اسلام آباد(نیوز ڈیسک)پاکستان کی معیشت کیلئے ایک بڑی پیش رفت کے طور پر ریکوڈک کاپر پراجیکٹ ہر سال ملک کی جی ڈی پی میں تقریباً ایک فیصد حصہ ڈالے گا، جس سے یہ پروجیکٹ ملکی تاریخ کے اہم ترین صنعتی منصوبوں میں شامل ہو جائے گا۔ وزیراعظم کے اعلیٰ معاون ڈاکٹر توقیر شاہ نے کہا کہ انٹرنیشنل فنانس کارپوریشن (آئی ایف سی) کے تازہ ترین بڑے مالیاتی پیکج (جس میں 300؍ ملین ڈالرز کا براہ راست قرضہ اور 400؍ ملین ڈالرز کا بلینڈڈ فنانس شامل ہے) کی مدد سے یہ منصوبہ پاکستان میں کان کنی کے شعبے میں آئی ایف سی کی پہلی سرمایہ کاری ہے اور ملک کی معاشی صلاحیت پر عالمی اعتماد کی بحالی کا ثبوت ہے۔ دی نیوز سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ آئی ایف سی نہ صرف مرکزی قرض دہندہ کا کردار ادا کرے گا بلکہ ماحولیاتی اور سماجی ہم آہنگی کی نگرانی بھی کرے گا تاکہ منصوبہ عالمی معیارات اور پائیدار اصولوں کے مطابق ثابت ہو۔ حال ہی میں آئی ایف سی اور ورلڈ بینک نے ریکوڈک منصوبے کیلئے 700؍ ملین ڈالرز کا رعایتی قرضہ منظور کیا تھا۔ ایک میڈیا رپورٹ کے مطابق اس منظوری کے بعد نجی شعبے کی جانب سے ریکوڈک منصوبے میں ڈھائی ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری متوقع ہے۔ اس کامیابی میں ڈاکٹر شاہ نے کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ وزیراعظم کے مشیر کا کہنا تھا کہ ریکوڈک پاکستان کی معیشت کا ایک ستون بننے جا رہا ہے جو 2024ء کے اعداد و شمار کے مطابق ہر سال تقریباً 2؍ ارب ڈالرز کا گراس ویلیو ایڈیڈ پیدا کرے گا، جو ملک کی جی ڈی پی کا تقریباً ایک فیصد ہوگا۔ منصوبے سے قیمتی زرمبادلہ حاصل ہوگا کیونکہ 100؍ فیصد آمدنی غیر ملکی کرنسی میں ہوگی۔ ریکوڈک مائننگ کمپنی پرائیویٹ لمیٹڈ کی قیادت میں یہ منصوبہ دنیا کی سب سے بڑی کاپر مائنز میں شامل ہوگا، جو ملک کیلئے معاشی، سماجی اور ماحولیاتی فوائد کے دروازے کھولے گا۔ اس منصوبے میں کینیڈا کی بیرک گولڈ کارپوریشن 50؍ فیصد، تین پاکستانی سرکاری ادارے 25؍ فیصد جبکہ حکومت بلوچستان 25؍ فیصد حصے کے مشترکہ مالکان ہیں۔ ڈاکٹر شاہ نے بتایا کہ 40؍ سال کی متوقع کان کنی کی مدت کے دوران ہر سال دو سے ڈھائی لاکھ ٹن تانبہ پیدا ہوگا، وہ بھی اس وقت جب دنیا میں تانبے کی طلب بڑھ رہی ہے اور اس میں اضافے کی وجہ دنیا کا صاف توانائی کی جانب منتقلی پر زیادہ دھیان دینا اور بنیادی انفراسٹرکچر کی ترقی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس منصوبے کے نتیجے میں 10؍ ہزار ملازمتیں پیدا ہوں گی، جن میں مختلف مہارتوں کے مقامی بلوچ کارکنوں کو ترجیح دی جائے گی۔ آپریشنل مرحلے میں منصوبہ تقریباً 3؍ ہزار براہ راست ملازمتیں اور ہزاروں بالواسطہ اور سپلائی چین کی ملازمتیں فراہم کرے گا۔
انصار عباسی

Post Views: 2.

ذریعہ: Daily Mumtaz

کلیدی لفظ: ا ئی ایف سی ڈالرز کا ملک کی کرے گا

پڑھیں:

اسٹیٹ بینک کی مانیٹری پالیسی جاری، شرح سود 11 فیصد پر برقرار

امپورٹ 53 ارب ڈالر سے بڑھ کر 59 ارب ڈالر رہی جو 11 فیصد زائد ہے، نان آئل امپورٹس میں 16 فیصد اضافہ ہوا اور معاشی سرگرمیوں کی وجہ سے نان آئل امپورٹ میں اضافہ ہوا۔ اسلام ٹائمز۔ اسٹیٹ بینک کی مانیٹری پالیسی کمیٹی نے شرح سود 11 فیصد پر برقرار رکھنے کا اعلان کیا ہے۔ گورنر اسٹیٹ بینک جمیل احمد نے مانیٹری پالیسی کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ پالیسی ریٹ 11 فیصد کی موجودہ سطح پر برقرار رہے گی، گزشتہ مالی سال اوسط افراط زر 4.5 فیصد رہا، جبکہ سال شرح سود اسٹیٹ بینک اور حکومت کی توقع پانچ سے سات فیصد سے کم رہا۔ انہوں نے کہا کہ فوڈ انفلیشن اور کور انفلیشن میں گزشتہ مالی سال نمایاں کمی آئی، کور انفلیشن 7.2 فیصد پر رہا اور جون میں افراط زر 3.2 فیصد رہا۔ اپریل میں افراط زر 0.3 فیصد پر آکر مئی اور جون میں اضافہ ہوا، رواں مالی سال کے شروع میں افراط زر میں اضافہ کم اور آگے چل کر زیادہ رہے گا۔ گورنر اسٹیٹ بینک نے کہا کہ توانائی کی قیمتوں میں ردوبدل سے بھی افراط زر پر اثر پڑے گا، مانیٹری پالیسی کمیٹی نے ایکسٹرنل اکاؤنٹ کا گہرائی سے جائزہ لیا۔ انہوں نے کہا کہ امپورٹ میں گزشتہ مالی سال نمو رہی، امپورٹ 53 ارب ڈالر سے بڑھ کر 59 ارب ڈالر رہی جو 11 فیصد زائد ہے، نان آئل امپورٹس میں 16 فیصد اضافہ ہوا اور معاشی سرگرمیوں کی وجہ سے نان آئل امپورٹ میں اضافہ ہوا۔

گورنر نے کہا کہ ترسیلات اور ایکسپورٹ میں بھی اضافہ ہوا، ایکسپورٹ کا اضافہ 4 فیصد تک محدود رہا، خسارے پر قابو پانے کیلئے ایکسپورٹ میں اضافہ ضروری ہے، گزشتہ مالی سال ترسیلات میں 8 ارب ڈالر کا اضافہ ہوا، ترسیلات اب قانونی اور باضابطہ طریقوں سے آ رہی ہے، ترسیلات بڑھنے سے کرنٹ اکاؤنٹ فاضل رہا۔ انہوں نے کہا کہ سال 2022ء میں جاری کھاتے کا خسارہ 17.5 ارب ڈالر تھا اور 2023ء میں جی ڈی پی کا ایک فیصد 2024 میں نصف فیصد رہا، اس سال جاری کھاتہ 14 سال بعد سرپلس رہا، جو کہ 22 سال کا بلند ترین سرپلس رہا۔ گورنر نے بتایا کہ اسٹیٹ بینک نے انٹر بینک مارکیٹ میں بھی سرگرمیاں کیں، جس سے شرح مبادلہ بہتر رہی، قرضوں کی ادائیگی کے باوجود زرمبادلہ کے ذخائر میں ایک سال کے دوران 5 ارب ڈالر کا اضافہ ہوا، گزشتہ سال 26 ارب ڈالر کی بیرونی قرضوں میں سے 10 ارب ڈالر کی ری پے منٹس کی گئیں، امپورٹ اور زرمبادلہ کی تمام ضروریات کو بینکنگ سیکٹر نے پورا کیا۔

معاشی نمو

گورنر اسٹیٹ بینک نے کہا کہ گزشتہ مالی سال معاشی نمو 2.7 فیصد رہی اور زرعی شعبے میں سست نمو سے معاشی ترقی کی رفتار کم رہی، البتہ صنعتی سرگرمیاں بہتر رہیں اور خدمات کے شعبے نے بھی اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا تھا۔ رواں مالی سال زرعی شعبے میں بہتری کی امید ہے جس سے معاشی نمو بھی بہتر رہے گی۔ انہوں نے کہا کہ رواں مالی سال افراط زر کا ہدف وسط مدتی 5 سے 7 فیصد کی رینج میں رہے گا، افراط زر میں اضافہ کی توقع ہے اس کے باوجود وسط مدت ہدف حاصل کریں گے۔ کچھ مہینوں میں افراط زر 7 فیصد سے زائد رہے گی تاہم اوسط 5 سے 7 فیصد رہے گا، کور انفلیشن میں کمی آرہی ہے جو آگے جاکر بڑھے گا۔

گورنر نے کہا کہ گزشتہ مالی سال جاری کھاتا سرپلس رہا اور اس سال امپورٹ میں اضافہ ہو رہا ہے جس سے جاری کھاتے پر اثر پڑے گا، رواں مالی سال جاری کھاتے کو جی ڈی پی کے صفر سے ایک فیصد خسارے کا سامنا ہوگا۔ انہوں نے بتایا کہ ترسیلات، امپورٹ اور ایکسپورٹ کی کارکردگی پر منحصر ہے کرنٹ اکاؤنٹ بیلنس کیا رہے گا۔ رواں مالی سال ترسیلات زر 40 ارب ڈالر سے زائد رہنے کی توقع ہے جبکہ معاشی ترقی کی شرح نمو رواں مالی سال 3.25 سے 4.25 فیصد کے درمیان رہے گی اور معاشی نمو میں زراعت کا حصہ 0.6 فیصد سے بڑھے گا۔

گورنر کا کہنا تھا کہ بڑی فصلوں کو بارشوں اور پانی کی دستیابی سے فائدہ ہوگا جبکہ زراعت کی کارکردگی گزشتہ سال سے بہتر لیکن 2024 سے کم رہے گی۔ صنعتی شعبے اور خدمات کی کارکردگی بھی بہتر رہنے کی توقع ہے۔ انہوں نے کہا کہ آبادی کی شرح نمو کے لحاظ سے معاشی نمو کو بھی زیادہ اور تیز ہونا ضروری ہے، پائیدار معاشی نمو کے لیے ایکسپورٹ میں اضافہ کرنا ہوگا۔ پائیدار معاشی نمو اور ایکسپورٹ سے بیرونی اکاؤنٹ پر ہر تین چار سال آنے والا دباؤ بھی کم ہوگا۔ گورنر کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم کی نگرانی میں زرعی قرضوں کی فراہمی بنانے کا پروگرام ترتیب دیا جا رہا ہے اور کمرشل اسپیشل بینکوں کے ساتھ مائکرو فنانس بینکوں کو بھی اس پروگرام میں شامل کیا جائے گا۔ زراعت کے شعبے کی شرح نمو ڈھائی فیصد تک رہنے کی امید ہے

قرضوں کی ادائیگی

گورنر اسٹیٹ بینک نے بتایا کہ رواں مالی سال 25.9 ارب ڈالر کے بیرونی قرضے ادا کرنا ہوں گے جبکہ قرضوں کی ادائیگی گزشتہ مالی سال سے قدرے کم رہے گی، گزشتہ مالی سال بھی 26 ارب ڈالر کے قرضے سیٹل کیے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ 16 ارب ڈالر کے قرضے رول اوور ہوں گے اور 10 ارب ڈالر ہمیں ادا کرنا ہوگا، 22 ارب ڈالر کے پرنسپل قرضے اور 4 ارب ڈالر کی سودی ادائیگیاں شامل ہیں۔ جون 2022 میں مجموعی پبلک قرضہ 100 ارب ڈالر تھا اور تین سال سے بیرونی قرضے اسی سطح پر برقرار ہیں، نئے قرضے لیتے ہیں لیکن پچھلے قرضے ادا کرتے ہیں۔

گورنر نے کہا کہ 2015 سے 2022 کے دوران 7 سال کے دوران سالانہ 6 ارب ڈالر کا اضافہ ہوا لیکن گزشتہ تین سال میں اضافہ نہیں ہوا، 2022 میں 43 فیصد قرضہ عالمی ترقیاتی اداروں سے طویل مدتی اور سستا قرضہ لیا، ملٹی لٹرل طویل مدتی سستے قرضوں کا تناسب 50 فیصد سے زائد ہے۔ انہوں نے کہا کہ سودی ادائیگیاں کم ہو رہی ہیں، بین الاقوامی مارکیٹ میں شرح سود 2 فیصد سے بڑھ کر 4.25 فیصد تک آگیا لیکن اس کے باوجود پاکستان کی سودی ادائیگیاں کم ہوئی ہیں، نئے قرضوں پر کم سود ادا کر رہے ہیں جبکہ قرضوں کی مدت میں بھی اضافہ ہوا ہے۔

گورنر نے کہا کہ بیرونی قرضوں کی پائیداری اور پاکستان کی قرضہ ادا کرنے کی صلاحیت بڑھ رہی ہے، بین الاقوامی ریٹنگ ایجنسیوں نے اسی وجہ سے پاکستان کی کریڈٹ ریٹنگ کو اَپ گریڈ کر دیا ہے۔ زرمبادلہ کے ذخائر 14 ارب ڈالر سے زائد ہیں جو اس سال کے قرضوں سے زائد ہے۔ انہوں نے کہ اکہ بین الاقوامی مارکیٹ میں پاکستان کے تین بانڈز پریمیئم پر ٹریڈ ہو رہے ہیں اور عالمی مارکیٹ میں پاکستان کی معیشت پر اعتماد بڑھ رہا ہے۔ گلوبل مارکیٹ میں پاکستانی بانڈز پریمیئم پر ٹریڈ ہونے سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہماری قرضہ لینے اور واجبات کی ادائیگی کی صلاحیت بہتر ہوئی ہے، اس وقت صورتحال انٹرنیشنل مارکیٹ سے سرمایہ حاصل کرنے کے لیے سازگار ہے۔

گورنر نے کہا کہ حکومت پانڈہ بانڈ پر کام کر رہی ہے، اس سال کے دوران دو بانڈز ستمبر میں 500 ملین اور آئندہ سال اپریل میں 1.3 ارب ڈالر کے یورو بانڈز میچور ہو رہے ہیں، 1.8 ارب ڈالر کے یورو بانڈز کے ساتھ 10 ارب ڈالر کے بیرونی قرضوں کی ادائیگی کریں گے۔ چھ ماہ قبل تک دنیا کے مرکزی بینکوں کا طرز عمل کچھ اور تھا، دنیا کے مرکزی بینکوں نے محتاط طرز عمل اختیار کیا ہے۔

ڈیجیٹل کرنسی اور کرنسی نوٹ

انہوں نے کہ اکہ اسٹیٹ بینک ڈیجیٹل کرنسی پر کام کر رہا ہے اور ایک آزمائشی پروجیکٹ کرنے کا ارادہ رکھتا ہے جس پر کام جاری ہے، حکومت نے کرپٹو سے متعلق قانون بھی بنا دیا ہے اور اس حوالے سے کونسل بنائی جا رہی ہے۔ جس طرح بہت سارے ممالک کے اسٹیٹ بینک ڈیجیٹل کرنسی پر پائلٹ پروجیکٹ کر رہے ہیں ہم بھی اسی طرح کریں گے۔ گورنر نے کہا کہ نئے کرنسی نوٹوں کا ڈیزائن منتخب کر لیا جس کے لیے بین الاقوامی ڈیزائنر کی مدد حاصل کرلی ہیں، کابینہ کی منظوری کے بعد نئے ڈیزائن کے نوٹوں پر کام شروع کر دیں گے۔

ترسیلات اور زرمبادلہ کے ذخائر

گورنر نے کہا کہ زرمبادلہ کے ذخائر دسمبر تک 15.5 ارب ڈالر تک پہنچ جائیں گے اس لیے زرمبادلہ کے لیے جون 2026 کا ہدف 17.5 ارب ڈالر رکھا ہے۔ یورو بانڈز جاری کیے تو ذخائر اس سطح سے بڑھ سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ انٹر بینک اور ایکس چینج کمپنیوں کے ساتھ ملک میں غیر قانونی مارکیٹ بھی موجود ہے۔ اسٹیٹ بینک 2 قانونی مارکیٹس کو ریگولیٹ اور مانیٹر کرتا ہے۔ اوپن مارکیٹ اسٹیٹ بینک کے دائرہ اختیار میں نہیں آتی اس کی سرگرمیوں کو قانون نافذ کرنے والے ادارے کنٹرول کرتے ہیں۔

جمیل احمد نے بتایا کہ انٹر بینک اور ایکسچینج کمپنیوں کو فعال طریقے سے دیکھتے ہیں ضرورت پڑنے پر فوری مداخلت کرتے ہیں، غیر قانونی مارکیٹ سے متعلق کوئی اطلاع ہوتی ہے تو سیکیورٹی اداروں کو دیتے ہیں۔ گولڈ کی اسمگلنگ کو حکومتی سطح پر کنٹرول کیا جائے گا۔ گورنر اسٹیٹ بینک کا کہنا تھا کہ ترسیلات سے متعلق پالیسی اقدامات کیے جائیں گے اور حکومت ترسیلات کی معاون اسکیم کو جاری رکھے گی، قانون نافذ کرنے والے ادارے غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام کریں گے۔

متعلقہ مضامین

  • روزانہ ایک کھرب 41ارب روپے کما کر مارک زکربرگ اور جیف بیزوز سے زیادہ امیر بن جانے والا شخص
  • اسٹیٹ بینک کی مانیٹری پالیسی جاری، شرح سود 11 فیصد پر برقرار
  • حضرت داتا گنج بخش رحمة اللہ علیہ کا تین روزہ سالانہ عرس 13تا15 اگست کو ہوگا،ڈپٹی وزیر اعظم اسحاق ڈار افتتاح کریں گے
  • امریکا پر 36 کھرب ڈالر کا قرض؛ حکومت کی شہریوں سے اتارنے میں مدد کی اپیل
  • خام تیل کی قیمتوں میں اضافہ
  • وزیراعظم نے پاک بزنس ایکسپریس کا افتتاح کردیا، ٹرین کا کرایہ کتنا ہوگا؟
  • پاکستان میں غیر ملکی سرمایہ کاری  میں 4.1 فیصد اضافہ ریکارڈ
  • معیشت کی ڈیجیٹلائزیشن سے عوامی سہولت میں اضافہ ہوگا: وزیراعظم
  • مہنگائی کی شرح 23.4 فیصد سے کم ہو کر 4.5 فیصد پر آگئی
  • پاکستان کی وسطی ایشیائی ممالک کو برآمدات میں 32 فیصد کمی، درآمدات میں 4 گنا اضافہ