معاہدہ ابراہیمی کا بنیادی مقصد مسلمان ممالک کی طرف سے اسرائیل کو تسلیم کرانا ہے: نجم سیٹھی
اشاعت کی تاریخ: 6th, July 2025 GMT
لاہور (ویب ڈیسک) اسرائیل کو تسلیم کرنے سے متعلق چند سال پہلے تشکیل پانے والا’’ ابراہم اکارڈ ‘‘ ایک بار پھر زیر بحث ہے اور اب اس سلسلے میں سینئر صحافی نجم سیٹھی نے بھی روشنی ڈالی ہے۔
نجی ٹی وی چینل کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے نجم سیٹھی کاکہناتھاکہ ’’معائدہ ابراہیمی کا بنیادی مقصد ہر اسلامی ملک کی طرف سے اسرائیل کو تسلیم کرنا ہے ، سفارتی تعلقات بنائے اور اس سلسلے میں پہلے چار ممالک کو تیار کیا تھا،اب سب کو تیار کرنا ہے اراس میں پاکستان کو بھی یہ کہہ دیا گیا ہے کہ دیکھے اگر باقی مسلمان ممالک کو ہم منوالیتے ہیں توآپ بھی تیار ہوجائیں، آپ کو بھی تسلیم کرنا پڑے گا۔
مشہور پاکستانی کرکٹر کار حادثے میں جاں بحق، سمپسنز کارٹون کی پیشگوئی؟
ان کامزید کہنا تھا کہ میرا خیال ہے کہ ہماری طرف سے یہ جواب دیاگیا ہوگا کہ جب وقت آئے گا، اگر باقی سب مسلمان ممالک تیار ہیں تو ہم تو بہت دو ر بیٹھے ہیں، اگر وہ لوگ جن کے وہاں مفادات ہیں، وہ تیار ہیں توہمیں کیا اعتراض ہوسکتا ہے۔
سینئر تجزیہ نگار نے مزید کہا کہ دراصل ہمیں تو بہت تکلیف ہوتی ہے کہ اسرائیل نے انڈیا کے ساتھ اتنے اچھے تعلقات بنائے ہوئے ہیں کہ ٹیکنالوجی کا تبادلہ بھی ہورہاہے ، مدد بھی ہورہی ہے، ہماری ملٹری اسٹیبلشمنٹ تو کب سے کہہ رہی تھی کہ کسی طریقے سے یہ انڈیا اور اسرائیل کے تعلقات کمزور کیے جائیں، ورنہ ہمارا بہت نقصان ہوگا، یہاں بڑے لوگ ہوں گے جو یہ سوچتے ہوں گے کہ اگرسعودی عرب ، اسرائیل کو تسلیم کرلیتا ہے تو ہم بھی ان کیساتھ مل کرکھڑے ہوجائیں گے ، ایسی کیا بات ہے، اب ظاہر ہے اگر جن کے مسائل ہیں، وہ تسلیم کرلیتے ہیں تو ہمارے ساتھ کیا مسئلہ ہے؟ اب تو یہ بھی سننے میں آرہاکہ مزاحتمیں تحریکوں کو بھی کسی نہ کسی سٹیج پر تیار کرلینا ہے کیونکہ بالآخر ان تنظیموں کو بھی عرب ممالک سے وسائل ملنے ہیں ، خاص طورپر ایران سے، اگر ایران مانے یا نہ مانے لیکن اگر باقی مسلمان ممالک مان لیتے ہیں توآپ کس کھاتے میں کھڑے ہیں، آپ کا مسئلہ کشمیر ہے، فلسطین نہیں۔ بنیادی طورپر فلسطین مسلمانوں کا مسئلہ بھی نہیں لیکن میرا خیال ہے کہ یہ کمٹمنٹ ہم کرآئے ہیں یا یہ اشارہ کرآئے ہیں کہ جب وقت آئے گا توہم دوسرے مسلمان ممالک کی لائن میں ہوں گے ، آپ ان کو منا لیں، ہمارا ایشونہیں۔
تحریک انصاف میں اندرونی اختلافات پھر نمایاں ہو گئے
مزید :.ذریعہ: Daily Pakistan
کلیدی لفظ: اسرائیل کو تسلیم مسلمان ممالک کو بھی ہیں تو
پڑھیں:
پاکستان کے ساتھ دفاعی معاہدہ: کیا سعودی عرب کے بعد دیگر عرب ممالک بھی حصہ بنیں گے؟
پاکستان کے ساتھ دفاعی معاہدہ: کیا سعودی عرب کے بعد دیگر عرب ممالک بھی حصہ بنیں گے؟ WhatsAppFacebookTwitter 0 18 September, 2025 سب نیوز
اسلام آباد (آئی پی ایس )پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان طے پانے والے دفاعی معاہدے کو بعض مبصرین عرب خطے کے لیے اہم قرار دے رہے ہیں۔ دونوں ملکوں کے درمیان یہ معاہدہ ایسے وقت میں ہوا ہے جب مشرقِ وسطی اور جنوبی ایشیا دونوں خطوں میں کشیدگی عروج پر ہے۔پاکستانی وزارتِ خارجہ کے مطابق دفاعی معاہدہ دونوں ممالک کے مشترکہ عزم کی نمائندگی کرتا ہے کہ کسی بھی جارحیت کی صورت میں مشترکہ دفاع کیا جائے گا اور کسی ایک ملک کے خلاف جارحیت دونوں کے خلاف جارحیت تصور کی جائے گی۔
گزشتہ دو برس کے دوران غزہ جنگ، پڑوسی ممالک پر حملے اور قطر پر اسرائیل کے حالیہ حملے نے خطے کی صورت حال کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ دوسری جانب مئی میں پاکستان اور بھارت کے درمیان چار روزہ جھڑپ نے دونوں ایٹمی ہمسایوں کو مکمل جنگ کے دہانے پر پہنچا دیا تھا۔ایسے موقع پر وزیرِاعظم شہباز شریف نے بدھ کو سعودی عرب کا دورہ کیا تھا، جہاں انہوں نے سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے ہمراہ ریاض کے الیمامہ پیلس میں ایک اسٹریٹجک باہمی دفاعی معاہدے پر دستخط کیے تھے۔
اس معاہدے نے نہ صرف دونوں اسلامی برادر ممالک کے تعلقات کو نئی بلندیوں پر پہنچا دیا ہے کہ بلکہ خطے میں پاکستان کی بڑھتی ہوئی سیاسی اور دفاعی اہمیت کو بھی اجاگر کیا ہے۔واضح رہے کہ وسطی ایشیائی اور عرب ریاستوں کا دفاع علاقائی اور عالمی طاقتوں سے مضبوط دفاعی تعاون سے جڑا ہے اور پاکستان نہ صرف اس خطے کی اہم دفاعی طاقت ہے بلکہ اسلامی دنیا کی واحد نوکلیئر پاور بھی ہے۔
قطر کے نشریاتی ادارے الجزیرہ کی ایک رپورٹ کے مطابق واشنگٹن کے اسٹِمسن سینٹر سے وابستہ سینئر تجزیہ کار اسفند یار میر نے معاہدے کو دونوں ممالک کے لیے ایک اہم موڑ قرار دیا۔ ان کے مطابق پاکستان نے سرد جنگ کے دوران امریکا کے ساتھ دفاعی معاہدے کیے تھے جو بعد ازاں ختم ہو گئے جب کہ چین کے ساتھ وسیع تعاون کے باوجود کوئی باضابطہ دفاعی معاہدہ موجود نہیں۔
سڈنی یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی کے محقق محمد فیصل کا کہنا ہے کہ یہ معاہدہ متحدہ عرب امارات اور قطر جیسے خلیجی شراکت داروں کے ساتھ مستقبل میں دوطرفہ دفاعی تعاون کے لیے بھی بنیاد فراہم کر سکتا ہے۔ ان کے بقول اس سے مشترکہ فوجی تربیت، دفاعی پیداوار اور سعودی عرب میں پاکستانی دستوں کی ممکنہ توسیع کے امکانات کھلیں گے۔
واضح رہے کہ اسرائیل نے رواں برس جون میں ایران پر حملہ کیا تھا جس کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان 12 روز تک جنگ جاری رہی۔ اسرائیلی کارروائیوں کا سلسلہ ایران تک ہی نہ رکا بلکہ اس نے 9 ستمبر کو غزہ جنگ کے ثالث ملک قطر پر بھی فضائی حملہ کیا، جس کے بعد خلیج تعاون کونسل کے رکن ممالک نے مشترکہ دفاعی نظام فعال کرنے کا اعلان کیا تھا۔ محمد فیصل کا کہنا ہے کہ ان حالات میں خلیجی ممالک امریکی سیکیورٹی ضمانت پر انحصار کم کرتے ہوئے پاکستان، ترکی اور مصر جیسے علاقائی ممالک کو فطری شراکت دار کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرریکوڈک منصوبے سے طویل المدتی سماجی و اقتصادی خوشحالی آئے گی، وفاقی وزیرخزانہ ریکوڈک منصوبے سے طویل المدتی سماجی و اقتصادی خوشحالی آئے گی، وفاقی وزیرخزانہ پاکستان اور چین کی دوستی وقت کی آزمائش پر پوری اتری: صدر آصف علی زرداری ڈریپ کو ایک بین الاقوامی معیار کی ریگولیٹری اتھارٹی بنانے کیلئے پر پرعزم ہیں،وزیر صحت مصطفی کمال شفاف اور فوری تحقیقات کیلئے ایف آئی اے و نادرا کے درمیان ڈیٹا شیئرنگ پر اتفاق اسلام آباد ہائیکورٹ، توشہ خانہ 2میں بریت کیس فوری سننے کیلئے درخواست سماعت کیلئے مقرر بانی پی ٹی آئی عمران خان کا ایکس اکاونٹ کون ہینڈل کر رہا ہے؟، تحقیقات جاریCopyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہماری ٹیم