Express News:
2025-12-09@21:56:28 GMT

ایک محقق کی بے بسی کی کہانی

اشاعت کی تاریخ: 10th, December 2025 GMT

دیکھنے میں ان کے اندرکوئی جاذبیت نہ تھی۔ جسم بھاری، قد چھوٹا، جیسے عام سائز سے کم سائز کی کتاب ہو، بال سفید، سفید ہی مختصر ڈاڑھی، موٹے ہونٹ، رنگ کالا، جو ان کے بیضوی چہرے کے باقی سب خدوخال کو اپنے اندر جذب کر چکا تھا۔ آنکھوں پر شیشے چڑھے ہوئے، جن کے پیچھے صاف طور پر صرف ان کی آنکھوں کی اندرونی سفیدی دیکھی جا سکتی تھی۔ بولتے تو سامنے کے ٹوٹے ہوئے دو دانتوں کا خلا مزید نمایاں ہو جاتا، اور آواز جیسا کہ کبھی گلا بیٹھ جانے سے ہو جاتی ہے۔

سردیوں میں سویٹرکے اوپر گردن کے گرد مفلر ضرور لپیٹ کے رکھتے، بلکہ میں سر پر اونی گرم ٹوپی بھی ہوتی۔ گھر سے خوب تیار ہو کر نکلتے، تو عموماً گہرے نیلے رنگ کی پتلون اور دھاری دار بشرٹ زیب تن کیے ہوتے۔ مزاج میں بڑی تلخی تھی، جس کی شدت ستم ہاے روزگار نے مزید بڑھا دی تھی۔

یوں پہلی نظر میں وہ پروفیسر سے زیادہ کوئی ڈنڈا بردار سخت گیر اسکول ہیڈماسٹر معلوم ہوتے تھے۔ دراصل، وہ کچھ اس قسم کے آدمی جن کی شخصیت اپنے ملنے والوں پر دھیرے دھیرے، آہستہ آہستہ، اور بتدریج کھلتی ہے؛ ان منتخب اور چنیدہ لوگوںکے مانند جن کا حسن ان کے چہرے اور ظاہری رنگ روپ میں نہیں، بلکہ ان کی روح میں ہوتا ہے کہ ’زیبائی فقط در چہرہ نیست‘۔ پروفیسر احمد سعید صاحب اس لحاظ سے بڑی خوبصورت روح تھے، نفس مطمئنہ کی مانند۔

اُن سے میرا تعارف پروفیسر خالد ہمایوں صاحب نے کرایا تھا۔ یہ ان کی زندگی کے آخری سال تھے، اور زیادہ ترگھر ہی میں رہ کے لکھنے پڑھنے کا کام کرتے تھے۔ دوچار ملاقاتوں ہی میں یہ تعلق خاطر ان کی مشفقانہ سرپرستی میں ڈھل گیا، اور اب ہفتہ دو ہفتہ بعد ان سے ملاقات معمول بن چکی تھی۔ ایک بارکچھ تاخیر ہوئی تو خالد ہمایوں صاحب کے ہمراہ خود گھر پہنچ گئے۔ یہ ان کی رحلت سے چند ہفتے پہلے کی بات ہے۔

شام کو میں دفتر سے گھر آ رہا تھا۔ نیو کیمپس پل پارکر چکا کہ فون کی گھنٹی بجی۔ دیکھا تو اسکرین پر ان کا مہربان چہرہ جھلملا رہاتھا۔ ان دنوں میں ان کے گھر کے پاس ہی سے گزرتا تھا۔ اس وقت اس کال کا مطلب یہ تھا کہ ان کی طرف سے ہوتا ہوا جاؤں۔ میں نے نہر سے مڑتے ہی گاڑی ان کے گھرکی طرف موڑ دی، اور چندہی منٹ بعد ان کی خدمت میں حاضر تھا۔ ’سر، آپ نے کال کی تھی؟ ‘میں نے پوچھا۔ ان کے چہرے پر مسکراہٹ ابھری،’بس کچھ گپ شپ کی طلب ہو رہی تھی‘۔وہ ان دنوں وہ ظفر علی خاں کے ’زمیندار‘ کے اداریوں کی ترتیب و تدوین میں مصروف تھے۔

سال 1923-24پر چھ جلدیں چھپ ہو چکی تھیں۔ ہر جلد میں چار چار ماہ کے اداریے شامل ہیں اوراوسطاً سوا پانچ سو صفحات پر مشتمل ہے، اور ہر ایک کے شروع میں اس دور کے اداریوں کا پس منظر بیان کیا گیا ہے۔ اسی طرح ہر جلد کے آخر میں جدید طرز پر اشاریہ بھی موجود ہے، جس سے اس تحقیقی کام کی وقعت دوچند ہو گئی ہے۔ پھریوں ہوا کہ سال 1922پرکام زیر طبع تھا کہ جو ادارہ یہ کام شایع کر رہا تھا، اس نے اس کی مزید اشاعت سے معذوری ظاہر کر دی۔ وجوہ جاننے کی جاننے کی جسارت پر یہ ٹکا سا جواب ملا کہ اس طرح کی علمی اور تحقیقی کتب اب کون خریدتا اور پڑھتا ہے۔ اس پس منظر میں احمد سعید صاحب کو اس ادارے کی بے رخی پر جو رنج پہنچا، وہ ناقابل بیاں ہے، جب کہ ابھی ان کے پاس ظفر علی خاں پر بارہ کتابت شدہ مسودے پڑے تھے۔

بقول پروفیسر خالد ہمایوں،’ زمیندار‘کے ان اداریوں کی اہمیت یہ ہے کہ ان کا مطالعہ بیسویں صدی کے ہندوستان کی سیاسی، ثقافتی، مذہبی، معاشی اور معاشرتی زندگی کو سمجھنے کے لیے ناگزیر ہے۔ یاد رہے کہ اس دور میں’ زمیندار‘ کی مجلس ادارت میں عبدالمجید سالک، غلام رسول مہر جیسے قدآور اہل علم اور صحافی شامل تھے۔ یہاں یہ تذکرہ بے محل نہ ہو گا کہ قبل ازیں ظفر علی خاں کی تقریروں اور انگریزی تحریروں پر مشتمل احمد سعید صاحب کی دو کتب’گفتار ظفر علی خاں‘ اور Speeches and Writings of Maulana Zafar Ali Khan بھی شایع ہو چکی تھیں، ور ان کے متفرق مضامین کا مجموعہ ’نگارشات ظفر علی خاں‘ بھی مرتب کر چکے تھے۔

مجھے یاد ہے، اس روز جب میں احمد سعید صاحب کے پاس بیٹھا تھا، تو وہ کافی دل گرفتہ تھے اور بار بارکہہ رہے تھے، جو لوگ اس کام کی اشاعت میں روڑے اٹکا رہے ہیں، وہ نہیں جانتے کہ اس بیش قیمت علمی سرمایہ کو محفوظ کرکے آیندہ نسلوں تک پہنچانا ہماری قومی ذمے داری بھی ہے۔ پھر دکھی دل کے ساتھ بتایا کہ کہ کس طرح چند روز پہلے ایک سینئر صحافی نے فون پر یہ انوکھی ’پیشکش‘ کی کہ ظفرعلی خاں پر آپ کا باقی ماندہ کام ایک مقامی یونیورسٹی کے تحت ظفر علی خاں چیئرکی طرف سے شایع کرا دیتے ہیں، مگر اس شرط پر کہ آپ اس کا کوئی معاوضہ طلب نہیں کریں گے، یعنی اس طرح ان کی سال ہا سال کی محنت کی بے توقیری کی جا رہی تھی۔

 جوہر ٹاون لاہور جی فور میں یہ کوئی ساڑھے تین مرلہ کا درویشانہ سا گھر تھا، جس میں ہم اس وقت بیٹھے تھے۔ معلوم ہوا کہ یہی ان کی زندگی کا کل اثاثہ ہے۔ آرایش و زیبایش سے خالی ڈرائنگ روم، جس کی سامنے والی دیوار پر اوپر سے نیچے تک شیلف کتابوں سے بھری ہوئی تھی۔ یہی منظر بیڈ روم میں نظر آ رہا تھا۔ فرش پر، میز پر،کرسی پر، حتیٰ کہ بستر کے تین چوتھائی حصہ پر بھی کتابوں، مسودوںاورکمپوز شدہ موادکا قبضہ تھا۔ اس بستر پر وہ سوتے بھی، آرام بھی کرتے اورکام بھی کرتے تھے۔ابھی ان کے پاس بیٹھے کچھ ہی دیر ہوئی تھی کہ ایک دم سے ہڑ بڑا کے اٹھے اور اندر چلے گئے۔

واپس آئے، توحسب معمول ہاتھ میں پُرتکلف چائے کی ٹرے تھی۔ مگر آج وہ کافی نڈھال معلوم ہو رہے تھے، اور مسلسل کھانس رہے تھے، بلکہ نقاہت کے باعث بولنے میں بھی دقت ہو رہی ہے۔ ان کی یہ حالت دیکھ کر میں نے کہا، ’سر آپ آرام کیجیے، پھر حاضر ہوں گا‘ اور اجازت چاہی۔ ان کے لیے بستر سے اٹھنا مشکل ہو رہا تھا، اس کے باوصف ہمیشہ کی طرح میرے ساتھ باہر آئے اور پرجوش انداز میں مضبوطی سے ہاتھ پکڑ کے کہا ’رابطہ رہنا چاہیے‘، مگر کیا معلوم تھا کہ بس یہی ان سے آخری رابطہ ہے۔

 ان کی زندگی کی کہانی مختصراً یوں ہے کہ 1942 میں جالندھر (بھارت) میں پیدا ہوئے۔ قیام پاکستان کے بعد والدین کے ہمراہ ہجرت کرکے پاکستان پہنچے۔ گورنمنٹ کالج سے بی اے، اور پنجاب یونیورسٹی سے تاریخ و سیاسیات میں ایم اے کیا۔ ایم اے کالج اور اسلامیہ کالج ریلوے روڈ میں شعبہء تاریخ کی سربراہ رہ چکے ہیں۔ پہلی تحقیق1972 میں ’اشرف علی تھانوی اور تحریک پاکستان‘ کے نام سے منظر عام پر آئی؛ تاہم بطور محقق شہرت کا آغاز ’حصول پاکستان‘ کی اشاعت سے ہوا، جس کا انگریزی ترجمہTrek  to Pakistan  بھی آ چکا ہے۔

بعدازاں’گفتار قائد اعظمؒ‘کو بھی بے پناہ پذیرائی حاصل ہوئی۔ قائد اعظم ؒکی تحریروں، تقریروں اور خطوط کے علاوہ برطانوی، ہندو اور مسلم اخبارات میں ان پر شایع ہونے والے مواد پر ان کا تحقیقی کام بھی اہمیت کا حامل ہے۔ تاریخ پاکستان اور بانی پاکستان پر یہ تحقیقی کام کرتے ہوئے ان کو قائداعظم کے نام پر قائم ہونے والے سرکاری اداروں کے عدم تعاون کا جو تلخ تجربہ ہوا، اس کی ہوش ربا تفصیلات ایکسپریس نیوز پر نشر ہونے والی میری دستاویزی فلم ’تحقیق بھی ضروری ہے‘ میں موجود ہیں، اور آج بھی یوٹیوب پر دیکھی جا سکتی ہیں ۔

ریٹائرمنٹ کے بعد احمد سعید صاحب نے روزنامہ ’زمیندار‘ پر اپنے معرکہ آراء کام کا آغاز کیا۔ کہا کرتے تھے، موت کا ایک دن معین ہے، لیکن وہ اس ذمے داری سے سرخرو ہو کر دنیا سے جانا چاہتے ہیں۔ ان کی یہ خواہش مگر پوری ہوتی نظر نہ آتی تھی۔

اس سلسلہ میں راجہ اسد علی خاں اور خالد ہمایوں کی کوششیں بھی بار آور نہ ہو سکیں۔ ستم یہ ہے کہ جو کام مکمل کر چکے اور اپنی جیب سے کمپوزکرا کے پروف بھی پڑھ چکے تھے، وہ بھی ضایع ہو رہا تھا۔ یہ دیکھ کے وہ تڑپ اٹھتے، تو ان کو اس کیفیت میں دیکھ کر دیکھنے والے بھی مغموم ہو جاتے۔ زندگی کے آخری ایام میں کہتے کہ کچھ لوگ، جن کا برملا نام بھی لیتے تھے، جان بوجھ کر ان کی تحقیر کر رہے ہیں، اور ناقدری کے اس شدید احساس اور زخمی دل کے ساتھ اپنا مقدمہ لے کر اللہ کی عدالت میں پیش ہو گئے ؎

آہ آہ از دست صرافان گوہر نا شناس

ہر زماں خر مہرہ را با دُر برابر می کنند

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: خالد ہمایوں ظفر علی خاں رہا تھا کی تھی کے پاس

پڑھیں:

بانی کی بہنوں نے حالات کو اس نہج پر پہنچایا، پی ٹی آئی پارلیمانی پارٹی اجلاس کی اندرونی کہانی

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے پارلیمانی پارٹی اجلاس کی اندرونی کہانی سامنے آگئی، اراکین کا کہنا ہے کہ بانی پی ٹی آئی کی بہنوں نے حالات کو اس نہج پر پہنچا دیا ہے۔

ذرائع کے مطابق ارکان نے این ڈی یو ورک شاپ کے حوالے سے بانی کے پیغام پر اظہار تشویش کرتے ہوئے کہا کہ ہم قربانیاں دے رہے ہیں ہمیں معلومات نہ تھیں جس کی وجہ سے ورکشاپ میں گئے۔

ذرائع کے مطابق ارکان کا کہنا تھا کہ بانی کی بہنوں نے گفتگو کی کہ شرکت کرنے والے میر جعفر میر صادق ہیں، ان کا کہنا تھا کہ یہ بات خان صاحب نے کہی تھی تو میڈیا پر کہنے کی کیا ضرورت تھی، پہلے پارٹی کو بھی بتایا جا سکتا تھا۔

ذرائع کے مطابق اجلاس میں این ڈی یو ورکشاپ کے حوالے سے ارکان کے خدشات دور کرنے کے گارنٹی شاہد خٹک نے لے لی جبکہ اڈیالہ میں بانی سے ملاقات کے لیے پارلیمانی پارٹی نے طریقہ کار پر بھی بحث کی۔

ذرائع کے مطابق اراکین کا کہنا ہے بانی کی بہنوں نے حالات کو اس نہج پر پہنچا دیا ہے ، بانی چئیرمین کی بہنوں کو چاہیے کہ پیغام پہلے پارٹی کو پہنچائیں اور پارٹی پالیسی کے مطابق پریس ریلیز جاری کرے۔

ذرائع نے یہ بھی بتایا کہ رانا ثنااللہ کے بیان پر پارٹی نے مشاورت کی اور مشاورت کے بعد ایک کمیٹی بنانے کا فیصلہ کیا جسے رانا ثنااللہ ہیڈ کریں گے، ارکان نے یہ فیصلہ کیا کہ رانا ثنااللہ اراکین پارلیمنٹ کو لے جائیں اور دکھا دیں کہ کیا سہولیات مل رہی ہیں۔

شاہد خٹک اور علی ظفر کو اراکین کی فہرست تیار کرنے کا ٹاسک سونپ دیا جبکہ محمود اچکزئی نے کہا اسپیکر کو ایوان چلانے نہیں دینا چاہیے تاکہ اپوزیشن کو بولنے دیں ، اراکین نے رائے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اسپیکر اگر اپوزیشن کو بولنے نہیں دیتے تو کارروائی اپنی طاقت سے روکی جائے جبکہ بیرسٹر گوہر نے کہا ایڈوائزری کمیٹی میں جائیں گے تو ہی اسپیکر کو اپنا پیغام دے سکتے ہیں۔

ذرائع کے مطابق محمود خان اچکزئی اور قائدین نے اسپیکر کو اپنا موقف بتانے کے لیے ایڈوائزری کمیٹی میں جانے کی ہدایت کی جبکہ بیرسٹر علی ظفر نے کہا غیر سیاسی شخص کو فیصلوں کا اختیار نہیں ہونا چاہیے، شیخ وقاص اکرم نے کہا مزاحمت یا مفاہمت فیصلہ محمود خان اچکزئی کریں۔

ذرائع کے مطابق محمود اچکزئی کہا کہ میں تو آئین کے دائرے میں رہ کر کام کروں گا،کوئی مخفی ایجنڈا نہیں ہے، اجلاس میں ڈی جی آئی ایس پی آر کی پریس کانفرنس پر بھی ردعمل کا اظہار کیا گیا۔

ذرائع کے مطابق پی ٹی آئی پارلیمانی پارٹی کا اجلاس 10 دسمبر کو دوبارہ طلب کیا گیا ہے جس میں جامع پالیسی اور حتمی اعلانات ہوں گے۔

متعلقہ مضامین

  • 1971 کی اصل کہانی، غازی کی زبانی: تہار جیل کی اذیتوں سے محاذِ جنگ تک
  • بانی کی بہنوں نے حالات کو اس نہج پر پہنچایا، پی ٹی آئی پارلیمانی پارٹی اجلاس کی اندرونی کہانی
  • 15 سال بعد ’تھری ایڈیٹس‘ کا سیکوئل آنے کو تیار؛ وہی کاسٹ، کہانی مزید دلچسپ
  • اپوزیشن اتحاد کا پارلیمانی پارٹی اجلاس، اندرونی کہانی سامنے آگئی
  • مہندی کے رنگوں سے مستقبل سنوارنے والی باہمت لڑکی کی کہانی
  • تین مرد ایک کہانی