بچے کی تھیلی 7ویں مہینے میں پھٹ گئی!
بچہ 8ویں مہینے میں پیدا ہونے کے بعد 2 دن بعد چل بسا !
ساڑھے 6 مہینے کا بچہ ہے اور بچے دانی کا منہ کھل گیا ہے، کیا کریں ؟
32 ہفتے کا بچہ پیدا ہوا مگر بچ نہ سکا !
ایسے بہت سے ایسے سوالات اکثر ہم سے پوچھے جاتے ہیں۔ تشویش کے ساتھ ساتھ وجہ جاننے پر بھی اصرار ہوتا ہے۔ اگر چہ زیادہ تر لوگ ڈاکٹر کے زیر علاج ہوتے ہیں مگر کسی ایک کے پاس بھی تسلی بخش جواب نہیں ہوتا۔
وقت سے پہلے درد زہ شروع ہونے کی یا بچے کی تھیلی وقت سے پہلے پھٹنے کی زیادہ تر کیسسز میں وجہ وجائنا کی کمزور صحت ہے۔
جی ٹھیک سنا آپ نے۔ ۔ ۔ وجائنا جسے عرف عام میں شرمگاہ کہا جاتا ہے گو ہم اس سے متفق نہیں کہ اسی شرمگاہ سے ہی زندگی کا آغاز ہوتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: تھیلی وقت سے پہلے کیوں پھٹ گئی؟
خالق نے انسانی جسم میں بہت سے سوراخ بنائے ہیں جو اندرونی جسم کو بیرونی دنیا سے ملاتے ہیں۔ آنکھیں، ناک، کان، منہ، وجائنا، یورتھرا اور مقعد۔ ان سب سوراخوں میں ایسے بے شمار پہریدار بٹھائے گئے ہیں جو جراثیموں کی فوج کو اندرونی جسم میں داخل نہیں ہونے دیتے۔
مثال کے طور پر آنکھوں کے آنسو، کان میں پائی جانے والی ویکس، ناک کے بال، منہ کا لعاب یا تھوک ، یورتھرا اور مقعد کے تنگ پیچ ان سب اعضا کی حفاظت کرتے ہیں اور انہیں جراثیموں سے بچاتے ہوئے انفکشن سے روکتے ہیں۔ آشوب چشم تب ہوتا ہے جب حملہ شدید ہو اور آنکھ کمزور پڑ جائے، زکام تب ہوتا ہے جب ناک کے بال اور پانی وائرس اور بیکٹریا کو نہ روک سکیں، کان سے پیپ تب بہتا ہے جب کان کی ویکس کمزور پڑ جائے۔ پیشاب میں انفیکشن تب ہوتا ہے جب یورتھرا ڈھیلا پڑ جائے اور جراثیم مثانے میں داخل ہو جائیں اور مقعد میں پھوڑا بننے کی بھی یہی وجہ ہے۔
وجائنا کا مسئلہ کچھ گمبھیر ہے۔
1 -وجائنا کسی پیچ وغیرہ سے بند نہیں۔
2- اس میں کوئی ویکس وغیرہ نہیں پیدا ہوتی۔
3- وجائنا پیشاب پاخانے والی جگہ سے بہت نزدیک ہے سو ہر وقت جراثیم کے شدید حملے کا خطرہ رہتا ہے۔
4- وجائنا کے راستے رحم سے ماہواری کا خروج ہوتا ہے سو اس وقت بھی جراثیم حملہ کرتے ہیں۔
5- وجائنا میں جماع کے دوران بہت سے جراثیم منتقل ہوتے ہیں۔
آتشک اور سوزاک کا نام آپ نے شہر کی سڑکوں کے کنارے لگے اشتہاروں میں پڑھا ہی ہوگا جہاں حکیم صاحب یہ دعوت دے رہے ہوتے ہیں کہ آتشک اور سوزاک کے شافی علاج کے لیے مطب تشریف لائیے، جملہ امور راز میں رکھیں جائیں گے۔
لیکن آپ میں سے کتنے لوگ جانتے ہیں کہ یہ آتشک اور سوزاک ہیں کیا؟
صاحب یہ وہ بیماریاں ہیں جو بیویوں کو شوہر حضرات سے تحفے میں ملتی ہیں اور انہیں STD ( sexually transmitted diseases)
کہا جاتا ہے۔ ان بیماریوں کی وجہ بننے والے جراثیم وجائنا میں نہ صرف بدبو دار گاڑھی رطوبتیں، خارش اور بدبو کی وجہ بنتے ہیں بلکہ اسقاط حمل، وقت سے پہلے زچگی اور پانی کی تھیلی کا پھٹ جانا بھی ان ہی کی وجہ سے ہوتا ہے۔
آپ پوچھ سکتے ہیں کہ وجائنا کی حفاظت کا بندوبست کیوں نہیں کیا گیا؟
ایسا ہے کہ خالق نے اچھے بیکٹریا کی صورت میں ایسے پہرے دار بنائے تو ہیں جو اپنی جان دے کر وجائنا کی حفاظت کرتے ہیں مگر بہت سی کنڈیشنز ایسی ہوتی ہیں جن میں ان کی تعداد کم رہ جاتی ہے اور نقصان پہنچانے والے بیکٹریا زیادہ ہو جاتے ہیں، یعنی وجائنا بیمار ہو جاتی ہے۔ اس صورت حال کو بیکٹریل وجینوسس BV کہتے ہیں۔
حمل، خون کی کمی، اسقاط حمل، حفظان صحت کی کمی، پیڈز کا ناکافی استعمال، ناکافی غذا اور ایسے بہت سے عوامل ہیں جو وجائنا کی بیماری کی وجہ بنتے ہیں۔
مزید پڑھیے: امریکی ویزا، ایڈولسینس اور 14سالہ پاکستانی امریکن ٹک ٹاکر لڑکی کا قتل!
خاتون اگر موٹاپے اور ذیابیطس کی شکار ہوں تب بھی وجائنا اپنی صحت کھو دیتی ہیں۔ ان دونوں کیفیات میں فنگس وجائنا میں گھر بنا لیتا ہے اور جانے کا نام نہیں لیتا۔ یہ وہی فنگس ہے جو منہ میں بھی نظر آتا ہے جب کسی کی صحت کمزور ہو۔
ہمارے یہاں وجائنا کا معائنہ کرکے اندر پائی جانے والی رطوبتوں کی پہچان اور اس کے مطابق علاج تجویز کرنے کا رواج کچھ کم ہی ہے۔ عرف عام میں لوگ ایک ہی لفظ جانتے ہیں اور وہ ہے لیکوریا۔
ہم پہلے لکھ چکے ہیں کہ لیکوریا بذات خود کوئی بیماری نہیں۔ وجائنا میں کچھ نہ کچھ رطوبتیں ہر وقت موجود ہوتی ہیں جیسے آنکھ میں آنسو اور کان میں ویکس یا منہ میں تھوک۔
یہ رطوبتیں ابنارمل تب سمجھی جاتی ہیں جب ان میں انفیکشن پیدا ہو جائے اور بد بو آنے لگے، وجائنا میں خارش شروع ہو جائے یا رطوبتوں کا رنگ پیلا، سبز یا دہی کی پھٹکیوں جیسا ہو جائے۔
مزید پڑھیں: نومولود کو دھاتی چمچ پسند نہیں!
مارکیٹ میں ایسے بہت سے کیمیکلز موجود ہیں جو دعویٰ کرتے ہیں کہ وجائنا میں انہیں ڈال کر دھونا چاہیے۔ اس عمل کو Douching کہتے ہیں۔ ہم اس کے حق میں نہیں۔ وجائنا کی کیمیکلز سے اندرونی صفائی بھی وجائنا کو مزید کمزور کرتی ہے کہ قدرت کا بنایا ہوا دفاعی نظام گڑ بڑ ہو جاتا ہے۔
کیا آپ یقین کر سکتے ہیں کہ ہمیں زندگی میں محض ناک کے انفیکشن سے پالا پڑا ہے اور وہ بھی شاید اس لیے کہ ہماری ناک بہت اونچی ہے۔ بات کا دوسرا حصہ تو تفنن طبع کے لیے کہا گیا ہے مگر بات کا پہلا حصہ بالکل سچ ہے۔
کیا کرنا چاہیے؟
باقی آئندہ پڑھیے۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔