اسلام آباد (نمائندہ خصوصی) وزارت خزانہ نے مالی سال کے پہلے 6 ماہ کے اخراجات و آمدن کی تفصیلات جاری کر دی گئیں۔ رپورٹ کے مطابق 2900 ارب روپے کے ہدف کے مقابلے میں پرائمری سر پلس 3600 ارب روپے تک پہنچ گیا، چاروں صوبوں نے 750 ارب روپے کے ہدف کے مقابلے میں 776 ارب روپے کا سر پلس بجٹ دیا ۔وزارتِ خزانہ کا کہنا ہے کہ صوبوں نے 376 ارب روپے ریونیو کے ہدف کے مقابلے میں 442 ارب روپے کا ٹیکس جمع کیا۔ وزارتِ خزانہ نے کہا ہے کہ 6 ماہ میں ایف بی آر کو ٹیکس ریونیو میں 384 ارب روپے کے شارٹ فال کا سامنا ہوا، 6009 ارب روپے کے ہدف کے مقابلے میں 5624 ارب روپے ٹیکس جمع کیا گیا۔تاجر دوست اسکیم کے تحت 23.4 ارب روپے ٹیکس جمع کرنے کا ہدف بھی پورا نہ ہوا، وفاقی حکومت کی خالص آمدن 5887 ارب روپے رہی جبکہ وفاقی حکومت کے اخراجات 8200 ارب روپے سے تجاوز کر گئے۔ وزارتِ خزانہ کا کہنا ہے کہ پہلے 6 ماہ میں جی ڈی پی کے منفی1.2فی صد کے مساوی بجٹ خسارہ ہوا، قرضوں پر سود کی مد میں 5141 ارب روپے خرچ کیے گئے، وفاقی ترقیاتی منصوبوں پر صرف 164 ارب روپے خرچ کیے گئے۔دفاع پر890ارب روپے خرچ کئے گئے ، کربٹ آخراجات جی ڈی پی کے9.1فی صد کے مساوی رہے ۔ جولائی تا جنوری وفاقی ترقیاتی پروگرام کے تحت 220 ارب روپے سے زیادہ کے اخراجات ہوئے، 7 ماہ ترقیاتی پروگرام کیلئے 629 ارب روپے جاری کئے گئے۔اعداد و شمار کے مطابق ارکان پارلیمنٹ کی ترقیاتی سکیموں کیلئے 48 ارب روپے سے زیادہ جاری جبکہ ارکان پارلیمنٹ کی ترقیاتی سکیموں پر صرف 82 لاکھ روپے سے زیادہ خرچ ہوئے۔ صوبوں اور خصوصی علاقہ جات کے ترقیاتی منصوبوں پر 59 ارب روپے سے زیادہ خرچ ہوئے، آبی وسائل کے ترقیاتی منصوبوں پر 44 ارب روپے سے زیادہ کے اخراجات ہوئے۔نیشنل ہائی وے اتھارٹی کے ترقیاتی منصوبوں پر 43 ارب روپے، اعلیٰ تعلیمی کمیشن کے ترقیاتی منصوبوں پر 13 ارب روپے سے زیادہ کے اخراجات ہوئے۔دستاویز کے مطابق ریلوے ڈویڑن کے ترقیاتی منصوبوں پر 12 ارب اور پاور ڈویڑن کے ترقیاتی منصوبوں پر 5 ارب روپے سے زیادہ کے اخراجات ہوئے۔