رفتار ترقی کے باوجود انسانی معاشرہ اب بھی ایسے آلات اور ایسی ٹیکنالوجی تلاش کرتا ہے جن کی بنیاد غیر مبہم اصولوں پر ہو۔ کیلکولیٹر کی مقبولیت کا تعلق اس کی تکنیکی کارکردگی کے ساتھ ساتھ اس ذہنی سکون سے بھی ہے جو یہ فراہم کرتا ہے۔ ایک ماہر حساب دان ہو یا ایک عام طالب علم، دونوں کے لیے کیلکولیٹر کا جواب کبھی مشکوک نہیں ہوتا۔ AI کے برعکس یہ کبھی الجھن پیدا نہیں کرتا، کبھی متبادل جواب پیش نہیں کرتا، کبھی کہانی نہیں گھڑتا، کبھی اپنے تخمینے کو حقیقت کا رنگ نہیں دیتا۔ یہ صرف اور صرف اعداد کی زبان سمجھتا ہے اور اعداد کی زبان میں ہی جواب دیتا ہے صاف، واضح اور ناقابل ِ تردید۔
مصنوعی ذہانت کی بے مثال صلاحیتوں کے باوجود ایک اور حقیقت بھی نمایاں ہے۔ انسانی ذہن تجریدی ریاضیاتی سوچ، تشریح، استدلال اور تخلیق کے مراحل میں اب بھی AI سے بلند تر حیثیت رکھتا ہے۔ بین الاقوامی ریاضیاتی مقابلوں میں AI کے ’’گولڈن گریڈ‘‘ اسکور متاثر کن ضرور ہیں، لیکن جب بات حقیقی نمبروں، تہہ در تہہ فارمولوں، ثبوتوں، دلیلوں اور بنیادی ریاضیاتی اصولوں کی آتی ہے تو انسان آج بھی اس میدان کا اصل معمار ہے۔ AI کے نتائج دراصل انسانوں کے بنائے ہوئے ڈیٹا، اصولوں اور کوڈز کا عکس ہیں، جب کہ انسان ریاضی کو صرف حل نہیں کرتا بلکہ ایجاد بھی کرتا ہے۔ اسے ثابت بھی کرتا ہے، اس پر سوال بھی اٹھاتا ہے، اس میں نئے جہت بھی تلاش کرتا ہے۔ کیلکولیٹر اسی انسانی سوچ کا ایک عملی اور بے خطا امتداد ہے۔
کیسیو (Casio) کے تازہ اعدادو شمار ہمیں بتاتے ہیں کہ جب ٹیکنالوجی بہت تیز ہو جائے، تو انسان بعض اوقات سست مگر یقینی راستے کو ترجیح دیتا ہے۔ یہ رجحان صرف امید افزا نہیں بلکہ ٹیکنالوجی کے مستقبل کے لیے ایک اہم اشارہ بھی ہے کہ ترقی ہمیشہ پیچیدگی میں نہیں ہوتی۔ بعض اوقات سادگی کے اندر وہ قابل ِ اعتماد بنیادیں چھپی ہوتی ہیں جو ایک تہذیب کی علمی ساخت کو مستحکم رکھتی ہیں۔ کیلکولیٹر اس کا بہترین نمونہ ہے۔ یہ آلہ نہ صرف تعلیمی ڈھانچے میں اپنی جگہ رکھتا ہے بلکہ عددی دنیا کی اس جنگ میں ’’استحکام‘‘ کے ایک علامتی استعارے کے طور پر بھی زندہ ہے۔
مصنوعی ذہانت کے تیز قدموں کے ساتھ چلتے ہوئے یہ ممکن ہے کہ دنیا کے بہت سے آلات وقت کے بہاؤ میں تحلیل ہو جائیں۔ مگر کیلکولیٹر کی سادگی، شفافیت، درستی، کم لاگت اور اعتماد کا امتزاج اسے اس طوفانی تبدیلی کے دور میں بھی ایک مضبوط ستون کے طور پر قائم رکھے ہوئے ہے۔ انسانی معاشرہ آج بھی جانتا ہے کہ جہاں نظریات بدلتے ہیں، الگورتھم اپ ڈیٹ ہوتے ہیں، ڈیٹا تبدیل ہوتا ہے وہاں ایک عددی دنیا ایسی بھی ہے جس میں جواب صرف ’’ایک‘‘ ہوتا ہے، صرف ’’صحیح‘‘ ہوتا ہے، اور یہی وہ دنیا ہے جس میں کیلکولیٹر اب بھی حکمرانی کر رہا ہے۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: مصنوعی ذہانت کے باوجود نہیں کرتا کے ساتھ کرتا ہے ہوتا ہے ا ج بھی کی وجہ اب بھی بھی ہے
پڑھیں:
پاکستان منافع بخش کاروباری مواقع فراہم کرتا ہے: سفیر رضوان سعید شیخ
امریکہ میں پاکستان کے سفیر رضوان سعید شیخ نے کہا ہے کہ پاکستان امریکی سرمایہ کاروں کے لیے منافع بخش اور پُرکشش مواقع پیش کرتا ہے، خصوصاً تیزی سے ترقی کرتے ہوئے آئی ٹی، توانائی اور معدنیات کے شعبوں میں۔
انہوں نے یہ بات واشنگٹن ڈی سی میں ییل اسکول آف مینجمنٹ کے ایک وفد سے ملاقات کے دوران کہی۔ سفیر کا کہنا تھا کہ دونوں ممالک کی قیادت دو طرفہ تعلقات کو معاشی تعاون پر استوار کرنے کے لیے پُرعزم ہے، اور پاکستان سرمایہ کاری کے لیے سازگار اور محفوظ ماحول فراہم کرنے کے لیے پوری طرح کوشاں ہے۔
انہوں نے کہا کہ جنوبی ایشیا، وسطی ایشیا اور مشرقِ وسطیٰ کے سنگم پر واقع پاکستان ایک اہم تجارتی راہداری کی حیثیت رکھتا ہے، جو امریکی کاروباروں کو توانائی سے مالا مال وسطی ایشیائی منڈیوں اور مالیاتی وسائل سے بھرپور خلیجی ریاستوں تک براہ راست رسائی فراہم کرتا ہے۔
سفیر رضوان سعید نے پاکستان۔امریکہ تعلقات کے مثبت انداز اور تجارت و سرمایہ کاری کے فروغ کے لیے جاری کوششوں کو بھی اجاگر کیا۔ انہوں نے بتایا کہ سیاحت، زراعت، توانائی، مینوفیکچرنگ اور انفارمیشن ٹیکنالوجی میں پاکستان نمایاں مواقع فراہم کرتا ہے، جب کہ لاگت میں کمی اور معیار میں بہتری جیسے نمایاں تقابلی فوائد اسے مزید پرکشش بناتے ہیں۔
انہوں نے پاکستان کے ٹیکنالوجی سے ہم آہنگ نوجوانوں — جو ملک کی سب سے بڑی آبادیاتی قوت ہیں — کو قومی اثاثہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ باصلاحیت افرادی قوت امریکی منڈیوں، خصوصاً کاروباری اور تکنیکی شعبوں کی بڑھتی ضروریات کو مؤثر طور پر پورا کر سکتی ہے۔
سفیر نے مزید بتایا کہ حکومتِ پاکستان نے سرمایہ کاری کے عمل کو سہل بنانے کے لیے مختلف پالیسی اقدامات کیے ہیں، جن میں اسپیشل انویسٹمنٹ فسیلیٹیشن کونسل (SIFC) کا کلیدی کردار شامل ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان میں پہلے سے کامیابی سے کام کرنے والی 80 سے زائد امریکی کمپنیاں ملک کی معاشی استعداد اور وسیع کاروباری مواقع کا ثبوت ہیں۔
آخر میں، سفیر نے ییل وفد کے دورۂ پاکستان کے لیے مکمل تعاون اور سہولت فراہم کرنے کی یقین دہانی کرائی، جب کہ وفد نے تفصیلی بریفنگ پر ان کا شکریہ ادا کیا اور اپنے مجوزہ دورے کے دوران مزید تعاون کی امید ظاہر کی۔