گلگت بلتستان میں جاری دیامر بھاشا ڈیم کے متاثرین کا احتجاج جمعرات کو 12ویں روز میں داخل ہوگیا۔
یہ بھی پڑھیں: دیامر بھاشا ڈیم کے متاثرین کو فی کس 47 لاکھ روپے معاوضہ ادا کیا جائے، صدر مملکت کی ہدایت
چلاس دیامر بھاشا ڈیم کے متاثرین کے حقوق کی جدوجہد دن بدن زور پکڑ رہی ہے۔ شدید سردی اور بارش کے باوجود مظاہرین دھرنے میں موجود ہیں اور ان کے مطابق وہ اپنے مطالبات کی منظوری تک احتجاج جاری رکھنے کے عزم پر قائم ہیں۔
یاد رہے کہ وفاقی وزیر انجینیئر امیر مقام وزیراعظم کی طرف سے تشکیل دی گئی تھی اور کمیٹی کے اراکین کے ہمراہ چلاس کا دورہ کیا تھا۔ وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان حاجی گلبر اور صوبائی وزرا کے ہمراہ حقوق دو ڈیم بناؤ تحریک کے ذمہ داران سے مذاکرات کیے مگر وہ ناکام رہے تھے جس کی بنا پر وفاقی وزیر واپس اسلام آباد چلے گئے تھے۔
علاوہ ازیں صوبائی سطح پر بھی ایک کمیٹی بنائی گئی جو کہ وفاقی حکومت اور متاثرین کے مطالبات کے حوالے سے اپنا کردار ادا کرے گی مگر متاثرین نے اس کمیٹی کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہم صرف وفاقی کمیٹی سے بات کریں گے اور صوبائی کمیٹی سے بات کرنے کے لیے تیار نہیں۔
احتجاجی دھرنے کے روح رواں مولانا حضرت نے کہا کہ بارش اور سرد موسم میں بھی ثابت ہیں ہمارے حوصلے بلند ہیں۔ میں نے اپنے جوانوں، بزرگوں اور علمائے کرام کو استقامت کی چٹان کی طرح کھڑا دیکھا ہے اور میں گلگت بلتستان کے ہر کونے سے ہماری آواز میں آواز ملانے والوں کو سلام پیش کرتا ہوں جو ہمت کے ساتھ کھڑے ہیں۔
مزید پڑھیے: دیامر بھاشا ڈیم متاثرین کا احتجاج جاری، شاہراہ قراقرم ایک بار پھر مکمل بند
مولانا حضرت کا کہنا تھا کہ حکومت نے یقین دہانی کرائی ہے کہ موسم صاف ہوتے ہی وزارتی کمیٹی مذاکرات کے لیے آئے گی جبکہ وزیراعلیٰ گلگت بلتستان نے بھی ایک کمیٹی تشکیل دی ہے جو مذاکرات میں شامل ہوگی۔
انہوں نے اعلان کیا کہ مذاکرات کی پیش رفت کے پیش نظر لانگ مارچ کو فی الوقت ملتوی کردیا گیا ہے تاہم اگر حکومت نے سنجیدگی کا مظاہرہ نہ کیا تو اگلے مرحلے میں مزید سخت احتجاج ہوگا۔
یاد رہے کہ وفاقی حکومت نے مظاہرین کے مطالبات نہ ماننے کی صورت میں ڈیم کی طرف سے لانگ مارچ کا اعلان کیا گیا تھا اور کام کو رکوانے کا اعلان بھی کیا گیا تھا۔ علاوہ ازیں علاوہ گلگت بلتستان بھر سے لوگوں کو سیاسی اور سماجی پارٹیوں اور قافلوں کو دعوت دی گئی تھی کہ وہ دھرنے میں دیامر کے عوام کے ساتھ شریک ہوں جس پر لبیک کہتے ہوئے کئی افراد نے شرکت کی۔
مولانا حضرت نے واپڈا حکام کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اگر ڈیم بنانا ہے تو پہلے متاثرین کو ان کے حقوق دینے ہوں گے اور اگر ہمارے 31 مطالبات پر عمل نہیں ہوا تو ہر گزرتا دن حکام کے لیے مشکلات میں اضافہ کرے گا۔
مزید پڑھیں: دیامر بھاشا ڈیم ایریا کے علاقے میں بیش بہا ثقافتی ورثہ محفوظ بنانے کا آغاز
متاثرین کا مطالبہ ہے کہ انہیں زمینوں کا مکمل معاوضہ، روزگار کے مواقع اور دیگر بنیادی حقوق دیے جائیں۔ مظاہرین نے اعلان کیا ہے کہ ضرورت پرنے پر جب بھی کال دی گئی گلگت بلتستان کے عوام لبیک کہتے ہوئے لانگ مارچ میں شامل ہوجائیں گے۔