اسرائیلی فوج کی جانب سے تربیت یافتہ نہ ہونے والے فوجیوں کو غزہ پٹی میں بھیجنے کے اقدام پر ان فوجیوں کے اہل خانہ نے شدید احتجاج کیا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ اسرائیلی فوج کی جانب سے تربیت یافتہ نہ ہونے والے فوجیوں کو غزہ پٹی میں بھیجنے کے اقدام پر ان فوجیوں کے اہل خانہ نے شدید احتجاج کیا ہے۔ فارس نیوز کے مطابق، اسرائیلی فوج نے آج (جمعہ) اعلان کیا ہے کہ وہ اپنے اس فیصلے سے پیچھے ہٹ رہی ہے جس کے تحت ایک نئی کھیپ کو غزہ پٹی میں بھیجا جانا تھا، اور یہ بھی کہا ہے کہ وہ فوجی جنہوں نے اپنی تربیت مکمل نہیں کی، اب غزہ نہیں بھیجے جائیں گے۔ یہ فیصلہ فوجیوں کے اہل خانہ کی شدید دباؤ اور مخالفت کے بعد لیا گیا۔ عبرانی زبان کے چینل کان 11 نے جمعرات کی رات رپورٹ دی تھی کہ چتربازوں کی ایک بٹالین، جو ابھی تربیت کے پیش رفت مرحلے میں ہے، کو غزہ بھیجنے کے احکامات موصول ہوئے ہیں۔ اس خبر پر سوشل میڈیا پر ان فوجیوں کے اہل خانہ کی جانب سے سخت ردعمل سامنے آیا۔

روزنامہ العربی الجدید کے مطابق، ان میں سے ایک فوجی کے رشتہ دار نے واٹس ایپ پر لکھا کہ مجھے سمجھ نہیں آتا کہ پچھلی بار کے بعد اب کیا بدلا ہے؟ اس وقت فیصلہ ہوا تھا کہ تربیت مکمل نہ کرنے والے فوجیوں کو غزہ نہیں بھیجا جائے گا۔ میں واقعی بہت ناراض ہوں۔ ایک اور فوجی کے والد نے کہا کہ یہ ایک غیر ذمہ دارانہ فیصلہ ہے؛ ان فوجیوں نے ابھی تک اپنی تخصصی تربیت بھی مکمل نہیں کی۔ یہ ایک ماہ کے اندر دوسری بار ہے کہ اسرائیل نے تربیت نہ پانے والے فوجیوں کو غزہ جنگ میں شرکت کا حکم دیا ہے۔ 21 اپریل کو کان 11 نے رپورٹ دی تھی کہ فوجیوں کی کمی کی وجہ سے گولانی اور گیواتی بٹالین کے ایسے اہلکار، جنہوں نے صرف چار ماہ کی سروس مکمل کی تھی اور ابھی تربیت میں تھے، کو میدان جنگ میں بھیج دیا گیا۔

تاہم، اہل خانہ کی شدید مخالفت کے بعد، اسرائیلی فوج نے گولانی بٹالین کے ان فوجیوں کو غزہ سے واپس بلا لیا اور دیگر بٹالینز کے تربیت یافتہ نہ ہونے والے اہلکاروں کو بھیجنے کا فیصلہ منسوخ کر دیا۔ اس سے قبل اسرائیلی اخبار ہاآرتص نے رپورٹ دی تھی کہ غزہ میں جاری جنگ میں اسرائیلی فوج اُن تجربہ کار فوجیوں کو بھی استعمال کر رہی ہے جو جنگی صدمات کے باعث ذہنی مسائل کا شکار ہیں۔ اسرائیلی وزارت جنگ کے مطابق، ماضی کی جنگوں میں زخمی ہونے والے 78 ہزار افراد زیر علاج ہیں؛ ان میں سے 26 ہزار نفسیاتی مسائل کا شکار ہیں، جن میں 11 ہزار کو باضابطہ طور پر پوسٹ ٹرامیٹک اسٹریس ڈس آرڈر (PTSD) کی تشخیص ہو چکی ہے۔ موجودہ جنگ میں زخمی ہونے والوں میں سے بھی 9 ہزار افراد ذہنی صدموں کا شکار ہوئے ہیں۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: فوجیوں کے اہل خانہ والے فوجیوں کو غزہ اسرائیلی فوج تربیت یافتہ ہونے والے ان فوجیوں

پڑھیں:

بنگلہ دیش: یونس انتظامیہ کے تحت ہونے والے انتخابات سے قبل درپیش چیلنجز

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 16 ستمبر 2025ء) نوبیل انعام یافتہ محمد یونس کی سربراہی میں قائم عبوری حکومت نے فروری میں عام انتخابات کرانے کا وعدہ کیا ہے۔

تاہم 17 کروڑ آبادی والے اس مسلم اکثریتی ملک میں شکوک و شبہات بڑھتے جا رہے ہیں، جہاں سیاست تقسیم در تقسیم اور تشدد میں اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ شیخ حسینہ کے اقتدار کے خاتمے کے دوران اور بعد میں وجود میں آنے والے اتحاد اب ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو رہے ہیں، جبکہ انتخابات میں صرف پانچ ماہ باقی ہیں۔

اہم جماعتیں کون سی ہیں؟

شیخ حسینہ کی سابق حکمران جماعت عوامی لیگ پر پابندی کے بعد بڑے کھلاڑی بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی) اور اسلام پسند جماعت، جماعتِ اسلامی ہیں۔

ایک اور اہم جماعت نیشنل سٹیزن پارٹی (این سی پی) ہے، جو ان طلبہ رہنماؤں نے بنائی جنہوں نے بغاوت میں مرکزی کردار ادا کیا تھا۔

(جاری ہے)

آپسی رقابتوں نے سڑکوں پر جھڑپوں کے خدشات کو بڑھا دیا ہے، جبکہ یونس انتخابی عمل پر اعتماد بحال کرنے کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔

یونس کی پوزیشن کیا ہے؟

ملک میںمائیکروفنانس کے بانی پچاسی سالہ یونس، جو انتخابات کے بعد مستعفی ہو جائیں گے، اس بات پر زور دیتے ہیں کہ ''انتخابات کا کوئی متبادل نہیں ہے۔‘‘

امریکہ میں مقیم تجزیہ کار مائیکل کوگلمین، جنہوں نے حال ہی میں بنگلہ دیش کا دورہ کیا، کا کہنا ہے کہ ''کچھ کلیدی عناصر کا شاید انتخابات مؤخر ہونے میں مفاد ہو سکتا ہے۔

‘‘

یونس کی روزمرہ کے سیاسی امور سے دوری اور فوج کے ممکنہ کردار پر قیاس آرائیاں غیر یقینی صورتحال کو بڑھا رہی ہیں۔

فوج کے سربراہ جنرل وقارالزماں کی اعلیٰ حکام کے ساتھ حالیہ ملاقاتیں قیاس آرائیوں کو اور ہوا دے رہی ہیں۔

فوج، جس کا ملک میں بغاوتوں کی ایک طویل تاریخ ہے، اب بھی طاقتور کردار کی حامل ہے۔

گروپ کیوں منقسم ہیں؟

اختلاف کا بنیادی نکتہ جولائی کا ''نیشنل چارٹر‘‘ ہے۔

یہ ایک جامع اصلاحاتی دستاویز ہے، جو وزرائے اعظم کے لیے دو مدت کی حد اور صدر کے اختیارات میں توسیع تجویز کرتی ہے۔

سیاسی جماعتوں نے 84 اصلاحی تجاویز پر اتفاق کیا ہے لیکن اس پر اختلاف ہے کہ ان کو کیسے نافذ کیا جائے۔ سب سے بڑا اختلاف اس کی قانونی حیثیت پر ہے۔

نیشنل کنسینسس کمیشن کے نائب چیئرمین علی ریاض نے کہا، ''اب اصل تنازعہ ان تجاویز کے نفاذ کے طریقہ کار پر ہے۔

‘‘

بی این پی کا کہنا ہے کہ موجودہ آئین کو انتخابات سے پہلے نظرانداز نہیں کیا جا سکتا اور صرف نئی پارلیمان ہی اس کی توثیق کر سکتی ہے۔

دیگر جماعتیں چاہتی ہیں کہ انتخابات سے پہلے ہی اس کی توثیق ہو۔

جماعت اسلامی کے سینیئر رہنما سید عبداللہ محمد طاہر نے اے ایف پی سے کہا کہ ''عوام کو اصلاحات پر اپنی رائے دینے کا موقع دیا جانا چاہیے، اس لیے ریفرنڈم ناگزیر ہے۔

‘‘

این سی پی کے سینیئر رہنما صالح الدین صفات نے کہا کہ اگر انتخابات سے پہلے اس کی کوئی ''قانونی بنیاد‘‘ نہ بنائی گئی تو یہ ان لوگوں سے غداری ہو گی جو بغاوت میں مارے گئے۔

انہوں نے کہا، ''ہم اپنے مطالبات پورے ہوئے بغیر انتخاب میں حصہ نہیں لیں گے۔‘‘

جماعتوں کے مابین جھگڑا کس بات پر ہے؟

شیخ حسینہ کی عوامی لیگ پر صدارتی حکم کے ذریعے پابندی لگائی گئی۔

جماعت اسلامی چاہتی ہے کہ جاتیہ پارٹی سمیت مزید 13 جماعتوں پر بھی پابندی لگائی جائے جن کے ماضی میں حسینہ سے روابط رہے ہیں۔

بی این پی اس کی مخالفت کرتی ہے اور کہتی ہے کہ عوامی لیگ پر مقدمہ عدالت کے ذریعے چلنا چاہیے۔

بی این پی کے صلاح الدین احمد نے کہا،''کسی بھی جماعت پر انتظامی حکم کے ذریعے پابندی لگانا ہماری پالیسی نہیں ہے، یہ فیصلہ عدالتی عمل کے ذریعے قانونی بنیاد پر ہونا چاہیے۔

‘‘

یونس پر جانبداری کے الزامات اس وقت لگے جب انہوں نے لندن میں بی این پی رہنما طارق رحمان سے ملاقات کی، جس پر جماعت اور این سی پی نے برہمی کا اظہار کیا۔

آگے کیا چیلنجز ہیں؟

عبوری حکومت قانون وامان کے بگڑتے حالات کا سامنا کر رہی ہے۔

عالمی بینک کے سابق ماہرِ معاشیات زاہد حسین نے عبوری حکومت کو ''خوش مزاج اور دلیر‘‘ قرار دیا لیکن ساتھ ہی ’’بے بس اور حیران‘‘بھی کہا۔

انسانی حقوق کی تنظیم "آئین و ثالث کیندر" (قانون و مصالحت مرکز) کے مطابق اس سال 124 ہجوم کی جانب سے قتل کے واقعات رپورٹ ہوئے ہیں، جبکہ پولیس کے اعدادوشمار میں بھی قتل، زیادتی اور ڈکیتیوں میں اضافہ دکھایا گیا ہے۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یونس کو قابلِ اعتماد انتخابات کرانے کے لیے فوج کی مکمل حمایت اور اس بات کی ضمانت درکار ہے کہ تمام جماعتیں آزادانہ طور پر مقابلہ کر سکیں۔

ڈھاکہ یونیورسٹی کے سیاسیات کے پروفیسر مامون المصطفیٰ نے کہا کہ بروقت انتخابات کے لیے یونس کو ''فوج کی غیر مشروط اور مستقل حمایت‘‘ حاصل کرنا ہو گی۔

ادارت: صلاح الدین زین

متعلقہ مضامین

  • سعودی عرب کی جانب سے غزہ پر اسرائیلی جارحیت کی شدید مذمت
  • پانی کی لائن ٹوٹنے سے یونیورسٹی روڈ دریا کا منظر پیش کرنے لگی
  • ملک کے لئے جانیں قربان کرنے والے شہداء اور ان کے اہل خانہ کو پوری قوم سلام پیش کرتی ہے، گنڈا پور
  • بنگلہ دیش: یونس انتظامیہ کے تحت ہونے والے انتخابات سے قبل درپیش چیلنجز
  • کراچی؛ پانی کی لائن ٹوٹنے سے یونیورسٹی روڈ دریا کا منظر پیش کرنے لگی
  • کیا آپ کو معلوم ہے پاکستان کی پہلی تربیت یافتہ خاتون گھڑی ساز کون ہیں؟
  • اسرائیل کی غزہ میں وحشیانہ بمباری تھم نہ سکی، مزید 16 فلسطینی شہید
  • عرب اسلامی اجلاس میں اسرائیل کے خلاف مضبوط فیصلے کیے جائیں، سیکریٹری جنرل او آئی سی
  • 15 لاکھ آسٹریوئ شہری خطرے میں: سمندر کی سطح میں خطرناک اضافے کی پیشگوئی
  • رومانیہ میں روسی ڈرون داخل، روسی سفیر کی طلبی، شدید احتجاج