ماہرین کے ایک گروپ نے کہا ہے کہ ایران پر اسرائیلی حملوں کا سلسلہ ہفتوں تک جاری رہ سکتا ہے جس کا ممکنہ مقصد یہی ہو سکتا ہے کہ وہاں کے نظامِ حکومت کو تبدیل کیا جائے۔
عرب نیوز کے مطابق مباحثے کا اہتمام مڈل ایسٹ انسٹیٹیوٹ کی جانب سے کیا گیا تھا۔
پینل میں امریکی سینٹرل کمانڈ کے سابق کمانڈر جنرل (ر) جوزف ایل ووٹل کے علاوہ ریٹائرڈ وائس ایڈمرل کیون ڈونیگن، امریکی بحریہ کے سابق عہدیدار الیکس واٹنکا اور ایرانی امور پر گہری نظر رکھنے والے رائٹ پیٹرسن بھی موجود تھے جو اوہائیو کے ایئر فورس اکیڈمی میں پڑھاتے ہیں۔
اس موقع پر الیکس واٹنکا کا کہنا تھا کہ ’اگرچہ ابھی یہ کہنا قبل از وقت ہے کہ آیا اسرائیل کا بنیادی مقصد ایران کے جوہری پروگرام کو ختم کرنے کے ساتھ نظامِ حکومت کی تبدیلی بھی ہے تاہم عین ممکن ہے کہ اسی طرف ہی بڑھا جا رہا ہو۔
انہوں نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ’میرے خیال میں ایران کے زیادہ تر حکام کا خیال بھی یہی ہے تاہم ایک سوال یہ بھی ہے کہ اس کے لیے اسرائیل ڈونلڈ ٹرمپ کو کیسے قائل کرے گا جیسا کہ ابتدائی حملے کے وقت کر لیا گیا تھا۔‘
ماہرین کا متفقہ طور پر یہ خیال تھا کہ لڑائی کا دائرہ دوسرے ممالک تک نہیں پھیلے گا۔
الیکس واٹنکا نے کہا کہ ’ایرانی قیادت فتح کو اپنی ’بقا‘ سے تعبیر کرے گی کیونکہ اسرائیل کو امریکہ اور یورپ کے زیادہ حصے کی حمایت حاصل ہے اور اسرائیل کو کہیں سے بھی مدد نہیں مل رہی۔‘
ان کے مطابق ’میرا نہیں خیال کہ اس کو کہیں سے مدد ملے گی میں مزاحمت کے دائرے میں شامل ارکان سے پوچھتا ہوں کہ ایسے موقع پر وہ آخر کر کیا سکتے ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ اس کا ساتھ دینے والے حماس اور حزب اللہ کے حوالے سے کہا کہ ان کو اسرائیلی فوج نے بہت زیادہ حد تک کمزور کر دیا ہے جبکہ یمن کے حوثیوں کی حالت بھی زیادہ مختلف نہیں۔
اس موقع پر ایڈمرل کیون ڈونیگن کا کہنا تھا کہ ’میرے خیال میں اصل سوال یہ ہے کہ کیا ایران کو لگتا ہے کہ اس نے اسرائیل کو کافی بڑا جواب دیا ہے اور کیا وہ اب مذاکرات کی طرف آ سکتا ہے۔‘
انہوں نے امکان ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ اگرچہ بظاہر ایسا لگ نہیں رہا مگر مستقبل قریب میں وہ مذاکرات کی میز بیٹھے ہوں گے۔
انہوں نے آبنائے ہرمز کے حوالے سے کہا کہ ایران اس کو بند سکتا ہے تاہم اس سے اسے مالی فائدہ نہیں ہو گا کیونکہ وہ اپنا تیل بھی باہر نہیں بھیج سکے گا۔‘
ماہرین نے اس نکتے پر بھی اتفاق کیا کہ لڑائی کے خاتمے کا دارومدار اس امر پہ ہے کہ اسرائیل جنگ میں کہاں تک جانا چاہتا ہے۔
الیکس واٹنکا کا کہنا تھا کہ ’امریکہ نے اس معاملے پر گڈ کاپ کا کردار ادا کیا ہے اور صدر ٹرمپ نے سفارت کاری کے لیے دروازہ کھلا رکھا ہوا ہے۔‘

Post Views: 4.

ذریعہ: Daily Mumtaz

کلیدی لفظ: انہوں نے ہے کہ اس سکتا ہے ہے کہ ا کہا کہ تھا کہ

پڑھیں:

خود نمائی پر مبنی حکمرانی کا نظام

پاکستانی سیاست میں حکمرانی کا نظام اور اقتدار میں موجود افراد اور جماعتیں نظام کی تبدیلی یا اصل مسائل کے حل کے بجائے شخصی حکمرانی کا شکار نظر آتی ہیں ۔یہاں اداروں سے زیادہ افراد کی حکمرانی ہوتی ہے اور مجموعی طور پر حکمرانی کا نظام ایک یا چندا فراد یا ان کے خاندان کے گرد گھومتا نظر آتا ہے ۔

یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ حکمران طبقات آئین اور قانون کی حکمرانی سے زیادہ اس نظام کو اپنے خاندان کی سطح تک ہی محدود کرکے نظام کو چلانا چاہتے ہیں ۔اس حکمت عملی کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ملک میں ادارہ جاتی عمل کمزور ہوتا ہے اور ادارے آئین و قانون کے بجائے طاقت ور افراد کے مفادات کے تابع بن کر رہ جاتے ہیں۔اسی طرح ہم یہ بھی دیکھ رہے ہیں کہ اب حکمرانی کے نظام میں اپنی کارکردگی کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے کا ایک سیاسی رواج بن گیا ہے۔

اس کھیل میں میڈیا سمیت ڈیجیٹل میڈیا کو بھی ایک بڑے ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کھیل میں حکمران جماعتیں حصہ دار ہیں مگر اپوزیشن جماعتیں بھی مقابلے کی اس دوڑ میں شامل نظر آتی ہیں ۔ حکمرانوںکی یہ خواہش غالب ہوتی ہے کہ ہر اشتہار، تشہیر ،بورڈز، ڈیجیٹل اور پرنٹ یا الیکٹرانک میڈیا مہم یا پہلے سے موجود یا نئے ترقیاتی منصوبوں کو ان کے ناموں کے ساتھ اسے منسوب کیا جائے ۔

پاکستان کی سیاست میں شخصی یا خاندانی نظام کی بنیاد پر حکمرانی کا نظام کوئی نئی بات نہیں ۔اصل میں حکمرانوں کی سوچ اور منطق یہ ہوتی ہے کہ ملک میں اداروں کی مضبوطی کے بجائے ان کی شخصی یا خاندانی حکمرانی کا بول بالا ہو اور لوگوں کو لگے کہ یہ ہی لوگ ہمارے سیاسی مسیحا ہیں۔تمام حکمران جماعتوں کی لیڈر شپ کے بیانات سے ایسے لگتا ہے کہ جیسے پاکستان بہت زیادہ ترقی کرگیا ہے اور ملک کے چاروں اطراف نظر کو ڈالیں تو خوشحالی ہی خوشحالی ہے۔

زمینی حقایق کو دیکھیں تو تو وہاں غربت، بھوک ، افلاس، سماجی، سیاسی اور معاشی عدم انصاف اور محرومی کی سیاست غالب نظر آتی ہے جو بھی حکومت کے خیراتی منصوبے ہیں ان میں نہ صرف لوگوں کی نمائش کرکے ان کو لائینوں میں لگایا جاتا ہے بلکہ ان پر حکمران طبقات کی تصاویر بھی نمایاں ہوتی ہیںیا خیرات یا امداد لینے والوں کی تصاویر کو بھی میڈیا میں دکھا کر لوگوں کی عزت ونفس سے کھیلا بھی جاتا ہے۔

اس کھیل میں حکمرانوں کی سیاسی خوشنودی کے حصول کے لیے ہماری بیوروکریسی بھی کمال کا کردار ادا کرتی ہے اور خود حکمرانوں کی خواہش کی بنیاد پر ایسے منصوبے سامنے لاتی ہے جس سے حکمرانوں کی تشہیر کا سامان پیدا ہوسکے۔ہم بنیادی طور پر قوم کو حکمران کی بت پرستی ، پوجا پرستی یا اندھی محبت میں ڈال کر اپنے اقتدار کے کھیل کو مضبوط بنانا چاہتے ہیںاور اسی حکمت عملی کو بنیاد بنا کراور ریاستی و حکومتی اداروں کو استعمال کرکے اپنی حکمرانی کے نظام کو تقویت دینا ہی ہماری سیاسی مجبوری بن گیا ہے۔

پہلے ہی اس ملک میں خاندان کی بنیاد پر موروثی سیاست طاقت پکڑ چکی ہے۔ایک طرف جمہوری اور سیاسی حکمرانی کے دعوے تو دوسری طرف آمرانہ اور بادشاہت پر مبنی حکمرانی کا نظام اس ملک میں کسی بڑے سیاسی اور جمہوری تضاد سے کم نہیں ہے۔جب حکمران طبقہ چھوٹی چھوٹی باتوں اور اقدام یا منصوبوں یا حکومتی سہولتوں پر اپنی یا اپنے خاندان کے دیگر افراد کی تصاویر کو نمایاںکرتے ہیں تو اس میں جہاں شخصی حکمرانی ہوتی ہے وہیں موروثی خاندانی سیاست کو مضبوط بنانا بھی ہوتا ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ حکومتی حکمران ہوں یا بڑے بڑے عہدوں پر موجود افراد ہو جو کسی نہ کسی ادارے کی نمایندگی کرتے ہیں ان کو کیا ہمارا ریاستی قانون،آئین اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ وہ ان عہدوں پر بیٹھ کر ریاست یا حکومتی مالی وسائل کی بنیاد پر اپنے ذاتی مفادات یا خاندانی یا شخصی حکمرانی کے نظام کو مضبوط بنائیں۔اگر حکمرانوں کو حکومتی منصوبوں کو اپنے خاندان کے نام سے منسوب کرنا ہے تو وہ یہ کام ذاتی وسائل سے کریں اور حکومتی وسائل کو کمزور طبقات کی حالت زار کو بہتر بنانے میں صرف کریں۔

اس حکمرانی کے نظام کو اپنی ذاتی جاگیر سمجھنے کے بجائے ریاست کے آئین اور قانون کا پابند ہوکر نظام کو چلانا ہی حکمران طبقہ کی بڑی ترجیح ہونی چاہیے۔اصل میں حکمران طبقہ سمجھتا ہے کہ اس طرح کی حکمت عملی کو اختیار کرکے ہم عوام میں مقبول ہوسکتے ہیں اور لوگ ہمیں زیادہ سے زیادہ پزیرائی دیں گے۔لیکن اگر یہ ساری ذاتی مفاد پر مبنی اور سیاسی مفادات پر مبنی ہے اور زمینی حقایق ان کے دعوؤں کے برعکس ہو تو پھر موروثی سیاست کا عوام میں سخت منفی ردعمل ہوتا ہے اور لوگ اس لیڈر شپ کو جھوٹ پر مبنی قرار دیتے ہیں یا ان کا مذاق یا ان سے نفرت کا اظہار کرتے ہیں ۔ڈیجیٹل میڈیا پر نئی نسل کا حکمرانی کے نظام پر غصہ کی کئی جھلکیاں دیکھنے کو ملتی ہیں اور پھر حکمران طاقت کے زور پر ان آوازوں کو دبانے کی کوشش کرتے ہیں جو مزید منفی ردعمل پیدا کرتا ہے۔

اصل میں حکمرانوں کا کام حکمرانی کے نظام کو شفافیت کی بنیاد پر قائم کرنا ہوتا ہے اور ایسے منصوبوں کو سامنے لایا جاتا ہے جو لوگوں کی سیاسی اور معاشی حالت یا ا ن کے اسٹیٹس کو تبدیل کرکے بہتری کی طرف لاسکے ۔اس کام میں حکومت یا حکمران طبقہ اپنی ٹیم کو شامل کرنا چاہتا ہے تو ضرور کرے مگر پھر لوگوں کو زمین پر کام ہوتا ہوا بھی نظر آئے اور لوگ یقین کریں کہ موجودہ حکمرانی کا نظام ہمارے مسائل کا حل بھی ہے۔

ہمارے حکمران طبقات اس خوش فہمی میں رہتے ہیں کہ وہ سدا بہار حکمران ہیں اور ہم اقتدار سے کبھی نہیں جائیں گے لیکن آخر سب کو ہی جانا ہوتا ہے اور جانے کے بعد ان حکمرانوں کو اندازہ ہوتا ہے کہ ہم عوام میں کہاں کھڑے ہیں یا لوگ ہمیں کس نام سے یاد کرتے ہیں۔

اس لیے پاکستان کے مجموعی حکمرانی کے نظام کو تبدیل ہونا ہے اور خود نمائی یا شخصی بنیادوں پر قائم حکمرانی کا نظام ہمارے قومی مسائل کو حل نہیں کرسکے گا۔جب تک اس ملک میں اداروں کی بالادستی سمیت آئین اور قانون کی حکمرانی نہیں ہوگی اور ہم اپنے داخلی جمہوری تضادات سے باہر نہیں نکلیں گے مسائل کا حل ممکن نہیں۔اس لیے ملک کے حکمرانی کے نظام کو شفافیت میں لانا ہی ہماری ریاست کی اور حکومت سمیت اداروں کی پہلی ترجیح ہونی چاہیے۔

متعلقہ مضامین

  • جرمن وزیر خارجہ کا دورہ اسرائیل، مقصد جنگ بندی پر زور
  • فلسطینی ریاست کے قیام کے بغیر امن قائم نہیں ہو سکتا، ماسکو
  • اسرائیل کا مقصد عرب ممالک سے دوستی نہیں بلکہ ان پر قبضہ کرنا ہے، سعودی اخبار
  • طرزِ زندگی میں معمولی تبدیلی خطرناک بیماری سے بچا سکتی ہے: ماہرین
  • ہمسایہ ممالک سے تعلقات کو مضبوط بنا کر پابندیوں کو ناکام بنایا جا سکتا ہے، ایرانی صدر
  • ایران نے امریکا و اسرائیل کی 12 روزہ ہائبرڈ جنگ کی تفصیلات جاری کر دیں
  • پیوٹن کا نیتن یاہو سے ہنگامی رابطہ، پسِ پردہ کیا ہے؟
  • خود نمائی پر مبنی حکمرانی کا نظام
  • آصف زرداری کے بغیر یہ سسٹم 6 ماہ نہیں چل سکتا
  • اسرائیلی وزیر دفاع نے ایران کے سپریم لیڈر کو براہ راست نشانہ بنانے کی دھمکی دیدی