فرانس کا مشرق وسطیٰ میں منصفانہ اور پائیدار امن کیلئے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا فیصلہ
اشاعت کی تاریخ: 25th, July 2025 GMT
فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون نے اعلان کیا ہے کہ فرانس نے مشرق وسطیٰ میں منصفانہ اور پائیدار امن کے لیے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
فرانسیسی صدر نے اپنی ’ایکس‘ پوسٹ میں لکھا کہ ’اپنے تاریخی مؤقف کے مطابق جو مشرقِ وسطیٰ میں ایک منصفانہ اور پائیدار امن کے لیے پرعزم رہا ہے، میں نے فیصلہ کیا ہے کہ فرانس، ریاستِ فلسطین کو تسلیم کرے گا‘۔
انہوں نے کہا کہ ’میں یہ سنجیدہ اعلان رواں سال ستمبر میں اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کے دوران کروں گا‘۔
ان کا کہنا تھا کہ ’آج کی سب سے فوری ترجیح غزہ کی جنگ کا خاتمہ اور وہاں کی شہری آبادی کو ریلیف فراہم کرنا ہے، امن ممکن ہے‘۔
انہوں نے کہا کہ ’ہمیں فوری جنگ بندی، تمام یرغمالیوں کی رہائی اور غزہ کے عوام کے لیے بڑے پیمانے پر انسانی امداد کی ضرورت ہے، ہمیں یہ بھی یقینی بنانا ہو گا کہ حماس کو غیر مسلح کیا جائے، غزہ کو محفوظ بنایا جائے اور دوبارہ تعمیر کیا جائے‘۔
فرانسیسی صدر نے کہا کہ ’آخرکار ہمیں فلسطینی ریاست کی تشکیل کرنی ہوگی، اس کی بقا کو یقینی بنانا ہو گا، اور یہ بھی لازم ہے کہ وہ غیر عسکری ہو، اسرائیل کو مکمل طور پر تسلیم کرے اور پورے خطے کی سلامتی میں کردار ادا کرے، اس کا کوئی متبادل نہیں‘۔
انہوں نے کہا کہ ’فرانسیسی عوام مشرقِ وسطیٰ میں امن چاہتے ہیں، بطور فرانسیسی شہری، اسرائیلیوں، فلسطینیوں اور اپنے یورپی و بین الاقوامی شراکت داروں کے ساتھ یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم ثابت کریں کہ امن ممکن ہے‘۔
ایمانوئل میکرون نے مزید لکھا کہ ’فلسطینی اتھارٹی کے صدر کی جانب سے میرے ساتھ کیے گئے وعدوں کی روشنی میں، میں نے انہیں ایک خط لکھا ہے جس میں اپنی اس پیش رفت کے عزم کا اظہار کیا ہے‘۔
واضح رہے کہ اب تک 27 میں سے 11 یورپی ممالک فلسطین کو آزاد ریاست تسلیم کرچکے ہیں، سویڈن 2014 میں فلسطین کو باضابطہ ریاست تسلیم کرنے والا پہلا مغربی یورپی ملک تھا، سویڈن کے فوری بعد بلغاریہ، قبرص، چیکیا، ہنگری، پولینڈ، رومانیہ اور سلوواکیہ نے بھی فلسطین کو آزاد ریاست تسلیم کرلیا۔
بعد ازاں اسپین، آئرلینڈ، ناروے، آرمینیا اور سلووینیا نے بھی مئی اور جون 2024 میں فلسطینی ریاست کو باضابطہ طور پر تسلیم کر لیا تھا جبکہ آئس لینڈ نے فلسطین کو 2011 میں تسلیم کیا تھا۔
Post Views: 6.